اصلاح کردیں

پہلی ہی ملاقات میں جو دل لگی ہوئی
دل میں اسی گھڑی سے شروع نغمگی ہوئی

اطراف کی حالت کا میں کیا حال سناؤں
نینوں کے بیچ گفتگؤِ شستگی ہوئی

سب راز دل کے دل میں دبے رہ گئے مگر
تجھ کو چھپائے رکھنے سے آشفتگی ہوئی

اب ٹوٹ کے بکھرا ہوں تو ہے میرا کیا قصور
از خود ہی کسی اور سے وابستگی ہوئی

خود کو ہی بھول بیٹھا بھلانا تھا جب اسے
مشکل ہوا جینا محال زندگی ہوئی

میں کرچیوں میں بٹ گیا ہوں ٹوٹ کے ساحل
حیرت یہ ہے کہ اس کو بھی سرگشتگی ہوئی
 

محمد وارث

لائبریرین
خوب غزل ہے جناب۔ ویسے اگر آپ نے اپنا تخلص نہ لکھا ہوتا تو میں اسے بسمل صاحب ہی کی غزل سمجھتا کہ بہت مماثلت ہے کلام میں :)
 
شکریہ اساتذہ کا اور بسمل بھائی کا بھی جنکی وجہ سے اساتذہ یہاں تک پہنچے ورنہ تو پڑے ملبے میں سڑ رہے تھے ہم.

وارث بھائی بسمل صاحب کی مماثلت کس طرح لگی آپ کو؟ انکے جیسی شاعری تقریباً نا ممکن ہے میرے لئے. ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کسرِ نفسی کا مظاہرہ بہت زیادہ کرتے پیں.
 
شکریہ اساتذہ کا اور بسمل بھائی کا بھی جنکی وجہ سے اساتذہ یہاں تک پہنچے ورنہ تو پڑے ملبے میں سڑ رہے تھے ہم.

وارث بھائی بسمل صاحب کی مماثلت کس طرح لگی آپ کو؟ انکے جیسی شاعری تقریباً نا ممکن ہے میرے لئے. ہاں یہ اور بات ہے کہ وہ کسرِ نفسی کا مظاہرہ بہت زیادہ کرتے پیں.

ارے بھائی ایسی کوئی بات نہیں ۔ وارث بھائی نے ایسا کیوں کہا یہ تو وہی بتایںگے ۔ اندازہ یہ ہے اس طرح کی بحور زیادہ تر محفل کے اور شعراء استعمال نہیں کرتے۔ شاید یہ وجہ ہو۔ :)
 

الف عین

لائبریرین
اس کے اراکین ہیں یعنی زیادہ تر اشعار کے:
مفعول فاعلات مفاعیل فاعلات
جب کہ کچھ مصرع
مفعول مفاعیل مفاعیل فعولن
میں ہیں۔

پہلی ہی ملاقات میں جو دل لگی ہوئی
دل میں اسی گھڑی سے شروع نغمگی ہوئی
//
پہلی بحر، مفعول فاعلات، میں پہلا مصرع تقطیع نہیں ہوتا۔ دوسرا مصرع بھی غلط ہے، شروع کی ’ع‘ وزن میں نہیں آتی۔
پہلی ہی بات چیت میں جو دل لگی ہوئی
تب سے شروع دل میں عجب نغمگی ہوئی

اطراف کی حالت کا میں کیا حال سناؤں
نینوں کے بیچ گفتگؤِ شستگی ہوئی
//پہلا مصرع دوسری بحر میں ہے، دوسرے مصرع میں ’نینوں‘ کا استعمال پسند نہیں، اور گفتگو یا تلفظ غلط ہو رہا ہے۔ شعر مبہم بھی ہے، اطراف کی حالت سے آنکھوں کی گفتگو کا کیا تعلق؟

سب راز دل کے دل میں دبے رہ گئے مگر
تجھ کو چھپائے رکھنے سے آشفتگی ہوئی
//درست

اب ٹوٹ کے بکھرا ہوں تو ہے میرا کیا قصور
از خود ہی کسی اور سے وابستگی ہوئی
/پہلا مصرع مفعول مفاعیل میں ہے، دوسرا مصرع مخلوط بحر میں۔
بکھرا ہوں ٹوٹ کر جو میں ، تو میرا کیا قصور
از خود ہی میری اس سے جو وابستگی ہوئی

خود کو ہی بھول بیٹھا بھلانا تھا جب اسے
مشکل ہوا جینا محال زندگی ہوئی
//دوسرا مصرع مخلوط بحر میں ہے
جینا کٹھن ہوا مرا، وہ زندگی ہوئی

میں کرچیوں میں بٹ گیا ہوں ٹوٹ کے ساحل
حیرت یہ ہے کہ اس کو بھی سرگشتگی ہوئی
//پہلا مصرع مخلوط بحر میں ہے
میں کرچیوں میں بٹ گیا ساحل جو ٹوٹ کے
حیرت یہ ہے کہ اس کو بھی سرگشتگی ہوئی
 

باباجی

محفلین
ماشااللہ کیا خوب محفل ہے۔ اساتذہ کرام کی رہنمائی جاری ہے اور بہت خوشی ہو رہی ہےکہ نئی نسل میں شاعری کا ذوق و شوق
ترقی کر رہا ہے۔
 
ماشااللہ کیا خوب محفل ہے۔ اساتذہ کرام کی رہنمائی جاری ہے اور بہت خوشی ہو رہی ہےکہ نئی نسل میں شاعری کا ذوق و شوق
ترقی کر رہا ہے۔
جی محترم جہاں اتنے پختہ کار اساتذہ ہوں وہاں شاگرد صف در صف کھڑے رہتے ہیں۔۔
 
Top