اصلاح درکار ہے

Shahzad hussain

محفلین
ستاد گرامی غزل کو چیک کیجیے اور جہاں اصلاح کی ضرورت مہربانی فرما کے کر دیجیئےدیجیئے


زلف محبوب کا کیا خوب نظارہ ہو گا
ڈوبتے وقت ہمیں کچھ تو سہارا ہو گا
وہ تجھے بھول گیا بھولنے دے غم نہ کر
تیری قسمت میں کوئی اور ستارہ ہو گا
رات کی نیند گئی دن کا سکوں کھو بیٹھے
بیٹھے ہیں تاک میں کب ہم کو اشارہ ہو گا
دِل کا سودا ہے منافع نہیں تکتے اِس میں
گھاٹے میں ہم رہیں کب ان کو گوارا ہو گا
سائل اب لوٹ چلو بیٹھنے سے کیا حاصل
شام ڈھلنے سے ذرا پہلے پکارا ھو گا
 

x boy

محفلین
خوب
زلف محبوب کا کیا خوب نظارہ ہو گا
ڈوبتے وقت ہمیں کچھ تو سہارا ہو گا

دور سے بہت اچھے لگتے ہیں جب رات پنکھے کی ہوا ان زلفوں کو منہ اڑا پھرتے ہیں تو پتا چلتا زلف اچھی ہوتی ہے یا نیند حرام ہونا۔
images
 

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے، اصلاح کی بہت زیادہ ضورورت تو نہیں۔ لیکن دو باتیں پھر بھی
ای ۔۔ سہارا ہونا محاورہ نہیں سنا۔ سہارا ملے گا بولا جاتا ہے میرے خیال میں۔
اور یہ
دِل کا سودا ہے منافع نہیں تکتے اِس میں
گھاٹے میں ہم رہیں کب ان کو گوارا ہو گا
منافع ’تکنا‘ چہ معنی دارد؟ گھاٹے میں ۔۔ کی ’ے‘ کا اسقاط بھی گوارا نہیں
 

ابن رضا

لائبریرین
بہت خوب ۔ بیتِ ثانی کے مصرع اولٰی میں "نہ" کو ہجائے بلند باندھا گیا ہے جب کہ یہ کوتاہ باندھا جاتا ہے

اس طرف شاید سر الف عین کا دھیان نہیں گیا
 
ای ۔۔ سہارا ہونا محاورہ نہیں سنا۔ سہارا ملے گا بولا جاتا ہے میرے خیال میں۔
چاچو، سہارا ملنا یقیناً محاورہ ہے لیکن ہم نے "سہارا ہونا" بھی مستعمل پایا ہے۔ اب یہ کتنا فصیح ہے اس پر کوئی رائے دینے سے قاصر ہیں۔ مثلاً عام بول چال میں کہا جاتا ہے کہ "اے رب اب تیرا ہی سہارا ہے"۔ اسی طرح ایک غزل میں بھی کچھ یوں سنا ہے:

ہر چند سہارا ہے ، تیرے پیار کا دل کو
رہتا ہے مگر ، ایک عجب خوف سا دل کو

ویسے آپس کی بات ہے کہ ہم نے بھی اپنی ایک تک بندی میں اسے کچھ یوں استعمال کیا ہے:

رہگزر زیست کی لمبی سہی دشوار سہی
سہل ہو جاتی اگر تیرا سہارا ہوتا

:) :) :)
 

الف عین

لائبریرین
سعود میاں کی بات سے متفق ہوں، ’کا سہارا ہے‘ تو درست ہے لیکن میرا اعتراض
ڈوبتے وقت ہمیں کچھ تو سہارا ہو گا
یعنی ’کو سہارا‘ پر اعتراض تھا،
ہاں ’نہ‘ بطور ’نا‘ استعمال پر اعتراض اکثر میں چھوڑ دیا کرتا ہوں، اگرچہ یہ مجھے پسند نہیں!!
 
Top