اصلاحِ سخن :جس کو رنج والم نے گھیرا ہے

اساتذۂ اکرام سے اصلاح کی گزارش ھے

بخش دے گا جسے وہ چاہے گا
جس کو چاہے گا وہ عذاب کرے
جس کو رنج و الم نے گھیرا ہے
خواہشوں سے وہ اجتناب کرے
خود بھی اپنا حساب کر لینا
اس سے پہلے کہ وہ حساب کرے
حق و باطل ہو چکا ہے عیاں
جسے چاہے تو انتخاب کرے
زندگی ایک امتحان ہے دوست
رب تجھے اس میں کامیاب کرے
علم کہتے ہیں اس کو جو نیرؔ
پیدا ہستی میں انقلاب کرے
 

عظیم

محفلین
بخش دے گا جسے وہ چاہے گا
جس کو چاہے گا وہ عذاب کرے
۔۔۔۔'جسے وہ' میں روانی کی کمی لگ رہی ہ۔
بخش دے گا وہ جس کو چاہے گا
میرا خیال ہے کہ بہتر ہو گا
اور دوسرے میں صرف 'کرے' نہیں 'کرے گا' کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
مکمل شعرمیرا خیال ہے کہ یوں درست ہو گا
بخش دیتا ہے جس کو چاہتا ہے
چاہے جس کو بھی وہ عذاب کرے

جس کو رنج و الم نے گھیرا ہے
خواہشوں سے وہ اجتناب کرے
۔۔اچھا شعر ہے

خود بھی اپنا حساب کر لینا
اس سے پہلے کہ وہ حساب کرے
۔۔۔بہت خوب ہے، دوسرے میں 'اس سے' میں تنافر دور کرنے کے لیے
قبل اس کے کہ وہ حساب کرے
کیا جا سکتا ہے مگر اس میں بھی 'کے کہ' تنافر محسوس ہو رہا ہے

حق و باطل ہو چکا ہے عیاں
جسے چاہے تو انتخاب کرے
۔۔۔پہلے میں شاید 'تو' ٹائپ نہیں ہوا۔ مجھے لگتا ہے کہ 'یوں' ہونا چاہیے
مثلاً حق و باطل یوں ہو چکا ہے عیاں
اور دوسرا مصرع بھی
جس کا چاہے تو انتخاب کرے
ہو تو بہت خوب ہے

زندگی ایک امتحان ہے دوست
رب تجھے اس میں کامیاب کرے
۔۔واہ!

علم کہتے ہیں اس کو جو نیرؔ
پیدا ہستی میں انقلاب کرے
۔۔۔بہت اچھا لگا یہ شعر بھی
 
بخش دے گا جسے وہ چاہے گا
جس کو چاہے گا وہ عذاب کرے
۔۔۔۔'جسے وہ' میں روانی کی کمی لگ رہی ہ۔
بخش دے گا وہ جس کو چاہے گا
میرا خیال ہے کہ بہتر ہو گا
اور دوسرے میں صرف 'کرے' نہیں 'کرے گا' کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے۔
مکمل شعرمیرا خیال ہے کہ یوں درست ہو گا
بخش دیتا ہے جس کو چاہتا ہے
چاہے جس کو بھی وہ عذاب کرے

توجہ فرمائیے! عذاب کرنا درست محاورہ نہیں ہے ۔
 
تبدیلیوں کے بعد دوبارہ پیشِ خدمت ہے
خود بھی اپنا حساب کر لینا
اس کے پہلے کہ وہ حساب کرے
حق و باطل یوں ہو چکا ہے عیاں
جس کو چاہے تو انتخاب کرے
جس کو رنج و الم نے گھیرا ہے
خواہشوں سے وہ اجتناب کرے
زندگی ایک امتحان ہے دوست
رب تجھے اس میں کامیاب کرے
علم کہتے ہیں اس کو جو نیرؔ
پیدا ہستی میں انقلاب کرے
 

عظیم

محفلین
خود بھی اپنا حساب کر لینا
اس کے پہلے کہ وہ حساب کرے
۔۔'اس کے' عجیب لگ رہا ہے، میں بھی سوچتا ہوں آپ بھی دیکھیں ، شاید کسی طرح یہی مطلب ادا ہو جائے

حق و باطل یوں ہو چکا ہے عیاں
جس کو چاہے تو انتخاب کرے
۔۔یہ درست ہو گیا ہے

جس کو رنج و الم نے گھیرا ہے
خواہشوں سے وہ اجتناب کرے
۔۔۔اس شعر کی جگہ بدل دیں، پچھلے شعر کے دوسرے مصرع میں اور اس میں 'جس' کی تکرار اچھی نہیں لگ رہی

زندگی ایک امتحان ہے دوست
رب تجھے اس میں کامیاب کرے

علم کہتے ہیں اس کو جو نیرؔ
پیدا ہستی میں انقلاب کرے
۔۔یہ تو ماشاء اللہ پہلے ہی درست تھے
 

عظیم

محفلین
حق و باطل یوں ہو چکا ہے عیاں
جس کو چاہے تو انتخاب کرے
۔۔یہ درست ہو گیا ہے
اس شعر کے دوسرے مصرع کے بارے میں بھی میرا خیال تھا کہ 'جس کا چاہے تو انتخاب کرے' بہتر ہو گا۔ اگر 'جس کو چاہے تو انتخاب کرے' رکھنا ہے تو پہلے مصرع میں 'یوں' کی جگہ 'تو' بہتر ہو گا
 
Top