ناز پری
محفلین
السلام علیکم ایک تحریر لکھنے کی کوشش کی ہے اساتذء اکرام سے درخواست ہے اس کی اصلاح بھی فرمائیں اور اس کا عنوان بھی تجویز کریں شکریہ
تحریر
کھانے کے ٹیبل پر 12 سالہ عبداللہ اپنی ماں سے کہہ رہا تھا۔
"ماں میں نے رات بہت ہی شاندار خواب دیکھا۔"
"بیٹے ابھی خاموشی سے ناشتہ کرو سکول بس آ جائے گی۔"
"ماں آپ سنے تو"
"بیٹے کھانا کھاتے ہوئے بولنا نہیں چاہے۔ آپ سکول سے واپسی پر آ کر مجھے اپنا خواب سنا دینا۔"
"جی ضرور سناؤں گا۔ آپ کو بھی اور بابا جانی کو بھی۔ وہ تو سن کر اور بھی خوش ہونگے۔"
"لو آ گی سکول بس میں نے کہا تھا نا جلدی سے ناشتہ کرو۔ آج دن کا کھانا بیگ میں نہیں ڈالا کیونکہ آج جمعہ ہے جلدی واپس لوٹ آو گے۔" "بہت اچھا ماں خدا حافظ۔ خدا "
"حافظ میرے لال۔"
اتنے میں کپٹن اسد اپنے کمرے سے نمودار ہوتے ہیں اور سیدھے زینب کی طرف ہی جاتے ہیں کہ زینب ان کو دیکھ کر ان کی طرف دیکھتے ہی بات شروع کرتی ہے۔
"ارے اسد آپ کب اٹھے آپ کا بیٹا آج مجھے کوئی خواب سنانے والا تھا کہتا ہے بہت اچھا خواب دیکھا ہے۔"
"اچھا وہ کیا "
"اس وقت وہ ناشتہ کر رہا تھا میں نے اس کو چپ کروا دیا اور کہا کے واپس آ کر سنانا"
"آپ کے لیے ناشتہ لگا دوں کیا؟"
"نہیں ابھی نہیں ناشتے کو چھوڑو ابھی ذرہ یہاں آو اور تھوڑی دیر کے لیے میرے پاس بیٹھ جاو۔"
زینب، اسد کے پاس آ کر بیٹھ جاتی ہے،اسد کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد پھر دوبارہ اپنی بات کو شروع کرتے ہیں۔
"دیکھو زینب ہماری زندگی رب کی امانت تو ہے ہی۔ لیکن میں تو ایک فوجی ہوں میری زندگی قوم کی امانت بھی ہے اور آج کل جیسے حالت ہیں کچھ خبر نہیں کہ میں گھر سے نکلو اور واپس نا آ سکوں۔ "
"یہ آج آپ صبح ہی صبح کیسی باتیں کرنے لگے"
"بس تم دعا کرنا کہ قوم کی پکار پر میں لبیک کہوں دنیاوی محبتیں مجھ پر حاوی نا ہو سکیں۔ اور خدا تعالیٰ مجھے شہادت کے مرتبے پر فایص کرے انشاءاللہ۔ "
"خدا سب بہتر ہی کرے گا آپ پرشان نا ہوں۔ "
"زینب میں پرشان نہیں ہوں بس تمہیں نصیحت کر رہا ہوں کہ میری شہادت پر آنسو نا بہانا۔ اگر ایک بھی آنسو تمہاری آنکھ سے گرا تو میری روح کو ایذا پہنچے گی۔ تم ایسے نہیں کرو گی نا۔"
زینب تقریباََ اپنی پلکو پر آئے ہوئے آنسو کو چپھاتے ہوے "نہیں کروں گی۔"
"مجھے تم سے محبت ہے مگر تم سے کہیں زیادہ اپنے رب اور اس کے رسول سے ہے ہمارا اسلام تو امن کا درس دیتا ہے مگر یہ جو لوگ ہزاروں لوگوں کی جانیں ایک پل میں ختم کر دیتے ہیں آخر انہیں کس چیز کی چاہت ہے۔ میں ان کو مسلمان نہیں سمجھتا۔ کوئی مسلمان اپنے بھائی کو کیسے قتل کر سکتا ہے یہ مسلمان نہیں ہو سکتے۔"
"دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ کمزور لوگ ہوتے ہیں اس لیے چھپ کر حملا کرتے ہیں جس طرح مجھے آپ پر فخر ہے اسی طرح انشاءاللہ پوری قوم کو آپ پر فخر ہے آپ پاکستان کی عوام کے لیے جان کی بازی تک لگا سکتے ہیں اللہ آپ کو کامیاب کرے گا انشاءاللہ۔"
"خیر تم میرے بیٹے کی اچھی تربیت کرنا اس کواتبائے نبوی پر چلانا۔ میرا ایمان ہے وہ بڑا ہو کر وطن کی سربلندی کا سبب بنے گا۔ ایک دلیر اور بہادر سپائی بنے گا۔ بنے گا نا؟"
