محمد شکیل خورشید
محفلین
ہجر کی رات یاد آئی نہیں
دل کی برسات یاد آئی نہیں
ان سے کرنی تھی کچھ ضروری بات
بس وہی بات یاد آئی نہیں
ان سے نسبت کی بات کر بیٹھا
اپنی اوقات یاد آئی نہیں
کب گرفتارِ دامِ ناز ہوئے
وہ ملاقات یاد آئی نہیں
کُل جہاں جس کے اختیار میں ہے
ایک وہ ذات یاد آئی نہیں
کھیل بیٹھے ہیں اور اک بازی
عشق میں مات یاد آئی نہیں
آگئی تھی کسی کی یاد شکیل
پھر کوئی بات یاد آئی نہیں
دل کی برسات یاد آئی نہیں
ان سے کرنی تھی کچھ ضروری بات
بس وہی بات یاد آئی نہیں
ان سے نسبت کی بات کر بیٹھا
اپنی اوقات یاد آئی نہیں
کب گرفتارِ دامِ ناز ہوئے
وہ ملاقات یاد آئی نہیں
کُل جہاں جس کے اختیار میں ہے
ایک وہ ذات یاد آئی نہیں
کھیل بیٹھے ہیں اور اک بازی
عشق میں مات یاد آئی نہیں
آگئی تھی کسی کی یاد شکیل
پھر کوئی بات یاد آئی نہیں
مدیر کی آخری تدوین: