نمرہ
محفلین
شاعری کے میدان میں نووارد ہوں اور اصلاح کی خواستگار۔
زیر نظر غزل میں مضمون تو کوئ خاص نیا نہیں مگر اسے بحر میں ڈھالنے کی ادنی سعی کی ہے:
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
زیر نظر غزل میں مضمون تو کوئ خاص نیا نہیں مگر اسے بحر میں ڈھالنے کی ادنی سعی کی ہے:
مفاعیلن مفاعیلن فعولن
وفا سے اب تہی یکسر جہاں ہے
زمانے میں نہیں اس کا نشاں ہے
ہیں پھیلی چار سو میری صدائیں
بتا دے آج، آخرتو کہاں ہے؟
ہیں سارے قفل میری فکر تک ہی
نہیں ایسا کہ قیدی یہ زباں ہے
سنو جو شور تم ویرانیوں کا
سمجھ لینا کہ وہ میرا مکاں ہے
سنائیں گے فسانہ اب اُسے ہی
کہ جس کے ہاتھ میں باگِ زماں ہے
بہت سی آرزوئیں لے کے پہنچے
یہ جانا پھر کہ مہنگی یہ دُکاں ہے
نشیمن کی ضرورت اب کسے ہے؟
فتح کرنے کو سارا آسماں ہے
ہے یوں تو ہنستی گاتی زندگانی
مگر ہے سخت وہ غم جو نہاں ہے
مری منطق بھلا سمجھے تُو کیسے؟
انا تیری، مرا دل بےکراں ہے
ستارہ جو فلک کے اوج پر ہے
مرے نالوں کا وہ بھی رازداں ہے
ہے مشکل پاس کرنا یہ سمسٹر
مجازی کی طرف ہی اب دھیاں ہے