اصلاح درکار ہے

کہتے شوہر کے دل کا راستہ اسکے پیٹ سے ہو کر جاتا ہے۔ میرا نہیں خیال کہ یہ کہاوت صرف کسی خاص علاقہ کے لوگوں کے لئے مخصوص ہیے بالکہ دنیا کے ہر ملک میں ہر شہر میں اور دنیا کی ہر زبان میں ایسی کہاوتیں ، ضرب المثل ، محاورے رائج ہیں۔
لیکن اس کہاوت کا تعلق کھانے پینے سے زیادہ محبت سے ہے۔ بچہ جب زندگی کے مختلف مراحل سے ہوتا ہوا رشتہ ازدواج میں بندھتا ہے تو خواہشات کی لمبی فہرست میں بیوی کے بنے ہوئے خوش ذائقہ پکوانوں سے لطف اندوز ہونے کی امید بھی دل میں لگائے بیٹھا ہوتا ہے۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ اس فن سے ناشناس ہونے کی وجہ سے حدیں بڑھ گیئں۔
اگر بازار سے کھانا منگوا لیا جائے اس میں کیا ہرج ہے؟ جگہ جگہ ہوٹل کھلے ہیں یہ کس مرض کی دوا ہیں؟
یہ تو مزدوروں اور مسافروں کے لئیے ہیں، اور جو جن کا کوئی نہیں، ان کے لئے محبت کرنے والا کوئی نہیں۔
متحمل گھرانے ملازمہ یا باورچی رکھ لیتے ہیں تاکہ گھر کے کام کاج کے ساتھ کھانا بھی بنوالیں۔ بازار سے تو قدرے بہتر ہوگا، صفائی بھی ہوٹل سے بہتر ہی ہو گی۔ پر دل کا راستہ، اس کا کیا ہو گا؟
دل کا راستہ تو آنکھ کھولتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ ماں کواپنے بچوں سے بہت محبت ہوتی ہے۔ اور بچے کو بھی اپنی ماں سے بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ کوئی کچھ ہو جائے بچہ ماں کے پاس آئے گا۔ اور آنا بھی چاہیئے۔ ایک بچہ جس کی کل کائنات اسکے ماں باپ ہی تو ہوتے ہیں ہر درد کا مداوا کرنے کو۔
آج کل دفاتر میں جہاں دوسری سہولیات میسر ہیں وہاں کھانے کی سہولت بھی دی جارہی ہے پھر بھی یہ دیکھا گیا ہے ساٹھ فیصد سے کم افراد مفت سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔مجھ سے اکثر یہ پوچھا گیا ہے تم اتنے اچھے کھانے پر اعتراز کرتے ہو، علاقے کے بہترین ہوٹل سے کھانا آتا ہے، کڑاہی، قوفتے، بریانی، بون لس، چائنیز اور کل ملا کر دس طرح کے پکوان کا مزاہ اڑاتے ہو، پھر بھی بولتے ہو اسمیں یہ مرچیں زیادہ ہیں تیل زیادہ ہے، گرے وی کم ہے، روٹی سخت ہے، سلاد نہیں ٹھیک ، یہ
نقص ہے وہ نقص ہے۔ تمہیں کبھی کوئی کھانا پسند بھی آیا ہے؟


