محمد شکیل خورشید
محفلین
رہ بدلتا رہا ہوں ساری عمر
پھر بھی چلتا رہا ہوں ساری عمر
غم چھپاتا رہا ہوں سینے میں
خوں اُگلتا رہا ہوں ساری عمر
ہر قدم پر بھٹکنا چاہا تھا
پر سنبھلتا رہا ہوں ساری عمر
وقت نے جو سکھائے تھے کردار
ان میں ڈھلتا رہا ہوں ساری عمر
خار بن کر سبھی کی آنکھوں میں
جیسے کَھلتا رہا ہوں ساری عمر
ایک ناممکنہ سی خواہش پر
میں مچلتا رہا ہوں ساری عمر
شہر کی آگ تھی یا دل کی تپش
جس میں جلتا رہا ہوں ساری عمر
دل میں کس بات کا تھا جانے ملال
ہاتھ ملتا رہا ہوں ساری عمر
بار لے کر ندامتوں کا شکیل
جھک کے چلتا رہا ہوں ساری عمر
پھر بھی چلتا رہا ہوں ساری عمر
غم چھپاتا رہا ہوں سینے میں
خوں اُگلتا رہا ہوں ساری عمر
ہر قدم پر بھٹکنا چاہا تھا
پر سنبھلتا رہا ہوں ساری عمر
وقت نے جو سکھائے تھے کردار
ان میں ڈھلتا رہا ہوں ساری عمر
خار بن کر سبھی کی آنکھوں میں
جیسے کَھلتا رہا ہوں ساری عمر
ایک ناممکنہ سی خواہش پر
میں مچلتا رہا ہوں ساری عمر
شہر کی آگ تھی یا دل کی تپش
جس میں جلتا رہا ہوں ساری عمر
دل میں کس بات کا تھا جانے ملال
ہاتھ ملتا رہا ہوں ساری عمر
بار لے کر ندامتوں کا شکیل
جھک کے چلتا رہا ہوں ساری عمر