نوید اختر نوید
محفلین
تیرے ہاتھ سے لکھا وہ مجھے خط اب بھی میرے پاس ہے
پڑھ کر اکثر جس کو جاناں طبیعت میری اداس ہے
میں تجھے دیکھنے کو ہر پل ترسا خواہش رہی بات کروں
ہجر کے مارے دل کو تیرے آنے کی اب تک آس ہے
آج تو گھر سے نکلتے ہی پوچھا میرا ادس رہنے کا سبب
میرے آنگن کا وہ بوڑھا شجر بھلا کا غم شناس ہے
وہ کئی بارہمارے پہلو نشیں رہا بات نہ پر کوئی ہو
ہاتھ اس کا میرے سینے پر ہے دل پھر بھی اداس ہے
پڑھ کر اکثر جس کو جاناں طبیعت میری اداس ہے
میں تجھے دیکھنے کو ہر پل ترسا خواہش رہی بات کروں
ہجر کے مارے دل کو تیرے آنے کی اب تک آس ہے
آج تو گھر سے نکلتے ہی پوچھا میرا ادس رہنے کا سبب
میرے آنگن کا وہ بوڑھا شجر بھلا کا غم شناس ہے
وہ کئی بارہمارے پہلو نشیں رہا بات نہ پر کوئی ہو
ہاتھ اس کا میرے سینے پر ہے دل پھر بھی اداس ہے