".ہاں میری ماں کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا، جس کی خوشبو اور ذائقہ کا کوئی مقابلہ نہیں"
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
".ہاں میری ماں کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا، جس کی خوشبو اور ذائقہ کا کوئی مقابلہ نہیں"
آپ کی اس بات سے سو فیصد متفق ہیں ہم۔ واقعی امی جان کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا خوشبو، ذائقہ، لذت الغرض ہر لحاظ سے لا جواب ہوتا تھا۔​
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
کہتے شوہر کے دل کا راستہ اسکے اس کے پیٹ سے ہو کر جاتا ہے۔ میرا نہیں میرے خیال میں ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ کہاوت صرف کسی خاص علاقہ کے لوگوں کے لئے لیے مخصوص ہیے بالکہ ہے بلکہ دنیا کے ہر ملک میں ،ہر شہر میں اور دنیا کی ہر زبان میں ایسی کہاوتیں ، ضرب المثل ضرب الامثال، محاورے رائج ہیں۔(کہاوتیں اور محاورے جمع ہیں تو ضرب المثل کی بھی جمع ہی ہونا چاہیے)
لیکن اس کہاوت کا تعلق کھانے پینے سے زیادہ محبت سے ہے۔ بچہ جب زندگی کے مختلف مراحل سے ہوتا ہوا رشتہ ازدواج میں بندھتا ہے تو خواہشات کی لمبی فہرست میں بیوی کے بنے ہوئے خوش ذائقہ پکوانوں سے لطف اندوز ہونے کی امید بھی دل میں لگائے بیٹھا ہوتا ہے۔ ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ اس فن سے ناشناس ہونے کی وجہ سے حدیں بڑھ گیئں۔
اگر بازار سے کھانا منگوا لیا جائے اس میں کیا ہرج ہے؟ جگہ جگہ ہوٹل کھلے ہیں یہ کس مرض کی دوا ہیں؟
یہ تو مزدوروں اور مسافروں کے لئیے لیے ہیں، اور جو جن کا کوئی نہیں، ان کے لئے لیے محبت کرنے والا کوئی نہیں۔
متحمل گھرانے ملازمہ یا باورچی رکھ لیتے ہیں تاکہ گھر کے کام کاج کے ساتھ کھانا بھی بنوالیں۔ بازار سے تو قدرے بہتر ہوگا، صفائی بھی ہوٹل سے بہتر ہی ہو گی۔ پر دل کا راستہ، اس کا کیا ہو گا؟
دل کا راستہ تو آنکھ کھولتے ہی شروع ہو جاتا ہے۔ ماں کواپنے بچوں سے بہت محبت ہوتی ہے۔ اور بچے کو بھی اپنی ماں سے بہت سی امیدیں وابستہ ہوتی ہیں۔ کوئی کچھ ہو جائے بچہ ماں کے پاس آئے گا۔ اور آنا بھی چاہیئے۔ ایک بچہ جس کی کل کائنات اسکے اس کے ماں باپ ہی تو ہوتے ہیں ہر درد کا مداوا کرنے کو۔
آج کل دفاتر میں جہاں دوسری سہولیات میسر ہیں وہاں کھانے کی سہولت بھی دی جارہی ہے پھر بھی یہ دیکھا گیا ہے ساٹھ فیصد سے کم افراد مفت سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔مجھ سے اکثر یہ پوچھا گیا ہے تم اتنے اچھے کھانے پر اعتراز اعتراض کرتے ہو، علاقے کے بہترین ہوٹل سے کھانا آتا ہے، کڑاہی، قوفتے، کوفتے بریانی، بون لس لیس ، چائنیز اور کل ملا کر دس طرح کے پکوان کا مزاہ اڑاتے ہو، پھر بھی بولتے ہو اس میں یہ مرچیں زیادہ ہیں تیل زیادہ ہے، گرے وی کم ہے، روٹی سخت ہے، سلاد نہیں ٹھیک ، یہ
نقص ہے وہ نقص ہے۔ تمہیں کبھی کوئی کھانا پسند بھی آیا ہے؟
".ہاں میری ماں کے ہاتھ کا بنا ہوا کھانا، جس کی خوشبو اور ذائقہ کا کوئی مقابلہ نہیں"
کوفتن = کوٹنا۔
کوفتہ= کوٹا ہوا۔
گوشت کو کوٹ کر بنائی جانے والی ڈِش
 

فارقلیط رحمانی

لائبریرین
گرائمر اور املاء کی غلطیاں اپنی جگہ
میرا اشارہ تحریر کے مضمون کی طرف تھا، تحریر کے تین حصے ہیں، تینوں حصے مکالمے کی شکل میں ہونا چاہیے تھے، وغیرہ وغیرہ
 
Top