محمد فخر سعید
محفلین
کبھی جھگڑہ، کبھی غصہ، روایت توڑ دی ہم نے
اسے ملتے نہیں ہیں اب محبت چھوڑ دی ہم نے
طبیعت اب ہے یوں اپنی کہ سب چپ چاپ سنتا ہوں
مسلسل بحث کرنے کی وہ عادت چھوڑ دی ہم نے
گیا بچپن، گئے وہ دن کہ جب ہم کُھل کے ہنستے تھے
مسلسل حادثوں سے اب شرارت چھوڑ دی ہم نے
یہاں کہتا کوئی کچھ ہے، عمل ہوتا کوئی کچھ ہے
یہی کچھ دیکھ کر آخر سیاست چھوڑ دی ہم نے
کوئی تو زخم ایسا ہے جوانی کھا گیا ہے جو
وگرنہ کیوں فخرؔ کہتا سیاحت چھوڑ دی ہم نے
اسے ملتے نہیں ہیں اب محبت چھوڑ دی ہم نے
طبیعت اب ہے یوں اپنی کہ سب چپ چاپ سنتا ہوں
مسلسل بحث کرنے کی وہ عادت چھوڑ دی ہم نے
گیا بچپن، گئے وہ دن کہ جب ہم کُھل کے ہنستے تھے
مسلسل حادثوں سے اب شرارت چھوڑ دی ہم نے
یہاں کہتا کوئی کچھ ہے، عمل ہوتا کوئی کچھ ہے
یہی کچھ دیکھ کر آخر سیاست چھوڑ دی ہم نے
کوئی تو زخم ایسا ہے جوانی کھا گیا ہے جو
وگرنہ کیوں فخرؔ کہتا سیاحت چھوڑ دی ہم نے