"جن انشاءاللہ ایسا ہی ہو گا۔"
"میرے کپڑے نکال دو"
"جی میں نے رات کو ہی نکال کر استری کر دے تھے۔"
"بس پھر ٹھیک ہے میں ذرہ غسل کر لوں پھر جمعہ کا وقت ہو جائے گا۔"
اتنے میں سکول بس کا ہارن سن کر زینب سوچتی ہے یہ آج عبداللہ اتنی جلدی واپس کیوں آ گیا۔ عبداللہ گھر میں داخل ہوتے ہی السلام علیکم کہتا ہے۔
"السلام علیکم"
"وعلیکم السلام بیٹے آج تو آپ بہت جلدی واپس آ گے ہو"
"جی ماں کچھ حفاظتی اقدامات کی وجہ سے سکول والوں نے جلدی چھٹی دے دی ہمارے ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہیں نا اس لیے۔ لیکن ماں ہمارے ملک کے حالت دن بدن خراب کیوں ہو رہے ہیں روز کسی نا کسی جگہ خود کش حلمہ ہوتا ہے ہزاروں لوگ مرجاتے ہیں پتہ ہے ماں میں نے رات خواب میں کیا دیکھا میں نے دیکھا کہ میں ایک پاک فوج کا آفیسر بن گیا ہوں۔ اپنی پاک فوج کا بےباق سپائی ایک وصی میدان ہے جہاں ہزاروں لوگ موجود ہیں میں اپنے وطن کا سبز حلالی پرچم لہرا رہا ہوں لوگ بہت خوش ہو رہے ہیں۔ مجھے بہت سے اعزاز دے جا رہے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے بچوں سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ دیکھو ہمارا مسیحا تم بھی بڑے ہو کر ایسے جوان بننا "
"ماں! یہ مسیحا کیا ہوتا ہے؟"
"بیٹے مسیحا بچانے والے کو کہتے ہیں یا مرہم رکھنے والے کو کہتے ہیں"
"اچھا اچھا لگتا ہے اسی لے لوگ مجھے مسیحا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ شاہد میں نے انہیں خود کش حملہ آوروں سے بچایا ہو گا۔ "
"ہاں میرے پیارے، خدا کرے کہ تم قوم کی بکا اور سلامیت کا باعث بنو آمین انشاءاللہ"
"کھانا لگاؤں کیا"
"نہیں ماں ابھی نہیں، ماں بابا جانی کہاں ہیں
"بیٹے وہ غسل کر رہے ہیں۔ آج جمعہ ہے نا اس لیے جمعہ کی نماز کی تیاری کر رہے ہیں۔"
"ماں میرے بھی کپڑے نکال دیں میں بھی نمازِ جمعہ کی تیاری کرتا ہوں"
دونوں باپ بیٹا کینٹ کی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ مسجد کےبارہ کہیں فوجی جوان کھڑے ہیں۔ جو آنے والے ہر نمازی کی شناخت کرنے کے بعد اسے اندر جانے دیتے ہیں کیپٹن اسد مسجد میں امامت کے فرائض سر انجام دیتے ہیں بیٹا پچھلی صف میں کھڑا ہے۔ امام صاحب تکبیر پڑھتے ہیں۔ ابھی دوسری رکت میں ہی ہوتے ہیں کہ مسجد میں دستی بم اور گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہو جاتی ہے۔ آخر صف میں کھڑا خود کش حملہ آوار خود کو بم سے اڑا دیتا ہے اور اس خود کش حملے کے ساتھ ہی دوسرے دھماکے سے مسجد سے اتنا دھواں اٹھتا ہے کہ مسجد نظرو سے اوجل ہوتی دیکھائی دیتی ہے۔ مسجد میں نمازِ جعمہ کا وقت، صفیں منتشر، چیخو پکاڑ، لاشیں بکھری ہوئی، جسمانی اعضاء ہوا میں معلق ہونے کے بعد کہاں سے کہاں بکھر گے کچھ دیر بعد فصاء میں دھواں کےساتھ ساتھ وحشت انگیز خاموشی تھی۔ مسجد کی مختلف جگہوں سے سر، بازو، کان، ٹانگوں اور ہاتھوں کے ٹکڑوں کو اکھٹا کیا جا رہا تھا۔ اور ان میں کپٹن اسد اور محمد عبداللہ کے ٹکڑے بھی تھے۔ محمد عبداللہ کا خواب کیا ہوا؟ ہمارا مسیحا کدھر گیا؟
ناز پری
تحریر
کھانے کے ٹیبل پر 12 سالہ عبداللہ اپنی ماں سے کہہ رہا تھا۔
"ماں میں نے رات بہت ہی شاندار خواب دیکھا۔"
"بیٹے ابھی خاموشی سے ناشتہ کرو سکول بس آ جائے گی۔"
"ماں آپ سنے تو"
"بیٹے کھانا کھاتے ہوئے بولنا نہیں چاہے۔ آپ سکول سے واپسی پر آ کر مجھے اپنا خواب سنا دینا۔"
"جی ضرور سناؤں گا۔ آپ کو بھی اور بابا جانی کو بھی۔ وہ تو سن کر اور بھی خوش ہونگے۔"
"لو آ گی سکول بس میں نے کہا تھا نا جلدی سے ناشتہ کرو۔ آج دن کا کھانا بیگ میں نہیں ڈالا کیونکہ آج جمعہ ہے جلدی واپس لوٹ آو گے۔" "بہت اچھا ماں خدا حافظ۔ خدا "
"حافظ میرے لال۔"
اتنے میں کپٹن اسد اپنے کمرے سے نمودار ہوتے ہیں اور سیدھے زینب کی طرف ہی جاتے ہیں کہ زینب ان کو دیکھ کر ان کی طرف دیکھتے ہی بات شروع کرتی ہے۔
"ارے اسد آپ کب اٹھے آپ کا بیٹا آج مجھے کوئی خواب سنانے والا تھا کہتا ہے بہت اچھا خواب دیکھا ہے۔"
"اچھا وہ کیا "
"اس وقت وہ ناشتہ کر رہا تھا میں نے اس کو چپ کروا دیا اور کہا کے واپس آ کر سنانا"
"آپ کے لیے ناشتہ لگا دوں کیا؟"
"نہیں ابھی نہیں ناشتے کو چھوڑو ابھی ذرہ یہاں آو اور تھوڑی دیر کے لیے میرے پاس بیٹھ جاو۔"
زینب، اسد کے پاس آ کر بیٹھ جاتی ہے،اسد کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد پھر دوبارہ اپنی بات کو شروع کرتے ہیں۔
"دیکھو زینب ہماری زندگی رب کی امانت تو ہے ہی۔ لیکن میں تو ایک فوجی ہوں میری زندگی قوم کی امانت بھی ہے اور آج کل جیسے حالت ہیں کچھ خبر نہیں کہ میں گھر سے نکلو اور واپس نا آ سکوں۔ "
"یہ آج آپ صبح ہی صبح کیسی باتیں کرنے لگے"
"بس تم دعا کرنا کہ قوم کی پکار پر میں لبیک کہوں دنیاوی محبتیں مجھ پر حاوی نا ہو سکیں۔ اور خدا تعالیٰ مجھے شہادت کے مرتبے پر فایص کرے انشاءاللہ۔ "
"خدا سب بہتر ہی کرے گا آپ پرشان نا ہوں۔ "
"زینب میں پرشان نہیں ہوں بس تمہیں نصیحت کر رہا ہوں کہ میری شہادت پر آنسو نا بہانا۔ اگر ایک بھی آنسو تمہاری آنکھ سے گرا تو میری روح کو ایذا پہنچے گی۔ تم ایسے نہیں کرو گی نا۔"
زینب تقریباََ اپنی پلکو پر آئے ہوئے آنسو کو چپھاتے ہوے "نہیں کروں گی۔"
"مجھے تم سے محبت ہے مگر تم سے کہیں زیادہ اپنے رب اور اس کے رسول سے ہے ہمارا اسلام تو امن کا درس دیتا ہے مگر یہ جو لوگ ہزاروں لوگوں کی جانیں ایک پل میں ختم کر دیتے ہیں آخر انہیں کس چیز کی چاہت ہے۔ میں ان کو مسلمان نہیں سمجھتا۔ کوئی مسلمان اپنے بھائی کو کیسے قتل کر سکتا ہے یہ مسلمان نہیں ہو سکتے۔"
"دہشت گردوں کا کوئی مذہب نہیں ہوتا وہ کمزور لوگ ہوتے ہیں اس لیے چھپ کر حملا کرتے ہیں جس طرح مجھے آپ پر فخر ہے اسی طرح انشاءاللہ پوری قوم کو آپ پر فخر ہے آپ پاکستان کی عوام کے لیے جان کی بازی تک لگا سکتے ہیں اللہ آپ کو کامیاب کرے گا انشاءاللہ۔"
"خیر تم میرے بیٹے کی اچھی تربیت کرنا اس کواتبائے نبوی پر چلانا۔ میرا ایمان ہے وہ بڑا ہو کر وطن کی سربلندی کا سبب بنے گا۔ ایک دلیر اور بہادر سپائی بنے گا۔ بنے گا نا؟"
