اصلاحِ شعر و شاعری

انیس جان

محفلین
دیوانِ رحمان بابا میں رحمان بابا کی ایک غزل لکھی ہوئی ہے مجھے یقین نہیں ہورہا کہ ان کی ہوگی کیوں کے اس زمانے میں شاید اردو زبان وجود میں نہیں آئی تھی

بوصل تو مارا کجا ہات ہے
کہ وصل تو خیلے بڑی بات ہے

بکوی تو گفتم کہ مسکن کنم
ولے کہ مرا این درجات ہے

خمِ زلفِ تو گوشہِ ابروان
دلم را عجائب مقامات ہے

مکن پیش من وصف خورشید ماہ
از حسنت ایں کم علامات ہے

نگاہت نہ امروز خونم بریخت
کہ دائم ترا ہمچو عادات ہے

ز آغوش رحمان مرو بارقیب
کہ ایں سفلہ بدخوی و بدذات ہے

حسان خان
محمد وارث
 

حسان خان

لائبریرین
میں اِس غزل کے انتساب کی صحت کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہہ سکتا، کیونکہ میں لاعلم ہوں۔ لیکن جس چیز کا مجھے ذرا علم ہے وہ یہ ہے کہ رحمٰن بابا کی وفات ۱۷۰۶ء میں ہوئی ہے، جبکہ اردو کے ایک شاعر ولی دکنی کا سالِ وفات ۱۷۰۷ء ہے۔ لہٰذا یہ دونوں اشخاص ہم عصر تھے۔ نتیجتاً، یہ کہنا درست نہیں کہ اُس زمانے میں اردو کا وجود نہیں تھا، کیونکہ جس زبان کو اِمروز اردو کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اُس کی تین صد سال قدیم شکل کو ولی دکنی کے اردو دیوان میں دیکھا جا سکتا ہے۔
 
Top