اصلاح فرمائیں۔۔۔

کلیمی

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

یہ فقیر کا لکھا ہوا نعتیہ کلام ہے۔۔۔تمام احباب اور بالخصوص شاکر القادری صاحب سے اصلاح کا متمنی ہوں۔

یہ زبان آپ کی تعریف کے قابل ہی نہیں
جز خداوند کوئی مادحِ کامل ہی نہیں


یاد فرمائی جو ہو شاہِ مدینہ اک دن
روح کو آپ پہ کردوں گا فدا دل ہی نہیں


حبِ سرکار ہے توحید کی پہلی منزل
ترک ہو یہ تو کوئی اور منازل ہی نہیں


اُن کی رحمت سے مجھے آس لگی رہتی ہے
یہ وہ دریا ہے کہ جس کا کوئی ساحل ہی نہیں


یہ صدا آتی ہے ہر آن بقولِ اقبال
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں


مشکلوں میں جو لیا نامِ محمد میں نے
میری تقدیر میں اب کوئی مشاکل ہی نہیں


جس کے دل میں نہیں توقیرِ شہنشاہِ امم
ہے شقی، صرف وہ سرکار سے جاہل ہی نہیں


حسن میں آپ ہیں آقا بخدا فردِ فرید
مثل ہی کوئی نہیں اور مقابل ہی نہیں


حق جدا اُن سے نہیں اور وہ جدا حق سےنہیں
درمیاں عبد و خدا کے کوئی حائل ہی نہیں


وہ تو بگڑی کو بناتے ہی ہیں ہر اک کی مگر
اشک آنکھوں سے ابھی تک ترے سائل ہی نہیں


اُن کی یادوں سے ہے سرشار مرے قلب و نظر
ہاں سوا اِس کے مجھے اور مشاغل ہی نہیں


مثلِ سگ آپ کے در پہ میں پڑا رہتا ہوں
ماسوا آپ کے آقا کوئی کافل ہی نہیں


قربِ مولا ہو نصیب اُس کو تو کیونکر ہو بھلا
جانبِ طاعتِ سرکار جو مائل ہی نہیں


نغمۂ عشق سنائے تو سنائے اب کون
خوش نوا کوئی گلستاں میں عنادل ہی نہیں


وصلِ حق ہو تو لطیف اب، ہو بھلا کس صورت
برزخِ عبد و خدا سے جو تو واصل ہی نہیں

محمد لطیف الحسن لطیف
انڈیا
 

الف عین

لائبریرین
شاکر الفادری صاحب کو ٹیگ کرنا تھا! کسی کو علم ہے کہ شاکر صاحب کہاں ہیں اج کل، رہا ہوئے یا نہیں؟
ایک بنیادی غلطی قافیہ میں جمع لفظ کا استعمال ہے، بطور خاص 'کوئی' کے ساتھ واحد لفظ ہی استعمال کیا جانا چاہیے۔

یہ زبان آپ کی تعریف کے قابل ہی نہیں
جز خداوند کوئی مادحِ کامل ہی نہیں
.. درست، اگرچہ مادح اردو میں عام طور پر استعمال نہیں کیا جاتا، مدح سرا کہا جاتا ہے

یاد فرمائی جو ہو شاہِ مدینہ اک دن
روح کو آپ پہ کردوں گا فدا دل ہی نہیں
... ٹھیک

حبِ سرکار ہے توحید کی پہلی منزل
ترک ہو یہ تو کوئی اور منازل ہی نہیں
... جمع قافیہ، محض منزل لانے کی کوشش کریں جیسے
ترک ہو جائے جو یہ، پھر کوئی منزل.....

اُن کی رحمت سے مجھے آس لگی رہتی ہے
یہ وہ دریا ہے کہ جس کا کوئی ساحل ہی نہیں
... درست، اچھا شعر ہے

یہ صدا آتی ہے ہر آن بقولِ اقبال
ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
.. درست

مشکلوں میں جو لیا نامِ محمد میں نے
میری تقدیر میں اب کوئی مشاکل ہی نہیں
..... مشاکل غلط جمع ہے، کوئی کے ساتھ واحد مشکل لانے کی کوشش کریں

جس کے دل میں نہیں توقیرِ شہنشاہِ امم
ہے شقی، صرف وہ سرکار سے جاہل ہی نہیں
.. دوسرا مصرع سمجھ میں نہیں آ سکا

حسن میں آپ ہیں آقا بخدا فردِ فرید
مثل ہی کوئی نہیں اور مقابل ہی نہیں
... تکنیکی طور پر درست

حق جدا اُن سے نہیں اور وہ جدا حق سےنہیں
درمیاں عبد و خدا کے کوئی حائل ہی نہیں
.. تکنیکی طور پر درست البتہ غلو ہے

وہ تو بگڑی کو بناتے ہی ہیں ہر اک کی مگر
اشک آنکھوں سے ابھی تک ترے سائل ہی نہیں
... دوسرا مصرع مکمل نہیں، اولی میں 'ہی ہیں' ناگوار لگتا ہے

اُن کی یادوں سے ہے سرشار مرے قلب و نظر
ہاں سوا اِس کے مجھے اور مشاغل ہی نہیں
... مشغلہ بہتر ہوتا مگر قافیہ کی مجبوری ہے، اس لیے قبول کیا جا سکتا ہے

مثلِ سگ آپ کے در پہ میں پڑا رہتا ہوں
ماسوا آپ کے آقا کوئی کافل ہی نہیں
... کافل اردو میں استعمال نہیں ہوتا

قربِ مولا ہو نصیب اُس کو تو کیونکر ہو بھلا
جانبِ طاعتِ سرکار جو مائل ہی نہیں
.. ٹھیک اگرچہ روانی بہتر ہو سکتی ہے

نغمۂ عشق سنائے تو سنائے اب کون
خوش نوا کوئی گلستاں میں عنادل ہی نہیں
.... کوئی کے ساتھ واحد عندلیب کا محل ہے

وصلِ حق ہو تو لطیف اب، ہو بھلا کس صورت
برزخِ عبد و خدا سے جو تو واصل ہی نہیں
سمجھ نہیں سکا اس لیے کچھ کہنے سے قاصر ہوں
 
۔۔۔تمام احباب اور بالخصوص شاکر القادری صاحب سے اصلاح کا متمنی ہوں

شاکر الفادری صاحب کو ٹیگ کرنا تھا! کسی کو علم ہے کہ شاکر صاحب کہاں ہیں اج کل

ان کے بارے میں شاید حسن محمود جماعتی بھائی کچھ بتا سکیں!
 
Top