اصلاح نثر "ایک ناقابل فراموش واقعہ"

ایک ناقابل فراموش واقعہ
ہر انسان کی زندگی میں ایسے واقعات ضرور پیش آتے ہیں جنہیں وہ کبھی فراموش نہیں کر سکتا، جن میں سے کچھ قابل تحریر، کچھ لائق سماعت اور کچھ سنی ان سنی کر دینے کے لائق ہوتے ہیں مگر متعلقہ شخص کے ذہن میں وہ ہمیشہ جاودان رہتے ہیں۔ ان میں کچھ واقعات پر مسرت، کچھ سبق آموز، کچھ غمناک اور کچھ محض قصہ کہانی کے سے ہوتے ہیں جنہیں بعد میں آنے والی نسلوں کا دل بہلانے کے لئے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک کہانی میری بھی ہے جو میرے لئے اتنی پر مسرت بھی نہیں لیکن ایک حد تک خوشگوار ضرور ہے۔​
اس کہانی کا آغاز تو اسی دن سے ہو گیا تھا جب میں نے چائے کے کیبن پر کھڑے ہو کر پہلی مرتبہ اسے دیکھا۔ سخت بارش تھی اور وہ سڑک کے کنارے سفید کرتا پہنے اپنے دامن سے الجھ رہی تھی۔ نیلی شرابی آنکھیں پر اتنی تیکھی نظر کہ جسے ایک بار آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ لے وہ دوبارہ نظر اٹھانے کی ہمت بھی نہ کرے۔ اور نظروں سے زیادہ تیکھے نقوش جنہیں دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ یہ شعر کہتے وقت غالب کے پیش نظر بھی ایسی ہی کوئی صورت ہو گی۔​
نقش کو اس کے مصور پر بھی کتنا ناز ہے​
کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھنچتا جائے ہے​
اور بارش میں اس کے آنکھوں سے زیادہ گہرے نیلے ڈپٹے سے نکلتی ہوئی زلف کسی دریائے بے کراں کی اس نازک لہر کی سی لگتی تھی جسے ہوا کے جھونکے اڑا کر ایک سمت سے دوسری سمت کی جانب لے جاتے ہیں۔ میں اپنے آپ سے بے خبر ہو کر اس کی سمت چلنے لگا۔ قدرت کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ میرے وہاں پہنچنے پر اس کی نازک عینک جسے وہ بارش کے قطروں کی وجہ سے بار بار اتار کر اپنے بھیگے ہوئے گلابی رنگ کے رومال سے صاف کر رہی تھی گر کر میرے قدموں میں آ پہنچی۔ میں ہڑبڑا گیا، پھر کچھ لمحوں کے بعد اس کی عینک اٹھا کر اس کے قریب گیا۔ عینک کو بہ صد حیف اس کے حوالے کیا کہ اس کی یہ نشانی بھی میں اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ میرے کچھ نہ کہنے پر شاید اس سے رہا نہ گیا تو دھیمے لہجے میں کہنے لگی، "شکریہ آپ کا" پھر ایک وقفہ لینے کے بعد کہا، "بارش بہت تیز ہے، کوئی رکشہ بھی نہیں۔ کیا قریب کوئی بس اسٹاپ ہے؟" میں تو اتنا بے خود ہو چلا تھا کہ ذہن پر بہتیرا زور ڈالنے کے بعد بھی اپنے ہی علاقے کے بس اسٹاپ کی جگہ یاد نہیں آئی، کچھ بولا نہ گیا۔ کیا کرتا؟ سوچ میں ہی گم تھا کہ کسی رکشہ کے چلنے کی آواز سے ہوش بحال ہوئے۔ وہ جا چکی تھی۔​
پہلی بار میں ہی اس کا مہر میرے دل میں اتر گیا تھا۔ پھر اس دن کے بعد میں انجانے میں ہی اس کا شیفتہ ہو گیا، کہ بہ قول شاعر:​
کتنا عجیب شخص تھا کیا کام کر گیا​
آنکھوں کے راستے مرے دل میں اتر گیا​
ایک طویل مدت تک ہر روز اس سڑک پر کھڑا اسی کا انتظار کرتا رہا۔ لیکن پھر کبھی اسے دیکھ نہ سکا۔ کبھی سوچتا ہوں شاید وہ میرا ایک خوشگوار پر ادھورا خواب تھی۔ لیکن اب بھی جب کبھی اس سڑک پر جانا ہوتا ہے تو جائے ملاقات پر کھڑا ہو کر کچھ لمحے اس کی یاد میں ضرور گزارتا ہوں کہ شاید وہ خواب وہیں سے ہی دوبارہ شروع ہو جائے۔​
