اصلاح طلب

زنیرہ عقیل

محفلین
اس کے وعدوں کا اعتبار نہیں
اب مرے دل میں اس کا پیار نہیں

آ بھی جائے اگر منانے وہ
مجھ کو دل پر کچھ اختیار نہیں

عادتیں سب خراب ہیں اس کی
اپنی عزت کا پاسدار نہیں

بھول بھی جائے وہ تو کیا غم ہے
اب مجھے اُس کا انتظار نہیں

دل ملانے کی بات جانے دیں
گو مرے دل میں کچھ غبار نہیں

لو لگاتے ہیں جو بھی اللہ سے
اُن کو دنیا سے سروکار نہیں

پیارشرطوں پہ گل اُتر آیا
اب کسی کا بھی اعتبار نہیں

زنیرہ گل
 

زنیرہ عقیل

محفلین
لو لگائی ہے میں نے اللہ سے
اب مجھے بھی کسی سے خار نہیں

مری فطرت ہے بکھیروں خوشبو
کیوں کہ میں گل ہوں کوئی خار نہیں
 
مری فطرت ہے بکھیروں خوشبو
یہ مصرعہ بحر میں نہیں. آپ دو بحروں کو خلط کر رہی ہیں.
اقتباس میں درج مصرعے کی بحر فاعلاتن فعلاتن فعلن ہے
جبکہ آپ کی غزل کی بحر فاعلاتن مفاعلن فعلن ہے.

فاعلاتن ... مے رِ فط رت
ا. م فاع لن ...ہِ ب کے رو
ب. ف ع لا تن...ہِ ب کے رو
 

الف عین

لائبریرین
اللہ بطور فعلن ثقہ حضرات قبول نہیں کرتے، یعنی اللہ کا دوسرا الف گرانا تعظیم کے منافی ہے۔
میں نے رب سے ہی لو لگا لی ہے
بہتر مصرع ہو گا
دوسرے مصرعے میں 'بھی' بھرتی کا لگتا ہے
 

زنیرہ عقیل

محفلین
اس کے وعدوں کا اعتبار نہیں
اب مرے دل میں اس کا پیار نہیں

آ بھی جائے اگر منانے وہ
مجھ کو دل پر کچھ اختیار نہیں

عادتیں سب خراب ہیں اس کی
اپنی عزت کا پاسدار نہیں

بھول بھی جائے وہ تو کیا غم ہے
اب مجھے اُس کا انتظار نہیں

دل ملانے کی بات جانے دیں
گو مرے دل میں کچھ غبار نہیں

میں نے رب سے ہی لو لگا لی ہے
اب مرے دل پہ غم کا بار نہیں

پیارشرطوں پہ گل اُتر آیا
اب کسی کا بھی اعتبار نہیں

زنیرہ گل
 
Top