اصلاح سخن : برائے تنقید (غزل)

فاخر

محفلین
عالی جناب قابل صد تکریم جناب الف عین صاحب کی توجہ کی درخواست کے ساتھ

افتخاررحمانی فاخرؔ
التجا ہے مری ، اک نظر دیکھ لے
غیر بن کے سہی ہاں مگر دیکھ لے
التفات کرم سے سنور جائے گا
یہ جہاں اور دیں تو اگر دیکھ لے
ہوش جاتا رہے گا جنوں ساز کا
بن کے موسیٰ کوئی شرر دیکھ لے
عشق کی سوزشیں دیکھنے ہیں تجھے ؟
اے صنم تھام کر تو جگر دیکھ لے
تو اثاثہ ہے مرا ، آگہی ہے مری
فیض سے جو ملا ، وہ ہنر دیکھ لے
عشق کی گرمیاں جام میں گھول کر
پی گیا ایک دن بے خطر دیکھ لے
 

الف عین

لائبریرین
اتنے احترام سے مجھے یاد کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ اک نظر دیکھ لے! خیر مذاق برطرف
کچھ مصرعے بحر سے خارج ہیں جو ممکن ہے کہ ٹائپو ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ کم از کم مجھے کوما کا استعمال بہت پسند ہے خاص طور پر جہاں کسی اور معنی کا احتمال ہو۔ اب اس پر خود ہی غور کریں کہ میں کہاں کہاں کوما لگانا پسند کروں گا
التجا ہے مری ، اک نظر دیکھ لے
غیر بن کے سہی ہاں مگر دیکھ لے
... درست
التفات کرم سے سنور جائے گا
یہ جہاں اور دیں تو اگر دیکھ لے
... دو اشیاء کا ذکر ہے اور واحد کا صیغہ؟ 'سنور جائیں گے' ہونا چاہیے۔ 'دیں' چھوٹی ی والا مراد دین ہے، لیکن کوئی مجھ جیسا کم عقل بڑی ے والا دینا سے مشتق بھی سمجھ سکتا ہے
دین و دنیا مرے، تو اگر..... کر دیں تو محاورے کا درست استعمال بھی ہو سکتا ہے

ہوش جاتا رہے گا جنوں ساز کا
بن کے موسیٰ کوئی شرر دیکھ لے
.. جنوں ساز؟ دوسرا مصرع بحر سے خارج

عشق کی سوزشیں دیکھنے ہیں تجھے ؟
اے صنم تھام کر تو جگر دیکھ لے
.... سوزشیں مونث ہے، دیکھنی ہیں تجھے ہونا چاہیے
اے صنم کے تخاطب کی واقعی ضرورت ہے؟

تو اثاثہ ہے مرا ، آگہی ہے مری
فیض سے جو ملا ، وہ ہنر دیکھ لے
.. پہلا مصرع بحر سے خارج، دوسرا کچھ بے ربط محسوس ہوتا ہے

عشق کی گرمیاں جام میں گھول کر
پی گیا ایک دن بے خطر دیکھ لے
... ٹھیک
 

فاخر

محفلین
چھ مصرعے بحر سے خارج ہیں جو ممکن ہے کہ ٹائپو ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ کم از کم مجھے کوما کا استعمال بہت پسند ہے خاص طور پر جہاں کسی اور معنی کا احتمال ہو۔ اب اس پر خود ہی غور کریں کہ میں کہاں کہاں کوما لگانا پسند کروں گا
جی درست فرمایا آپ نے ! اہل علم اور جدید املاء کے لحاظ سے آپ کے اشارہ کردہ امور کا خیال رکھا جانا چاہیے ان شاءاللہ آئندہ اس کا خیال رکھوں گا۔
 

فاخر

محفلین
اتنے احترام سے مجھے یاد کرتے ہوئے یہ کہہ رہے ہیں کہ اک نظر دیکھ لے! خیر مذاق برطرف
کچھ مصرعے بحر سے خارج ہیں جو ممکن ہے کہ ٹائپو ہوں۔ دوسری بات یہ ہے کہ کم از کم مجھے کوما کا استعمال بہت پسند ہے خاص طور پر جہاں کسی اور معنی کا احتمال ہو۔ اب اس پر خود ہی غور کریں کہ میں کہاں کہاں کوما لگانا پسند کروں گا
التجا ہے مری ، اک نظر دیکھ لے
غیر بن کے سہی ہاں مگر دیکھ لے
... درست
التفات کرم سے سنور جائے گا
یہ جہاں اور دیں تو اگر دیکھ لے
... دو اشیاء کا ذکر ہے اور واحد کا صیغہ؟ 'سنور جائیں گے' ہونا چاہیے۔ 'دیں' چھوٹی ی والا مراد دین ہے، لیکن کوئی مجھ جیسا کم عقل بڑی ے والا دینا سے مشتق بھی سمجھ سکتا ہے
دین و دنیا مرے، تو اگر..... کر دیں تو محاورے کا درست استعمال بھی ہو سکتا ہے

ہوش جاتا رہے گا جنوں ساز کا
بن کے موسیٰ کوئی شرر دیکھ لے
.. جنوں ساز؟ دوسرا مصرع بحر سے خارج

عشق کی سوزشیں دیکھنے ہیں تجھے ؟
اے صنم تھام کر تو جگر دیکھ لے
.... سوزشیں مونث ہے، دیکھنی ہیں تجھے ہونا چاہیے
اے صنم کے تخاطب کی واقعی ضرورت ہے؟

تو اثاثہ ہے مرا ، آگہی ہے مری
فیض سے جو ملا ، وہ ہنر دیکھ لے
.. پہلا مصرع بحر سے خارج، دوسرا کچھ بے ربط محسوس ہوتا ہے