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ایک ناقابل فراموش واقعہ
ہر انسان کی زندگی میں ایسے واقعات ضرور پیش آتے ہیں جنہیں وہ کبھی فراموش نہیں کر سکتا، جن میں سے کچھ قابل تحریر، کچھ لائق سماعت اور کچھ سنی ان سنی کر دینے کے لائق ہوتے ہیں مگر متعلقہ شخص کے ذہن میں وہ ہمیشہ جاودان رہتے ہیں۔ ان میں کچھ واقعات پر مسرت، کچھ سبق آموز، کچھ غمناک اور کچھ محض قصہ کہانی کے سے ہوتے ہیں جنہیں بعد میں آنے والی نسلوں کا دل بہلانے کے لئے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک کہانی میری بھی ہے جو میرے لئے اتنی پر مسرت بھی نہیں لیکن ایک حد تک خوشگوار ضرور ہے۔​
اس کہانی کا آغاز تو اسی دن سے ہو گیا تھا جب میں نے چائے کے کیبن پر کھڑے ہو کر پہلی مرتبہ اسے دیکھا۔ سخت بارش تھی اور وہ سڑک کے کنارے سفید کرتا پہنے اپنے دامن سے الجھ رہی تھی۔ نیلی شرابی آنکھیں پر اتنی تیکھی نظر کہ جسے ایک بار آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ لے وہ دوبارہ نظر اٹھانے کی ہمت بھی نہ کرے۔ اور نظروں سے زیادہ تیکھے نقوش جنہیں دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ یہ شعر کہتے وقت غالب کے پیش نظر بھی ایسی ہی کوئی صورت ہو گی۔​
نقش کو اس کے مصور پر بھی کتنا ناز ہے
کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھنچتا جائے ہے​
اور بارش میں اس کے آنکھوں سے زیادہ گہرے نیلے دوپٹے سے نکلتی ہوئی زلف کسی دریائے بے کراں کی اس نازک لہر کی سی لگتی تھی جسے ہوا کے جھونکے اڑا کر ایک سمت سے دوسری سمت کی جانب لے جاتے ہیں۔ میں اپنے آپ سے بے خبر ہو کر اس کی سمت چلنے لگا۔ قدرت کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ میرے وہاں پہنچنے پر اس کی نازک عینک جسے وہ بارش کے قطروں کی وجہ سے بار بار اتار کر اپنے بھیگے ہوئے گلابی رنگ کے رومال سے صاف کر رہی تھی گر کر میرے قدموں میں آ پہنچی۔ میں ہڑبڑا گیا، پھر کچھ لمحوں کے بعد اس کی عینک اٹھا کر اس کے قریب گیا۔ عینک کو بہ صد حیف اس کے حوالے کیا کہ اس کی یہ نشانی بھی میں اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ میرے کچھ نہ کہنے پر شاید اس سے رہا نہ گیا تو دھیمے لہجے میں کہنے لگی، "شکریہ آپ کا" پھر ایک وقفہ لینے کے بعد کہا، "بارش بہت تیز ہے، کوئی رکشہ بھی نہیں۔ کیا قریب کوئی بس اسٹاپ ہے؟" میں تو اتنا بے خود ہو چلا تھا کہ ذہن پر بہتیرا زور ڈالنے کے بعد بھی اپنے ہی علاقے کے بس اسٹاپ کی جگہ یاد نہیں آئی، کچھ بولا نہ گیا۔ کیا کرتا؟ سوچ میں ہی گم تھا کہ کسی رکشہ کے چلنے کی آواز سے ہوش بحال ہوئے۔ وہ جا چکی تھی۔​
پہلی بار میں ہی اس کا مہر میرے دل میں اتر گیا تھا۔ پھر اس دن کے بعد میں انجانے میں ہی اس کا شیفتہ ہو گیا، کہ بہ قول شاعر:​
کتنا عجیب شخص تھا کیا کام کر گیا​
آنکھوں کے راستے مرے دل میں اتر گیا​
ایک طویل مدت تک ہر روز اس سڑک پر کھڑا اسی کا انتظار کرتا رہا۔ لیکن پھر کبھی اسے دیکھ نہ سکا۔ کبھی سوچتا ہوں شاید وہ میرا ایک خوشگوار پر ادھورا خواب تھی۔ لیکن اب بھی جب کبھی اس سڑک پر جانا ہوتا ہے تو جائے ملاقات پر کھڑا ہو کر کچھ لمحے اس کی یاد میں ضرور گزارتا ہوں کہ شاید وہ خواب وہیں سے ہی دوبارہ شروع ہو جائے۔​

