اصلاح : جلوۂ یار ہے ، شیشۂ ناب میں

فاخر

محفلین
جلوۂ یار ہے ، شیشۂ ناب میں
حضرت الف عین صاحب مدظلہ کی نظر کرم کی خصوصی درخواست کے ساتھ:

فاخرؔ

جلوۂ یار ہے ، شیشۂ ناب میں
چہرۂ یار ہے ، شیشہ ٔ ناب میں

ساقیا رک ذرا ، دیکھ لے تو سہی
حسنِ شہ کار ہے، شیشہ ٔ ناب میں

جلوۂ یار کی ہیں فقط بارشیں
ہر سو انوارہے ، شیشۂ ناب میں

مطلعِ حسن ہے ،گہرِ یا قوت ہے
جانِ گفتار ہے، شیشۂ ناب میں

پرتوِ فتنۂ سامری حسن ہے
مخفی اسرار ہے، شیشۂ ناب میں

ہو نوازش اگر ، پھر ہے کیاغم مجھے
شکل ِ ایثار ہے، شیشۂ ناب میں

مرحبا صائمو!مے کدے کو چلیں
لطفِ افطار ہے،شیشۂ ناب میں
 
مدیر کی آخری تدوین:
جلوۂ یار ہے ، شیشۂ ناب میں
حضرت الف عین صاحب مدظلہ کی نظر کرم کی خصوصی درخواست کے ساتھ:

فاخرؔ

جلوۂ یار ہے ، شیشۂ ناب میں
ایک شہ کار ہے ، شیشہ ٔ ناب میں

ساقیا رک ذرا ، دیکھ لے تو سہی
حسنِ شہ کار ہے، شیشہ ٔ ناب میں

جلوۂ یار کی ہیں فقط بخششیں
ہر سو انوارہے ، شیشۂ ناب میں

مطلعِ حسن ہے ،گہرِ یا قوت ہے
جانِ گفتار ہے، شیشۂ ناب میں

پرتوِ فتنۂ سامری حسن ہے
مخفی اسرار ہے، شیشۂ ناب میں

ہو نوازش اگر ، پھر ہے کیاغم مجھے
شکل ِ ایثار ہے، شیشۂ ناب میں

مرحبا صائمو!مے کدے کو چلیں
لطفِ افطار ہے،شیشۂ ناب میں

شیشۂ ناب
یں اتنی مشکل ترکیبیں گھول دی ہیں کہ ہمیں دانتوں پسینہ آرہا ہے۔ نہیں صاحب! ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ مشکل الفاظ کے پیچھے نہ جائیں بلکہ گہرے معنی پیدا کریں۔

آپ کی ردیف آخری شعر میں خوب استعمال ہوئی، مزہ آیا لیکن باقی اشعار میں ہمیں سمجھ نہیں آئی۔

ہر سو انوار کی بارش تو ہوسکتی ہے لیکن " ہر سو انوار ہے" کس طرح؟

گہر موتی کو کہتے ہیں اور یاقوت ایک پتھر کو۔ گوہرِ یاقوت کا مطلب ہمیں نہیں پتا!
 
آخری تدوین:

سید عاطف علی

لائبریرین
دیکھ لے تو سہی۔
یہاں دیکھ تو سہی یا دیکھ تو لے کہنا چاہا ھے ۔ ۔ اس لیے مصرع اوور ڈوز ہو رھا ہے۔ اہل زبان میں یہ اسلوب مقبول نہیں ہو گا۔
گہر در اصل گوھر کی ایک شکل ہے۔ اس کا وزن فعو ہونا چاہیے۔
ردیف تنگ ہے بحر چھوٹی ہے ۔ کئی شعر ردیف کے شایاں نہیں ۔
مطلع البتہ اچھا ہے اس لیے توقع اور زیادہ ہو جاتی ہے۔
 

فاخر

محفلین
شیشۂ ناب
یں اتنی مشکل ترکیبیں گھول دی ہیں کہ ہمیں دانتوں پسینہ آرہا ہے۔ نہیں صاحب! ہمارا مشورہ تو یہ ہے کہ مشکل الفاظ کے پیچھے نہ جائیں بلکہ گہرے معنی پیدا کریں۔

آپ کی ردیف آخری شعر میں خوب استعمال ہوئی، مزہ آیا لیکن باقی اشعار میں ہمیں سمجھ نہیں آئی۔

ہر سو انوار کی بارش تو ہوسکتی ہے لیکن " ہر سو انوار ہے" کس طرح؟

گہر موتی کو کہتے ہیں اور یاقوت ایک پتھر کو۔ بہرِ یاقوت کا مطلب ہمیں نہیں پتا!

آخری شعر میں جو "لطف " پیدا ہوا وہ دخت رز (سگریٹ کے تلخ کش کا کمال ہے ...اس کے علاوہ خود مجھے ہوش نہیں کہ فاعلن کے سانچے میں کون کون سا لفظ رکھ دیا... خیر! لاف گزینی ہے میری، اسے شاعری نہ سمجھیں!
 

فاخر

محفلین
دیکھ لے تو سہی۔
یہاں دیکھ تو سہی یا دیکھ تو لے کہنا چاہا ھے ۔ ۔ اس لیے مصرع اوور ڈوز ہو رھا ہے۔ اہل زبان میں یہ اسلوب مقبول نہیں ہو گا۔
گہر در اصل گوھر کی ایک شکل ہے۔ اس کا وزن فعو ہونا چاہیے۔
ردیف تنگ ہے بحر چھوٹی ہے ۔ کئی شعر ردیف کے شایاں نہیں ۔
مطلع البتہ اچھا ہے اس لیے توقع اور زیادہ ہو جاتی ہے۔
گہر کے متعلق آپ نے درست کہا ہے ....
آپ کی شکایت بجا ہے! بقول حضرت اکبر الہ آبادی
"نا تجربہ کاری سے واعظ کی یہ ہیں باتیں" دھیرے دھیرے تجربہ ہوتا رہے گا ۔۔۔
 

الف عین

لائبریرین
اگر واقعی اصلاح کے متمنی ہیں تو بھائی خلیل اور عاطف کے اعتراضات پر غور کریں۔ محض اپنی غلطی ماننے سے اصلاح نہیں ہو سکتی۔ متبادل پیش کرو، تب پھر سے دیکھا جائے۔
اب تک جو بھی شاعری پیش کی ہے، ان پر اصلاحی تجاویز کے بعد کیا کچھ تبدیلیاں کی ہیں اس کا تو کسی کو علم ہی نہیں ہو سکا! اس طرح اصلاح نہیں ہوتی۔ تبدیلی کے بعد وہی غزل پھر پیش کریں،. ممکن ہے کہ کچھ نئی اغلاط در آئی ہوں!
 
Top