اصلاح سخن : ’’فسانہ مرا زیرِ گردش ہے ساقی ‘‘

فاخر

محفلین
غزل
حضرت الف عین صاحب کی نظر کرم کے ساتھ ۔
اگر اس غزل میں کچھ نیاپن محسوس ہو تو یہ صرف اور صرف حضرت الف عین کا فیضانِ خاص ہے ۔


تصدق ترا اور بخشش ہے ساقی
یہ تیرے کرم کی نوازش ہے ساقی

جو پھیلی ہے خوشبوئے صہبائے احمر
پلادو وہی مے ،گذارش ہے ساقی

اگر تو پلائے مئے تلخ پھر بھی
بصد شوق پی لوں ، یہ خواہش ہے ساقی

ابھی رت ،ہے ساون، کی اے جانِ جاناں
کہ چاروں طرف مے کی بارش ہے ساقی

ترے مے کدے کا ، فسانہ ہے ہر سو
کہ چاروں طرف بس ستائش ہے ساقی

رقیبوں نے کی ہے جو دیوار حائل
محض ان کی ناکام کوشش ہے ساقی

جنوں کا ہزاروں غموں سے ہے رشتہ
جنوں کی یہی آزمائش ہے ساقی

یہ تمہید ہے میرے غم کی سنو تم
فسانہ مرا زیرِ گردش ہے ساقی
 

الف عین

لائبریرین
واہ میاں افتخار اس بار تقریباً مکمل درست غزل ہے، بس آخری شعر میں افسانہ زیر گردش ہونا درست نہیں لگتا۔
 

فاخر

محفلین
واہ میاں افتخار اس بار تقریباً مکمل درست غزل ہے، بس آخری شعر میں افسانہ زیر گردش ہونا درست نہیں لگتا۔
بس یہ خداکا فضل اور خصوصاًآپ کی نظرِ محبت اور فیضان کی برکت ہے ۔جب میں نے پرسوں ایک غزل پیش کی تھی، اس میں مجھے ہی خامی نظر آئی ۔ معروف ناقد و شاعر خلیل الرحمن اعظمی کی شاعری کے متعلق ایک مضمون کی تیاری میں تھا کہ اسی دوران یہ بھی پڑھا کہ وہ تنقید نگار کیوں بنے ؟ اس کا جواب انہوں نے خود دیا ہے کہ ا پنی نظموں کے پہلے وہ خود ناقد بنے جیسا کہ انہوں نے کہا کہ :
” میری تنقید نگاری میری داخلی ضرورتوں کی پیدوار تھی ، یہ داخلی ضرورتیں میری اپنی شاعری سے تعلق رکھتی تھیں ۔ میں کچھ ایسی کیفیتوں سے گزر رہا تھا جو بہت سے مصرعے کہنے کے بعد بھی ان کہی سی رہ جاتی تھیں ، ان ہی سے ملتی جلتی کیفیات کو دوسرے شعراءکے یہاں تکمیل یافتہ صورت میں دیکھتا تھا تو محسوس ہوتا کہ میں نے ان شعراہی کو نہیں ؛بلکہ اپنے آپ کو پالیا “ ۔
نیا عہد نامہ : خلیل الرحمن ص 12

یہی چیز میں نے بھی اختیار کرنے کی کوشش کی بلفظ دیگر ان کی نقالی کی کوشش کی۔ میں نے اپنے آپ کو پایا یا نہیں یہ الگ بات ہے ، لیکن اس قدر آسانی سے انسان اپنے آپ کو پالے ، یہ اس قدر لقمہ تر بھی نہیں۔ البتہ اتنا ضرور ہوا کہ مصرعہ میں کچھ حد تک ’باہمی ربط ‘ پیدا ہوگیا ۔” صہبائے احمر “کی ترکیب خلیل الرحمن صاحب کی ایک نظم سے ’اخذ‘ ہے ، جس کو ہم ادبی سرقہ کہہ سکتے ہیں۔ ها ها ها ها ها اس ترکیب کو انہوں نے آزاد نظم میں استعمال کیا ہے ۔​
آپ کی حوصلہ افزائی نے مزید میرے حوصلہ کو جلا بخشی ہے ، ان شاءاللہ الرحمن آئندہ اس کوشش کو مزید باریاب کرنے کی کوشش کروں گا ۔
 
مدیر کی آخری تدوین:

فاخر

محفلین
آپ کے حکم اور فرمائش پر شرمندگی بھی ہوئی اور خوشی میں آنسو بھی چھلک پڑے۔:in-love::in-love:
ان شاء اللہ الرحمٰن حضرت امیر خسرو کی غزلوں کے متعلق کچھ لکھنے کا ارادہ ہے اور ان شاءاللہ اسے صرف ’’سمت‘‘ کے لیے ہی لکھوں گا۔ سچی بات تو یہ ہے کہ میں خود’’سمت‘‘ کا خوشہ چیں ہوں آن لائن اس سے فیض اٹھا رہا ہوں جیسا کہ آپ کی ذات سے غائبانہ فیض حاصل کررہا ہوں۔ ’’سمت‘‘ میں میری کج مج تحریر شائع ہوکر میرے لیے سند کا درجہ رکھے گی۔(ان شاءاللہ الرحمٰن)
اصل میں ایک ’صاحب‘ ہیں، دہلی یونیورسٹی میں پڑھتے ہیں ، ان کے پی ایچ ڈی کے مقالہ کی تیاری میں ہاتھ بٹا رہا ہوں مآخذ و مصدر کی تحقیق و جستجو دقت طلب کام ہے ؛اس لیے وہ مجھے اپنے ہم کار بنائے ہوئے ہیں۔نظموں میں’جدیدیت‘ کے رجحان کے باب میں خلیل الرحمٰن اعظمی صاحب کا نظریہ اور اور ان کی نظموں میں ’جدیدیت‘ کے اثرات و قبول کو تلاش کررہا تھا۔ اسی دوران خلیل الرحمن صاحب مرحوم کا یہ قول نظروں سے گزرا ۔ جس کا ذکر میں نے گزشتہ میں کیا ہے۔
 