جناب میری تنقید نگاری تو نیلے رنگ سے نظر آ رہی ہے۔
شعر کا تو کچھ خیال رکھیں! ایک بیچارہ ہجر کے لمحاتِ جانگسل میں ہے تو دوسرا وصل کے لمحاتِ جانفزا میں سے گزر رہا ہے۔
ویسے کہیں یہ سچی کہانی تو نہیں؟
بہت ہی زبردست لکھا ہے، بہت ہی پیارا لکھا ہے۔
سچ میں بہت مزہ آیا۔
 

محمداحمد

لائبریرین
ویسے مہدی بھیا نے اپنی واردات کو بہت خوبی سے بیان کیا ہے۔

ہم ہوتے تو ایسی بے باک اور خوبصورت نثر کبھی نہ لکھ پاتے، بلکہ شاعری میں بھی بس اتنا ہی ہو پاتا کہ جیسے چائے کی بند کیتلی سے کبھی کبھی تھوڑی بہت بھانپ نکلتی نظر آتی ہے۔ :D
 

نگار ف

محفلین
ویسے مہدی بھیا نے اپنی واردات کو بہت خوبی سے بیان کیا ہے۔

ہم ہوتے تو ایسی بے باک اور خوبصورت نثر کبھی نہ لکھ پاتے، بلکہ شاعری میں بھی بس اتنا ہی ہو پاتا کہ جیسے چائے کی بند کیتلی سے کبھی کبھی تھوڑی بہت بھانپ نکلتی نظر آتی ہے۔ :D
ھا ھا ھا بہت خوب :jokingly: :jokingly::jokingly::jokingly::jokingly::jokingly:
 