عشق کی گرمیاں جام میں گھول کر
پی گیا ایک دن بے خطر دیکھ لے
... ٹھیک

حضرت الف عین صاحب زید مجدہ کی اصلاح و ہدایت کے مطابق تصحیح کے بعد ان کی اور اساتذہ کی خدمت میں پیش ہے۔ اس غزل میں ایک شعر کا اضافہ کیا ہے ۔ الف عین صاحب زاد شرفہ اس آدھی ادھوری غزل پر ضرور التفات کرم فرمائیں گے۔
غزل
التجا ہے مری ، اک نظر دیکھ لے
غیر بن کے سہی ،ہاں مگر دیکھ لے
التفات ِکرم سے سنور جائے گا
عالم ِ آب و گل ، تو اگر دیکھ لے
ہوش جاتا رہے گا نظر باز کا
طالب دید ہو کر ، شرر دیکھ لے
عشق کی سوزشیں دیکھنی ہیں تجھے ؟
مرحبا! تھام کر تو جگر دیکھ لے
تو اثاثہ مرا ،آگہی ہے مری
حسن کے فیض کا، تو ہنر دیکھ لے
عشق کی گرمیاں جام میں گھول کر
پی گیا ایک دن بے خطر دیکھ لے
منھ چھپاتے پھرے ، خلدکے ماہ رو
دفعتاً میرا کامل بدر، دیکھ لے
 

الف عین

لائبریرین
مطلع تو پہلے ہی درست کہا تھا

التفات ِکرم سے سنور جائے گا
عالم ِ آب و گل ، تو اگر دیکھ لے
پچھلا شعر مفہوم کے اعتبار سے بہتر تھا، اس میں محض دنیا کا ذکر ہے اور وہ بھی ساری دنیا کا، میری دنیا کا ہی نہیں! پچھلے شعر کو ہی یوں کر دو
دین و دنیا مرے، تو.....

ہوش جاتا رہے گا نظر باز کا
طالب دید ہو کر ، شرر دیکھ لے
.... پچھلی صورت میں سمجھ ہی نہیں سکا تھا کہ حضرت موسیٰ کی تلمیح ہے۔ اب سمجھ سکا ہوں لیکن 'نظر بازی' اوباشوں کا مشغلہ ہے۔ کسی نبی کے لیے استعمال نہ کریں

عشق کی سوزشیں دیکھنی ہیں تجھے ؟
مرحبا! تھام کر تو جگر دیکھ لے
... مرحبا؟ یہ لفظ غلط استعمال ہوا ہے

تو اثاثہ مرا ،آگہی ہے مری
حسن کے فیض کا، تو ہنر دیکھ لے
.. اب بھی دو لخت ہے

عشق کی گرمیاں جام میں گھول کر
پی گیا ایک دن بے خطر دیکھ لے
.. کوما ضروری ہے، بے خطر سے پہلے۔ جیسا کہ لکھ چکا ہوں ۔ شعر درست ہے

منھ چھپاتے پھرے ، خلدکے ماہ رو
دفعتاً میرا کامل بدر، دیکھ لے
... قافیہ غلط ہے ۔ بدر میں دال پر زبر نہیں، جزم ہے
 

فاخر

محفلین
عالی جناب الف عین زاد شرفہ کی اصلاح و ہدایت کے مطابق غور و خوض کے بعد تیسری دفعہ پیش کرنے کی جرأت کررہاہوں ،امید کہ حسب سابق ایک بار پھر مکرم و محترم الف عین صاحب نظر کرم فرمائیں گے۔
غزل
التجا ہے مری ، اک نظر دیکھ لے
غیر بن کے سہی ،ہاں مگر دیکھ لے
التفات ِکرم سے سنور جائے گا
دیں و دنیا ، تو اگر دیکھ لے!
ہوش جاتا رہے گا نظر باز کا
طالب دید ہو کر ، شرر دیکھ لے
عشق کی سوزشیں دیکھنی ہیں تجھے ؟
ہاں مگر ،تھام کر تو جگر دیکھ لے!
تو اثاثہ مرا ،آگہی ہے مری
نعمتِ بے بہا کا، ہنر دیکھ لے!
عشق کی گرمیاں جام میں گھول کر
پی گیا ایک دن ،بے خطر دیکھ لے
منھ چھپاتے پھرے ، خلدکے ماہ رو
میرے دل میں نہاں اک قمر دیکھ لے
مستی و شوق میں ، الفت و ذوق میں
نذر کردے جہاں، گر بشر دیکھ لے
٭٭٭٭
 

الف عین

لائبریرین
دیں بلکہ کسی بھی غنہ پر ختم ہونے والے لفظ کے ساتھ واو عطف لگانا غلط ہے۔ اور یہ مصرع ہی 'مرے' کے بغیر وزن میں نہیں آتا
نظر باز اور اثاثہ والے اشعار میں اب بھی وہی کیفیت ہے جس کا کہا تھا
بے خطر دیکھنا غلط ہی ہے اس کا بھی کہہ چکا ہوں
باقی اشعار ٹھیک ہیں
 

فاخر

محفلین
دیں بلکہ کسی بھی غنہ پر ختم ہونے والے لفظ کے ساتھ واو عطف لگانا غلط ہے۔ اور یہ مصرع ہی 'مرے' کے بغیر وزن میں نہیں آتا
نظر باز اور اثاثہ والے اشعار میں اب بھی وہی کیفیت ہے جس کا کہا تھا
بے خطر دیکھنا غلط ہی ہے اس کا بھی کہہ چکا ہوں
باقی اشعار ٹھیک ہیں
جزاک اللہ اللہ اس کا بہتر اجر عطا فرمائے آمین
 
Top