فاخر

محفلین
اگر آپ کا حکم ہو تو میں نے جو کچھ خلیل الرحمٰن اعظمی صاحب مرحوم کو بحیثیت ناقد و شاعر محسوس کیا ہے، اس کا اظہار کردوں؟
میں نے اب تک جو پڑھا اور محسوس کیا وہ یہ کہ:
’’ خلیل الرحمٰن اعظمی صاحب کا تنقیدی شعور شعری شعور و کائنات سے بالا و برتر ہے ۔ ان کی شاعری تین حصوں میں منقسم ہے ۔ 1: ترقی پسندی ۔2: جدیدیت 3: اخیر عمر کی شاعری ۔ جب کہ انہوں نے بارہا ترقی پسندی اور جدیدیت سے برأت کا اظہار بھی کیا۔ان تینوں دور کے باہمی تجزیہ سے مرحوم خلیل الرحمٰن صاحب کے فن اور شعری کائنات کا جو ادراک ہوتا ہے وہ یہ کہ انہوں نے غموں اور دنیاوی الجھنوں کو بصدشوق مرحبا کہا اور ان کو گلے سے لگایا اورکبھی شکوہ نہ کیا۔ مذہبی رو سے یہ اطمینان بخش ہے کہ :’وہ اخیر عمر میں روایات پسند ہوگئے اورترقی پسندی و جدیدیت کے تمام علائق کو خیرباد کہہ چکے تھے۔‘‘
یہ برسبیل تذکرہ منتشر تأثر ہے ۔ آپ حکم دیں تو خلیل الرحمٰن اعظمی صاحب کے ان شعری کائنات کے تناظر میں مفصل قلمی ’’ٹامک ٹوئیاں ‘‘ کروں ؟
 

الف عین

لائبریرین
اگر آپ کا حکم ہو تو میں نے جو کچھ خلیل الرحمٰن اعظمی صاحب مرحوم کو بحیثیت ناقد و شاعر محسوس کیا ہے، اس کا اظہار کردوں؟
میں نے اب تک جو پڑھا اور محسوس کیا وہ یہ کہ:
’’ خلیل الرحمٰن اعظمی صاحب کا تنقیدی شعور شعری شعور و کائنات سے بالا و برتر ہے ۔ ان کی شاعری تین حصوں میں منقسم ہے ۔ 1: ترقی پسندی ۔2: جدیدیت 3: اخیر عمر کی شاعری ۔ جب کہ انہوں نے بارہا ترقی پسندی اور جدیدیت سے برأت کا اظہار بھی کیا۔ان تینوں دور کے باہمی تجزیہ سے مرحوم خلیل الرحمٰن صاحب کے فن اور شعری کائنات کا جو ادراک ہوتا ہے وہ یہ کہ انہوں نے غموں اور دنیاوی الجھنوں کو بصدشوق مرحبا کہا اور ان کو گلے سے لگایا اورکبھی شکوہ نہ کیا۔ مذہبی رو سے یہ اطمینان بخش ہے کہ :’وہ اخیر عمر میں روایات پسند ہوگئے اورترقی پسندی و جدیدیت کے تمام علائق کو خیرباد کہہ چکے تھے۔‘‘
یہ برسبیل تذکرہ منتشر تأثر ہے ۔ آپ حکم دیں تو خلیل الرحمٰن اعظمی صاحب کے ان شعری کائنات کے تناظر میں مفصل قلمی ’’ٹامک ٹوئیاں ‘‘ کروں ؟
یہ میرے ناچیز خیال میں ذاتی مراسلے /.مکالمے کا محل تھا۔ بہر حال مضمون لکھ تو دو، پھر دیکھتا ہوں کہ سمت کے معیار کے قابل ہے یا نہیں، اصلاح کے بعد تو شاید ممکن ہو۔ مجھے افسوس ہے کہ خلیل بھائی جن سے میں نے ایک عدد انٹرویو بھی لیا تھا جو کسی رسالے میں شائع بھی ہوا لیکن میرے پاس محفوظ نہیں۔ ١٩٧١-٧٢ کے بعد جب میں ایم ایس سی میں لگ گیا تو ان سے ربط بھی نہیں رہا، اور ان کے انتقال کی خبر بھی شاید سال بھر بعد ملی! مرحوم سے اسی تعلق خاطر اور شرمندگی کے احساس سے نجات کی غرض سے میں نے ماہنامہ 'شاعر' کے گوشۂ خلیل سے ان کا کلام ٹائپ کیا جود ہی. اور وہیں سے ابن انشاء جو ان کے بہت قریبی دوست تھے. اور ان کے درمیان خط و کتابت کو اردو محفل میں ہی ٹائپ کروایا، یہ دونوں کتب برقی کتابوں اور اردو محفل لائبریری میں شامل ہیں۔
 
Top