اصلاح بہ اندازۂ ناپختگیِ ما؛ در ہر دو جہان نیست

نہ پوچھ آج ہے کیا ملک میرے زیرِ نگیں
ہے عرش زیرِ فلک اور فلک ہے زیرِ زمیں

حقیقتوں کا فسانہ نہ پڑھ مرے آگے
حقیقتوں سے تو بڑھ کر خیال پر ہے یقیں

یہیں تمام عناصر بکھر گئے تھے مرے
ذرا سا غور کریں تو ملے گا دل بھی یہیں

جہانِ زشت کو زیبا بنا دیا تو نے
کوئی جہاں میں بھلا تجھ سے بڑھ کے ہوگا حسیں؟

ہر ایک لحظہ نئی طرز کا ہے نغمۂ کن
ہر ایک لحظہ ہے عالم کا وقتِ باز پسیں

تخیلات کی دولت ہے میرے پاس ابھی
تو خود کو کیسے کہوں میں غریب اور مسکیں؟

اٹھو، قریب ہوا عشق کی نماز کا وقت
کہیں سے کان تک آئی ہے بانگِ مرغِ حزیں

یہ اور بات کہ وہ خاک ہے ستاروں کی
مگر یہ سچ ہے کہ ریحانؔ بھی ہے خاک نشیں
 
آخری تدوین:

فہد اشرف

محفلین
بہت خوب اور مشکل غزل ہے۔ ریحان بھائی آپ کے لیے ڈھیروں داد۔
گستاخی تو ہو گی لیکن کہنا چاہوں گا کہ مقطع میں پہلے مصرعے کا مضمون دوسرے میں اور دوسرے کا پہلے میں ادا ہوا ہوتا تو کچھ اور ہی بات ہوتی
 
بہت خوب اور مشکل غزل ہے۔ ریحان بھائی آپ کے لیے ڈھیروں داد۔
گستاخی تو ہو گی لیکن کہنا چاہوں گا کہ مقطع میں پہلے مصرعے کا مضمون دوسرے میں اور دوسرے کا پہلے میں ادا ہوا ہوتا تو کچھ اور ہی بات ہوتی
بہت شکریہ فہد بھائی پذیرائی کے لیے بے حد ممنون ہوں۔
مقطع کی بابت آپ درست فرماتے ہیں، بہتری کی کافی گنجائش موجود ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
واہ واہ ریحان میاں۔ یہ نا پختگی شما ہے تو پختگی شما کیا ہو گی!!! اصلاح سخن کا زمرہ بخش دو مبتدیوں کے لیے ہی ۔
 
Top