خورشید نیر
محفلین
استاتذۂ اکرم سے اصلاح کی گزارش ہے
مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
لہجے کو تیرے دیکھا تو حاجت نہیں رہی
کہدے تو یہ کہ تیری ضرورت نہیں رہی
اب خال خال ہی ہیں محبت سناش لوگ
ظاہر ہے ایسے کاموں سے رغبت نہیں رہی
مردہ سا ہو گیا ہے یہ تہذیب کا بدن
اس کے لہو میں اب وہ حرارت نہیں رہی
اب تو بہار آئے نہ آئے یہ غم نہیں
کیونکہ ہمیں بہار کی عادت نہیں رہی
اب میکدے میں باقی نہیں رسمِ مے کشی
زندہ وہ بادہ خواروں کی صحبت نہیں رہی
اب بھی محبتوں کا تو قائم ہے سلسلہ
لیکن وہ سوزِ رفتہ وہ شدت نہیں رہی
مفعول فاعلاتُ مفاعیل فاعلن
لہجے کو تیرے دیکھا تو حاجت نہیں رہی
کہدے تو یہ کہ تیری ضرورت نہیں رہی
اب خال خال ہی ہیں محبت سناش لوگ
ظاہر ہے ایسے کاموں سے رغبت نہیں رہی
مردہ سا ہو گیا ہے یہ تہذیب کا بدن
اس کے لہو میں اب وہ حرارت نہیں رہی
اب تو بہار آئے نہ آئے یہ غم نہیں
کیونکہ ہمیں بہار کی عادت نہیں رہی
اب میکدے میں باقی نہیں رسمِ مے کشی
زندہ وہ بادہ خواروں کی صحبت نہیں رہی
اب بھی محبتوں کا تو قائم ہے سلسلہ
لیکن وہ سوزِ رفتہ وہ شدت نہیں رہی
آخری تدوین: