اصلاح فرماویں یا تنقید۔ خاکسار کو خوشی ہوگی،شاکر ہوگا

کبھی ہجر کا غم اگر دیکھتے ہیں
تو ہم ساقی تیرا ہی در دیکھتے ہیں

ہے خواہش کہ اڑ کر ہی منزل کو پا لیں
مگر ناتوانئ پر دیکھتے ہیں

انھوں نے کہا کہ ہمیں بھول جاؤ
کہا ہم نے مشکل ہے پر دیکھتے ہیں

مرے شعر پر داد تم کیسے دو گے
کہ موتی تو اہل نظر دیکھتے ہیں

ہے دل میں ہمارے تمھارا ہی چہرہ
تمھیں دیکھتے ہیں جدھر دیکھتے ہیں

نہیں تم سے نفرت مگر دل میں ڈر ہے
کہ ہم اپنا زخم جگر دیکھتے ہیں

ترے سنگ در کا تماشا ہے کچھ دن
مقابل پہ ہم اس کے سر دیکھتے ہیں

وہ جس میں تمھاری نظر اس طرف ہے
وہ تصویر ہم رات بھر دیکھتے ہیں

یہ رخسار لب اور آنکھیں تمھاری
انھیں ہم تو لعل و گہر دیکھتے ہیں

سعادت ملے دید کی جس نظر کو
تو ہم شوق سے وہ نظر دیکھتے ہیں

ترا عکس بھی اب تو شرما رہا ہے
یہ تصویر ہم اس قدر دیکھتے ہیں

تری الفتوں کا تماشا لگا ہے
تو اے شان کچھ پل ٹھہر دیکھتے ہیں
 
تیسرے شعر میں ( انہوں نے کہا ہے کہ ہمیں بھول جاؤ ) ہے کے بغیر وزن پورا نہیں ہوتا یا شاید لکھنا بھول گئے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
اکثر اشعار میں بات مکمل نہیں ہو رہی یا دو لخت ہیں کہ دونوں مصرعوں میں ربط نہیں
کبھی ہجر کا غم اگر دیکھتے ہیں
تو ہم ساقی تیرا ہی در دیکھتے ہیں
... دو لخت ہے، ساقی کی ی کا اسقاط بھی اچھا نہیں

ہے خواہش کہ اڑ کر ہی منزل کو پا لیں
مگر ناتوانئ پر دیکھتے ہیں
.. ناتوانیِ پر َاچھا نہیں
شکستہ مگر اپنے پر دیکھتے ہیں
پہلے مصرع میں 'ہی' بھی بھرتی ہے، الفاظ بدل کر کوشش کریں

انھوں نے کہا کہ ہمیں بھول جاؤ
کہا ہم نے مشکل ہے پر دیکھتے ہیں
... پر بمعنی مگر فصیح نہیں
پہلے مصرع میں کہ دو حرفی کی جگہ 'ہے' ہی استعمال کیا جائے

مرے شعر پر داد تم کیسے دو گے
کہ موتی تو اہل نظر دیکھتے ہیں
.. درست

ہے دل میں ہمارے تمھارا ہی چہرہ
تمھیں دیکھتے ہیں جدھر دیکھتے ہیں
.. درست

نہیں تم سے نفرت مگر دل میں ڈر ہے
کہ ہم اپنا زخم جگر دیکھتے ہیں
.. دو لخت ہے

ترے سنگ در کا تماشا ہے کچھ دن
مقابل پہ ہم اس کے سر دیکھتے ہیں
...سمجھ نہیں سکا

وہ جس میں تمھاری نظر اس طرف ہے
وہ تصویر ہم رات بھر دیکھتے ہیں
.. ایضاً

یہ رخسار لب اور آنکھیں تمھاری
انھیں ہم تو لعل و گہر دیکھتے ہیں
.. درست

سعادت ملے دید کی جس نظر کو
تو ہم شوق سے وہ نظر دیکھتے ہیں
... ٹھیک

ترا عکس بھی اب تو شرما رہا ہے
یہ تصویر ہم اس قدر دیکھتے ہیں
.... درست

تری الفتوں کا تماشا لگا ہے
تو اے شان کچھ پل ٹھہر دیکھتے ہیں
... الفتوں کا تماشا؟ سمجھ نہیں سکا
 
استاد جی شکریہ
اصلاح کی کوشش کرتا ہوں

سنگ در کا تماشا
سے خاکسار نے مراد لیا تھا کہ ۔ سنگ در بس کچھ دن تک ہی مزید باقی رہ سکے گا۔کیونکہ اسکے مقابل پہ سر ہے۔ سنگ در ٹوٹ جائے گا۔
الفتوں کا تماشا کئی صورتوں میں لگ سکتا ہے۔ مثلا محبوب کسی کے سامنے طنزا اپنے عاشق کا ذکر کرے وغیرہ

نہیں تم سے نفرت مگر دل میں ڈر ہے ۔۔۔۔
اس میں بھی میرے خیال میں تو بات واضح ہے کہ اب جو تم سے دور ہیں تو اس کا سبب ڈر ہے۔کیونکہ ہم اپنا زخم جگر دیکھتے ہیں جو پہلے ملا ہے۔ تم سے نفرت اب بھی نہیں۔

وہ جس میں تمھاری نظر اس طرف ہے۔
اس طرف ہے، میں اس ، کی الف کے نیچے زیر ہے۔ یعنی نظر ہماری طرف ہے۔
وہ تصویر رات بھر دیکھنا بمعنی نظریں ملا کر دیکھتے رہتے ہیں

اگر واضح نہین ہیں تو بتا دیجیے ۔ میں مزید کوشش کرتا ہوں
الف عین
اکثر اشعار میں بات مکمل نہیں ہو رہی یا دو لخت ہیں کہ دونوں مصرعوں میں ربط نہیں
کبھی ہجر کا غم اگر دیکھتے ہیں
تو ہم ساقی تیرا ہی در دیکھتے ہیں
... دو لخت ہے، ساقی کی ی کا اسقاط بھی اچھا نہیں

ہے خواہش کہ اڑ کر ہی منزل کو پا لیں
مگر ناتوانئ پر دیکھتے ہیں
.. ناتوانیِ پر َاچھا نہیں
شکستہ مگر اپنے پر دیکھتے ہیں
پہلے مصرع میں 'ہی' بھی بھرتی ہے، الفاظ بدل کر کوشش کریں

انھوں نے کہا کہ ہمیں بھول جاؤ
کہا ہم نے مشکل ہے پر دیکھتے ہیں
... پر بمعنی مگر فصیح نہیں
پہلے مصرع میں کہ دو حرفی کی جگہ 'ہے' ہی استعمال کیا جائے

مرے شعر پر داد تم کیسے دو گے
کہ موتی تو اہل نظر دیکھتے ہیں
.. درست

ہے دل میں ہمارے تمھارا ہی چہرہ
تمھیں دیکھتے ہیں جدھر دیکھتے ہیں
.. درست

نہیں تم سے نفرت مگر دل میں ڈر ہے
کہ ہم اپنا زخم جگر دیکھتے ہیں
.. دو لخت ہے

ترے سنگ در کا تماشا ہے کچھ دن
مقابل پہ ہم اس کے سر دیکھتے ہیں
...سمجھ نہیں سکا

وہ جس میں تمھاری نظر اس طرف ہے
وہ تصویر ہم رات بھر دیکھتے ہیں
.. ایضاً

یہ رخسار لب اور آنکھیں تمھاری
انھیں ہم تو لعل و گہر دیکھتے ہیں
.. درست

سعادت ملے دید کی جس نظر کو
تو ہم شوق سے وہ نظر دیکھتے ہیں
... ٹھیک

ترا عکس بھی اب تو شرما رہا ہے
یہ تصویر ہم اس قدر دیکھتے ہیں
.... درست

تری الفتوں کا تماشا لگا ہے
تو اے شان کچھ پل ٹھہر دیکھتے ہیں
... الفتوں کا تماشا؟ سمجھ نہیں سکا
 

الف عین

لائبریرین
شعر ایسا ہونا چاہیے کہ سمجھنے کے لیے شاعر کی ضرورت نہ محسوس ہو، ورنہ شاعر صاحب کو اپنے شعر سمجھانے کے لیے غزل کے ساتھ ساتھ خود بھی جانا ہو گا! جن اشعار کی وضاحت تم نے کی ہے وہ اسی قبیل کے ہیں۔ تب بھی کچھ سوالات باقی رہتے ہیں ۔ جیسے الفتوں کا تماشا مانا جا سکتا ہے کہ محبوب عاشق کا مزاق اڑا رہا/رہی ہے لیکن پھر 'تیری الفتوں' کیوں؟
 
شعر ایسا ہونا چاہیے کہ سمجھنے کے لیے شاعر کی ضرورت نہ محسوس ہو، ورنہ شاعر صاحب کو اپنے شعر سمجھانے کے لیے غزل کے ساتھ ساتھ خود بھی جانا ہو گا! جن اشعار کی وضاحت تم نے کی ہے وہ اسی قبیل کے ہیں۔ تب بھی کچھ سوالات باقی رہتے ہیں ۔ جیسے الفتوں کا تماشا مانا جا سکتا ہے کہ محبوب عاشق کا مزاق اڑا رہا/رہی ہے لیکن پھر 'تیری الفتوں' کیوں؟

نوازش استاد جی
تری الفتوں کا اس لیے کہا ہے کیوں کہ اس شعر میں میں خود سے مخاطب ہوں
دوسرے مصرعے میں "تو" مخاطب کا ہے۔ ت پہ پیش ہے
 

الف عین

لائبریرین
نوازش استاد جی
تری الفتوں کا اس لیے کہا ہے کیوں کہ اس شعر میں میں خود سے مخاطب ہوں
دوسرے مصرعے میں "تو" مخاطب کا ہے۔ ت پہ پیش ہے
ایسا کوئی اشارہ تو موجود نہیں کہ تخاطب خود سے ہے
تو اگر واحد غائب کا صیغہ ہے تو دیکھتے ہیں بے معنی ہو جاتا ہے
 
Top