اصلاح : حسن دے شرار دے، شاہد و شراب دے (غزل)

فاخر

محفلین
غزل
فاخرؔ

حسن دے شرار دے، شاہد و شراب دے
شوخ سی بہار دے ، شاہد و شراب دے
قوم کی خرابئ ذوق کہہ رہی ہے یہ !
جام دے نگار دے ، شاہد وشراب دے
واعظ و فقیہ ، رندوخراب حال بھی
کہہ رہے ہمیں بھی دے، شاہد و شراب دے
ہم عناں نہیں نشہ اور جام سے کبھی
ان کی ہے پکار، دے! شاہد و شراب دے

آرزو ہمی کنم ، صد ہزار می کنم
ساقیا!نگار!دے ! شاہد وشراب دے
 

الف عین

لائبریرین
اس کی ردیف میری ناقص عقل میں نہیں آ سکی ،شاید محفل میں کوئی اور اصلاح کر سکے، میں تو خود کو اس قابل نہیں سمجھتا
 

La Alma

لائبریرین
اس کی ردیف میری ناقص عقل میں نہیں آ سکی ،شاید محفل میں کوئی اور اصلاح کر سکے، میں تو خود کو اس قابل نہیں سمجھتا
محبوب کا نام تو شاہد نہیں ہو سکتا۔ شاید یہ مے نوشی پہ کوئی گواہ بھی تلاش کر رہے ہیں۔ :)
"ساقیا شراب دے"، بہتر صورت ہو سکتی ہے۔
 

فاخر

محفلین
محبوب کا نام تو شاہد نہیں ہو سکتا۔ شاید یہ مے نوشی پہ کوئی گواہ بھی تلاش کر رہے ہیں۔ :)
"ساقیا شراب دے"، بہتر صورت ہو سکتی ہے۔
اس کی ردیف میری ناقص عقل میں نہیں آ سکی ،شاید محفل میں کوئی اور اصلاح کر سکے، میں تو خود کو اس قابل نہیں سمجھتا
کچھ تو اس سلسلے میں رہنمائی فرمائیں سر!!!
 

سید عاطف علی

لائبریرین
اس کی ردیف میری ناقص عقل میں نہیں آ سکی ،شاید محفل میں کوئی اور اصلاح کر سکے، میں تو خود کو اس قابل نہیں سمجھتا
محبوب کا نام تو شاہد نہیں ہو سکتا۔ شاید یہ مے نوشی پہ کوئی گواہ بھی تلاش کر رہے ہیں۔ :)
"ساقیا شراب دے"، بہتر صورت ہو سکتی ہے۔
یہاں رحمانی شاہد بطور محبوب لائے ہیں نام تو خیر نہیں ہے۔ (شاہد ہستیءمطلق کی کمر ہے عالم۔لوگ کہتے ہیں کہ ہے پر ہمیں منظور نہیں)
البتہ شاہد و شراب کی بیک وقت آرزو کرنا عاشق کے لیے ایک عجیب مخمصے کا شکار ہونے کی طرف دلالت کرتا ہے ، کیوں کہ جب شاہد ابھی ہے ہی نہیں تو شراب کی کیا تک بنتی ہے ۔
شراب کی خواہش کا معاملہ شاہد کی موجودگی کسی پہلو پر موقوف ہونا چاہیئے ۔ ۔ ۔
ویسے ساقیا شراب دے بہت بہتر دریف ہے۔
واعظ والاشعر رند کے نون پر نصف بحر پر منطبق ہورہا ہے یہ اس بحر کے لحاظ سے اسلوب کی کمزوری لگتی ہے ۔
اور اس کا دوسرا مصرع بھی کچھ اسلوب میں کمزور لگ رہاہے۔
 
غزل
فاخرؔ

حسن دے شرار دے، شاہد و شراب دے
شوخ سی بہار دے ، شاہد و شراب دے
قوم کی خرابئ ذوق کہہ رہی ہے یہ !
جام دے نگار دے ، شاہد وشراب دے
واعظ و فقیہ ، رندوخراب حال بھی
کہہ رہے ہمیں بھی دے، شاہد و شراب دے
ہم عناں نہیں نشہ اور جام سے کبھی
ان کی ہے پکار، دے! شاہد و شراب دے

آرزو ہمی کنم ، صد ہزار می کنم
ساقیا!نگار!دے ! شاہد وشراب دے
 

فاخر

محفلین
تجزبہ کا شکریہ !!! جی بہتر ہے !!! شاہد اور شراب کی تعبیر فارسی غزل گو شعراء بالخصوص حافظؔ علیہ الرحمہ کے کلام سے مستعار ہے۔"اے شاہد قدسی کہ کشد بند نقابت" ،عموماً حافظؔ کے یہاں شاہد سے محبوب ہی مراد ہوتے ہیں۔اور اسی طرح سے ’’شاہد آن نیست کہ‘‘ خیر!!! بیک وقت شاہد اور شراب کی طلب مخمصے کی طرف اشارہ کررہا ہو؛لیکن میرے ناقص ’’خیال‘‘ کے حساب سے ’’شاہد وشراب‘‘ کا ایک ساتھ مل جانا لذت کام و دہن کی کام جوئی کی معراج ہے۔ اس کا جواب شاید حافظؔ علیہ الرحمہ کے یہاں بھی مل جائے ۔ خیر !!! معذرت کے ساتھ بقول حافظؔ : ’’زاهد ظاهرپرست از حال ما آگاه نیست‘‘
 

سید عاطف علی

لائبریرین
تجزبہ کا شکریہ !!! جی بہتر ہے !!! شاہد اور شراب کی تعبیر فارسی غزل گو شعراء بالخصوص حافظؔ علیہ الرحمہ کے کلام سے مستعار ہے۔"اے شاہد قدسی کہ کشد بند نقابت" ،عموماً حافظؔ کے یہاں شاہد سے محبوب ہی مراد ہوتے ہیں۔اور اسی طرح سے ’’شاہد آن نیست کہ‘‘ خیر!!! بیک وقت شاہد اور شراب کی طلب مخمصے کی طرف اشارہ کررہا ہو؛لیکن میرے ناقص ’’خیال‘‘ کے حساب سے ’’شاہد وشراب‘‘ کا ایک ساتھ مل جانا لذت کام و دہن کی کام جوئی کی معراج ہے۔ اس کا جواب شاید حافظؔ علیہ الرحمہ کے یہاں بھی مل جائے ۔ خیر !!! معذرت کے ساتھ بقول حافظؔ : ’’زاهد ظاهرپرست از حال ما آگاه نیست‘‘
آپ کی بات بالکل درست ہے ۔
لیکن یہاں اول اول شاہد و شراب دے کا اسلوب اس بات کا غماز محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تک شاہد کا سرے سے ابھی وجود ہی نہیں اس لیے عطا کی خواہش کی جارہی ہے۔۔۔
لذت کام و دہن کی معراج بھی ٹھیک ہے لیکن وہ شاہد اور شراب کے عاشق کے ساتھ یکجا ہو جانے پر ہے نہ کہ دونوں کے ایک دم فراہم ہوجانے پر ۔ بہر حال یہ تاثر محض میرا پرسیپشن ہو سکتا ہے۔
 

فاخر

محفلین
’’شکریہ‘‘ !!! نظریات و محسوسات کا ’’اختلاف‘‘ اپنی جگہ !! آپ ہمارے لیے محترم ہیں۔
 
Top