اصلاح سخن : ’’ترے خالِ مشکیں پہ بخشوں یہ دہلی‘‘

فاخر

محفلین
ترے خالِ مشکیں پہ بخشوں یہ ’دہلی‘
فاخرؔ نئی دہلی
حضرت الف عین مدظلہ العالی سے نظر کرم کی خصوصی درخواست کے ساتھ:

خوشی کے مسرت کے عنواں تو آجا
مری جاں مرے دل کے سلطاں تو آجا

ترے دم سے قائم ہے دل کی یہ رونق
لبوں پہ تبسم کے ساماں تو آ جا

تصور میں قائم ہے تیرا سراپا
تجلی کی صورت میں رقصاں تو آجا

شرابوں کی تندی کا وعدہ تھا تم سے
لئے ہاتھ میں جام عرفاں تو آجا

تری زلفِ برہم ، ہے ایمانِ محکم
بپاسِ یقیں، زلفِ پیچاں تو آجا

ترے خالِ مشکیں پہ بخشوں یہ دہلی (1)
مری شب کے جشنِ چراغاں تو آجا


نوٹ : حافظؔ نے خال ہندویش پرسمرقند و بخارا بخشا تھا ؛لیکن یہاں خالِ مشکیں پر ہم نے اپنے شہر انتخاب عالم ’’دہلی‘‘ کو ہی بخش دیا، لازماً یہ شعر حافظؔ کے شعر سے متأثر ہے؛بلکہ اس کی نقل یا پھر اس کا ارد ترجمہ ہے ؛اس لیے نکیر و نفور کا اظہار نہ کیا جائے ۔اس غزل کے مقطع سمیت مزید اشعار اسی لڑی میں پیش کئے جائیں گے۔ تب تک ان تمام ناتمام مصرعوں کی نوک پلک کی اصلاح فرمائی جائے۔(فاخرؔ)
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
پہلی بات، تو آ جا ردیف اگر محض آ جا ردیف ہو تو روانی بہتر محسوس ہوتی ہے، اس صورت میں معلنہ نون کا قافیہ ہو گا، عنوان آ جا، سلطان آ جا
لیکن کچھ قوافی جیسے رقصاں کو رقصان بنانا درست نہیں ۔ بہر حال فی الحال اسی صورت کو دیکھتا ہوں
خوشی کے مسرت کے عنواں تو آجا
مری جاں مرے دل کے سلطاں تو آجا
.... خوشی اور مسرت تو ایک ہی بات ہے، پہلا مصرع بدل دو

ترے دم سے قائم ہے دل کی یہ رونق
لبوں پہ تبسم کے ساماں تو آ جا
.... درست

تصور میں قائم ہے تیرا سراپا
تجلی کی صورت میں رقصاں تو آجا
.... قائم یہاں رپیٹ کرنا اچھا نہیں، یوں بھی قائم یعنی ٹھہرا ہوا ہو تو وہ رقصاں کیسے ہو گیا؟ یہاں محض 'رہتا' بہتر ہے

شرابوں کی تندی کا وعدہ تھا تم سے
لئے ہاتھ میں جام عرفاں تو آجا
... یہ شعر ہی غلط ہے، جب تم سے وعدہ تھا تو میں جام لے کر آؤں گا یا تم ہی لاؤ گے؟ شتر گربہ بھی ہے

تری زلفِ برہم ، ہے ایمانِ محکم
بپاسِ یقیں، زلفِ پیچاں تو آجا
... محترمہ صرف زلف کی لٹ کاٹ کر بھیج دیں تو قبول ہے؟ مفہوم کے اعتبار سے پسند نہیں ایا

ترے خالِ مشکیں پہ بخشوں یہ دہلی (1)
مری شب کے جشنِ چراغاں تو آجا
... محترمہ کے خال سے خوشبو اگر واقعی آتی ہے تو بھی شعر درست نہیں کہ دوسرے مصرعے سے تو لگتا ہے کہ چاند کی طرح روشن بھی ہے یہ تل!
 

فاخر

محفلین
نظرثانی کے بعد پھر یہ غزل حاضر خدمت ہے اس میں دو تین مصرعہ کے اضافہ کردیا ہے ۔
حضرت الف عین صاحب زحمت گوارہ فرمائیں ۔
فاخرؔ
مری ہر خوشی کے اے عنواں توآجا
جہانِ جنوں کے اے سلطاں تو آجا

ترے دم سے قائم ہے دل کی یہ رونق
لبوں پہ تبسم کے ساماں تو آجا

تصور میں پنہاں ہے تیرا سراپا
تجلی کی صورت میں رقصاں توآجا

نگاہیں تری چشمہ ٔ بے خودی ہیں
لئے ہاتھ میں جامِ عرفاں تو آجا

تری زلفِ برہم ،ہے ساون سراپا
اسی جون میں وجہ ِباراں تو آجا

ترے رخ سے روشن ہو یہ ساری دنیا
مری شب کے جشن ِ چراغاں تو آجا

صدائیں میں دوں اپنے یوسف کو پیہم
تو آجا! مرے ماہِ کنعاں توآجا

ترے خالِ نیر پہ بخشوں میں دہلی
بصد شوق الفت مری جاں تو آجا

’’بتانِ عجم (1) ہیں کشش سے جو عاری
تراشیدۂ دست ِ یزداں تو آجا

(1) ہندوستان میں اجنتا اور ایلورا کے بتوں کی طرف اشارہ ہے ۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
مطلع میں اے عنواں کی ے گرنا گراں گزرتا ہے
مری ہر مسرت کے عنواں....
ترے دم سے قائم ہے دل کی یہ رونق
لبوں پہ تبسم کے ساماں تو آ جا اکیا جا سکتا ہے
ترے دم سے قائم ہے دل کی یہ رونق
لبوں پہ تبسم کے ساماں تو آجا
... تبسم کی ہی کیا ضرورت ہے؟ اور جہاں پر آ سکے وہاں پر ہی استعمال بہتر ہے بہ نسبت پہ کے
مضمون کے لحاظ سے بھی بات دل کی رونق کی ہو رہی ہے، پھر لب کی بات کیوں۔ یہ مصرع بدل دیں یا شعر کو ہی عاق کر دیں
باقی درست لگ رہی ہے غزل
 

فاخر

محفلین
مطلع میں اے عنواں کی ے گرنا گراں گزرتا ہے
مری ہر مسرت کے عنواں....
ترے دم سے قائم ہے دل کی یہ رونق
لبوں پہ تبسم کے ساماں تو آ جا اکیا جا سکتا ہے
ترے دم سے قائم ہے دل کی یہ رونق
لبوں پہ تبسم کے ساماں تو آجا
... تبسم کی ہی کیا ضرورت ہے؟ اور جہاں پر آ سکے وہاں پر ہی استعمال بہتر ہے بہ نسبت پہ کے
مضمون کے لحاظ سے بھی بات دل کی رونق کی ہو رہی ہے، پھر لب کی بات کیوں۔ یہ مصرع بدل دیں یا شعر کو ہی عاق کر دیں
باقی درست لگ رہی ہے غزل
جزاک اللہ خیرا !!!
 
Top