"جن انشاءاللہ ایسا ہی ہو گا۔"
"میرے کپڑے نکال دو"
"جی میں نے رات کو ہی نکال کر استری کر دے تھے۔"
"بس پھر ٹھیک ہے میں ذرہ غسل کر لوں پھر جمعہ کا وقت ہو جائے گا۔"
اتنے میں سکول بس کا ہارن سن کر زینب سوچتی ہے یہ آج عبداللہ اتنی جلدی واپس کیوں آ گیا۔ عبداللہ گھر میں داخل ہوتے ہی السلام علیکم کہتا ہے۔
"السلام علیکم"
"وعلیکم السلام بیٹے آج تو آپ بہت جلدی واپس آ گے ہو"
"جی ماں کچھ حفاظتی اقدامات کی وجہ سے سکول والوں نے جلدی چھٹی دے دی ہمارے ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہیں نا اس لیے۔ لیکن ماں ہمارے ملک کے حالت دن بدن خراب کیوں ہو رہے ہیں روز کسی نا کسی جگہ خود کش حلمہ ہوتا ہے ہزاروں لوگ مرجاتے ہیں پتہ ہے ماں میں نے رات خواب میں کیا دیکھا میں نے دیکھا کہ میں ایک پاک فوج کا آفیسر بن گیا ہوں۔ اپنی پاک فوج کا بےباق سپائی ایک وصی میدان ہے جہاں ہزاروں لوگ موجود ہیں میں اپنے وطن کا سبز حلالی پرچم لہرا رہا ہوں لوگ بہت خوش ہو رہے ہیں۔ مجھے بہت سے اعزاز دے جا رہے ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ اپنے بچوں سے کہہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ دیکھو ہمارا مسیحا تم بھی بڑے ہو کر ایسے جوان بننا "
"ماں! یہ مسیحا کیا ہوتا ہے؟"
"بیٹے مسیحا بچانے والے کو کہتے ہیں یا مرہم رکھنے والے کو کہتے ہیں"
"اچھا اچھا لگتا ہے اسی لے لوگ مجھے مسیحا کہہ رہے ہوتے ہیں۔ شاہد میں نے انہیں خود کش حملہ آوروں سے بچایا ہو گا۔ "
"ہاں میرے پیارے، خدا کرے کہ تم قوم کی بکا اور سلامیت کا باعث بنو آمین انشاءاللہ"
"کھانا لگاؤں کیا"
"نہیں ماں ابھی نہیں، ماں بابا جانی کہاں ہیں
"بیٹے وہ غسل کر رہے ہیں۔ آج جمعہ ہے نا اس لیے جمعہ کی نماز کی تیاری کر رہے ہیں۔"
"ماں میرے بھی کپڑے نکال دیں میں بھی نمازِ جمعہ کی تیاری کرتا ہوں"
دونوں باپ بیٹا کینٹ کی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کرنے کے لیے جاتے ہیں۔ مسجد کےبارہ کہیں فوجی جوان کھڑے ہیں۔ جو آنے والے ہر نمازی کی شناخت کرنے کے بعد اسے اندر جانے دیتے ہیں کیپٹن اسد مسجد میں امامت کے فرائض سر انجام دیتے ہیں بیٹا پچھلی صف میں کھڑا ہے۔ امام صاحب تکبیر پڑھتے ہیں۔ ابھی دوسری رکت میں ہی ہوتے ہیں کہ مسجد میں دستی بم اور گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہو جاتی ہے۔ آخر صف میں کھڑا خود کش حملہ آوار خود کو بم سے اڑا دیتا ہے اور اس خود کش حملے کے ساتھ ہی دوسرے دھماکے سے مسجد سے اتنا دھواں اٹھتا ہے کہ مسجد نظرو سے اوجل ہوتی دیکھائی دیتی ہے۔ مسجد میں نمازِ جعمہ کا وقت، صفیں منتشر، چیخو پکاڑ، لاشیں بکھری ہوئی، جسمانی اعضاء ہوا میں معلق ہونے کے بعد کہاں سے کہاں بکھر گے کچھ دیر بعد فصاء میں دھواں کےساتھ ساتھ وحشت انگیز خاموشی تھی۔ مسجد کی مختلف جگہوں سے سر، بازو، کان، ٹانگوں اور ہاتھوں کے ٹکڑوں کو اکھٹا کیا جا رہا تھا۔ اور ان میں کپٹن اسد اور محمد عبداللہ کے ٹکڑے بھی تھے۔ محمد عبداللہ کا خواب کیا ہوا؟ ہمارا مسیحا کدھر گیا؟
ناز پری