خوش آًدید طاہر جاوید، جیسا محمود مغل نے لکھا ہے، کچھ معمولی سی اغلاط ہیں، ورنہ کلام مائل بہ موزونیت ہے۔ اس لحاظ سے سفر درست سمت میں ہے۔
کیوں آج کوئ ادا نھیں باقی
فگار دل کی صدا نہیں باقی
//پہلا مصرع خارج از بحر ہے، ’آج کوئی ادا نہیں باقی ہی کافی‘ ہے، لیکن دوسرے مصرع میں فگار دل کی صدا‘ کچھ بے معنی بھی ہے اور اس کے اوزان بھی خطا ہیں۔ مطبلب سمجھ میں آئے تو کچھ مشورہ دیا جائے۔
شدتیں میری غلطیاں شائد
تجھ سے کوئی گلہ نہیں باقی
پہلا مصرع میں بات مکمل نہیں ہے گرامر کی رو سے۔ شاید یہ مطلب ہے؟
غلطیاں اپنی مان لیتا ہوں
بے اماں کر گیا تیرا جانا
کوئ بھی سلسلہ نہیں باقی
درست، بلکہ اچھا شعر ہے۔
بس کمی کہ صرف تمہاری ھے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں باقی
پہلا مصرع بحر سے خارج ہے۔ یوں کیا جا سکتا ہے
اک کمی سی تھی، بس تمیاری تھی
یا اک کمی سی فقط تمہاری تھی
اور بھی ممکن ہیں، ممکن ہے میرے مشوروں سے بہتر کچھ اور بھی سوچ سکیں۔
اس قدر حوصلہ نہیں باقی
شام بے جام و بنا ساقی
ایک اور مطلع کیوں؟ یا شاید یہ دو الگ الگ اشعار ہو سکتے ہیں۔ دوسری مصرع بحر سے خارج ہے
شام بے جان اور بنا ساقی
ممکن ہے۔