یاسر علی

محفلین
اصلاح درکار ہے


تبسم ان لبوں پر تم سجا کر سیلفی دے دو
مرے نذدیک سے نذدیک آ کر سیلفی دے دو

جو جاری ہے ہماری چشم سے تھم جائے وہ چشمہ
اگر تم چشم پر چشمہ لگا کر سیلفی دے دو

بہت ممکن ہے بارش پیار کی دل پر برس جائے
مرے شانے پہ زلفیں تم گرا کر سیلفی دے دو

دل۔ تشنہ کی ممکن ہے کہ ساری تشنگی ہو دور
نگاہوں سے نگاہیں تم ملا کر سیلفی دے دو

تری پازیب کی آواز سے ہر انگ ناچے گا
کبھی تم کان پر جھمکے لگا کر سیلفی دے دو

نہ کوئی کر سکے گا سیلفی سے ہی جدا ہم کو
چلو جاناں گلے اپنے لگا کر سیلفی دے دو

بہت تم خوبصورت پر کشش جانم نظر آؤ
کوئی انداز اچھا سا بنا کر سیلفی دے دو

ہمارے عشق کی جانم گواہی سیلفی دے گی
چلو اب ہاتھ ہاتھوں میں تھما کر سیلفی دے دو

نہ اپنا سر جھکا میثم بہت جلدی ملیں گے ہم
سنو جلدی سے اپنا سر اٹھا کر سیلفی دے دو
یاسر علی میثم
 

الف عین

لائبریرین
اچھی مزاحیہ غزل ہے، اصلاح کی گنجائش ایک مصرع میں ہی ہے
تری پازیب کی آواز سے ہر انگ ناچے گا
میں تخاطب تو سے ہے جب کہ غزل میں مکمل تم سے خطاب ہے۔
 

یاسر علی

محفلین
جی بالکل غلطی ہے۔
الف عین بے حد مشکور ہو آپ نے قیمتی وقت دیا۔
اور حوصلہ افزائی کی ۔ امید ہے آئندہ بھی اصلاح کرو گے آپ۔میں یہاں سے مستفید ہونا چاہوں گا۔۔































ل

















م

می

میں

میں








ا
او
رو
رو



ا
اووررررو
رو
رو
 
Top