قیصرانی

لائبریرین
ایک ناقابل فراموش واقعہ
ہر انسان کی زندگی میں ایسے واقعات ضرور پیش آتے ہیں جنہیں وہ کبھی فراموش نہیں کر سکتا، جن میں سے کچھ قابل تحریر، کچھ لائق سماعت اور کچھ سنی ان سنی کر دینے کے لائق ہوتے ہیں مگر متعلقہ شخص کے ذہن میں وہ ہمیشہ جاودان رہتے ہیں۔ ان میں کچھ واقعات پر مسرت، کچھ سبق آموز، کچھ غمناک اور کچھ محض قصہ کہانی کے سے ہوتے ہیں جنہیں بعد میں آنے والی نسلوں کا دل بہلانے کے لئے محفوظ رکھا جاتا ہے۔ ایسی ہی ایک کہانی میری بھی ہے جو میرے لئے اتنی پر مسرت بھی نہیں لیکن ایک حد تک خوشگوار ضرور ہے۔​
اس کہانی کا آغاز تو اسی دن سے ہو گیا تھا جب میں نے چائے کے کیبن پر کھڑے ہو کر پہلی مرتبہ اسے دیکھا۔ سخت بارش تھی اور وہ سڑک کے کنارے سفید کرتا پہنے اپنے دامن سے الجھ رہی تھی۔ نیلی شرابی آنکھیں پر اتنی تیکھی نظر کہ جسے ایک بار آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھ لے وہ دوبارہ نظر اٹھانے کی ہمت بھی نہ کرے۔ اور نظروں سے زیادہ تیکھے نقوش جنہیں دیکھ کر اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ یہ شعر کہتے وقت غالب کے پیش نظر بھی ایسی ہی کوئی صورت ہو گی۔​
نقش کو اس کے مصور پر بھی کتنا ناز ہے​
کھینچتا ہے جس قدر اتنا ہی کھنچتا جائے ہے​
اور بارش میں اس کے آنکھوں سے زیادہ گہرے نیلے ڈپٹے سے نکلتی ہوئی زلف کسی دریائے بے کراں کی اس نازک لہر کی سی لگتی تھی جسے ہوا کے جھونکے اڑا کر ایک سمت سے دوسری سمت کی جانب لے جاتے ہیں۔ میں اپنے آپ سے بے خبر ہو کر اس کی سمت چلنے لگا۔ قدرت کا کرنا کچھ ایسا ہوا کہ میرے وہاں پہنچنے پر اس کی نازک عینک جسے وہ بارش کے قطروں کی وجہ سے بار بار اتار کر اپنے بھیگے ہوئے گلابی رنگ کے رومال سے صاف کر رہی تھی گر کر میرے قدموں میں آ پہنچی۔ میں ہڑبڑا گیا، پھر کچھ لمحوں کے بعد اس کی عینک اٹھا کر اس کے قریب گیا۔ عینک کو بہ صد حیف اس کے حوالے کیا کہ اس کی یہ نشانی بھی میں اپنے پاس نہیں رکھ سکتا۔ میرے کچھ نہ کہنے پر شاید اس سے رہا نہ گیا تو دھیمے لہجے میں کہنے لگی، "شکریہ آپ کا" پھر ایک وقفہ لینے کے بعد کہا، "بارش بہت تیز ہے، کوئی رکشہ بھی نہیں۔ کیا قریب کوئی بس اسٹاپ ہے؟" میں تو اتنا بے خود ہو چلا تھا کہ ذہن پر بہتیرا زور ڈالنے کے بعد بھی اپنے ہی علاقے کے بس اسٹاپ کی جگہ یاد نہیں آئی، کچھ بولا نہ گیا۔ کیا کرتا؟ سوچ میں ہی گم تھا کہ کسی رکشہ کے چلنے کی آواز سے ہوش بحال ہوئے۔ وہ جا چکی تھی۔​
پہلی بار میں ہی اس کا مہر میرے دل میں اتر گیا تھا۔ پھر اس دن کے بعد میں انجانے میں ہی اس کا شیفتہ ہو گیا، کہ بہ قول شاعر:​
کتنا عجیب شخص تھا کیا کام کر گیا​
آنکھوں کے راستے مرے دل میں اتر گیا​
ایک طویل مدت تک ہر روز اس سڑک پر کھڑا اسی کا انتظار کرتا رہا۔ لیکن پھر کبھی اسے دیکھ نہ سکا۔ کبھی سوچتا ہوں شاید وہ میرا ایک خوشگوار پر ادھورا خواب تھی۔ لیکن اب بھی جب کبھی اس سڑک پر جانا ہوتا ہے تو جائے ملاقات پر کھڑا ہو کر کچھ لمحے اس کی یاد میں ضرور گزارتا ہوں کہ شاید وہ خواب وہیں سے ہی دوبارہ شروع ہو جائے۔​
ایک تکنیکی غلطی، بارش سخت، محترمہ نے عینک لگائی ہوئی تھی۔ کیا واقعی آپ نے سڑک کے دوسرے کنارے چائے کے کیبن پر کھڑے ہو کر اس کی نیلی آنکھوں کو دیکھ لیا کہ وہ شرابی ہیں :)
 
ایک تکنیکی غلطی، بارش سخت، محترمہ نے عینک لگائی ہوئی تھی۔ کیا واقعی آپ نے سڑک کے دوسرے کنارے چائے کے کیبن پر کھڑے ہو کر اس کی نیلی آنکھوں کو دیکھ لیا کہ وہ شرابی ہیں :)
شکریہ جناب بہت عمدہ آپ نے بڑی دقت کی اس منظر میں اور اصلاح فرمائی۔
 
Top