اصلاح کےلئے ایک اور غزل

رقیہ بصری

محفلین
دل سے لے کر آنکھ تک اک موجِ خوں لانے لگی
درد کی لذت انوکھا ساسکوں لانے لگی

میں نے دارا و سکندر کو کیا زیرِ قدم
میں جمالِ حور کو خاطر میں کیوں لانے لگی

سبزہ و گل کھل رہے ہیں ابر ہےپانی بھی ہے
میں سلگتے دشت میں کیسا جنوں لانے لگی

اس کے بارے کہہ رہی ہوں جو بھی دل میں ہے مرے
میں گلی کے بیچ شورِ اندروں لانے لگی

آئینہ خانہ مرا کمرہ بنا یا شہر نے
اس کی آنکھیں اپنی تنہائی میں جوں لانے لگی

رقیہ بصری​
 
بہتر غزل ہے۔ بحر میں ہے۔
"جوں لانا" محاورہ ہے کیا؟
مجموعی طور پر غزل خیالت گنجلک ہیں۔ سہل ممتنع کا بھی بیش از حاجت استعمال ہے جس کی وجہ سے "تعقید شعری" معلوم ہو رہی ہے۔ مثال: آئینہ خانہ مرا کمرہ بنایا شہر نے۔
مطلع کے مصرع ثانی میں "سا" زائد ہے۔ پھر سوال یہ ہے کہ سکوں کہاں لانے لگی؟
اساتذہ تشریف لاتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ "قضیہ از چہ قرار است"۔
 

الف عین

لائبریرین
مطلع۔ سوال اٹھ سکتا ہے کون؟ دوسرے مصرع سے شک ہوتا ہے کہ پہلے مصرع کا فاعل درد کی لذت ہے، لیکن اگر فاعل شاعرہ خود ہو تو؟ میرا مشورہ۔
دوسرے مصرع کو پہلا بنا دیں تو پہلی صورت کے مفہوم واضح ہو جائیں۔
مزید دیکھتے ہیں۔
میں نے دارا و سکندر کو کیا زیرِ قدم
میں جمالِ حور کو خاطر میں کیوں لانے لگی
۔۔شعر کا مفہوم واضح نہیں۔ چہ نسبت حور را بہ دارا و سکندر؟

سبزہ و گل کھل رہے ہیں ابر ہےپانی بھی ہے
میں سلگتے دشت میں کیسا جنوں لانے لگی
۔۔واہ، اچھا شعر ہے۔

اس کے بارے کہہ رہی ہوں جو بھی دل میں ہے مرے
میں گلی کے بیچ شورِ اندروں لانے لگی
÷÷لگتا ہے کہ محض قافیہ استعمال کرنے کی کوشش ہے۔ بہر حال، ’بارے‘ کی جگہ ’بابت‘ لایا جا سکتا ہے تو شعر زیادہ چست اور رواں ہو جائے۔

آئینہ خانہ مرا کمرہ بنا یا شہر نے
اس کی آنکھیں اپنی تنہائی میں جوں لانے لگی
÷÷سمجھ میں نہیں آیا، آئینہ خانہ تو شہر نے بنایا پھر تنہائی میں آنکھیں شاعرہ کیوں لائی؟ بہتر ہو کہ یوں کہا جائے۔
بن گیاآئینہ خانہ مرا کمرہ سر بسر
اس کی آنکھیں اپنی تنہائی میں یوں لانے لگی
(اگر ’جوں‘ کا مطلب درست سمجھا ہوں، اور اگر خون چوسنے والی جوں ہے تو پھر اللہ جانے کیا مطلب ہے شعر کا!!!!
 

رقیہ بصری

محفلین
السلام علیکم ۔ غزل پر آپ کی اصلاح پسند آئی سو اسی کو مدنظر رکھتے ہوئے تبدیلیاں کر رہی ہوں ۔ دیکھ لیجئے
درد کی لذت انوکھا ساسکوں لانے لگی
دل سے لے کر آنکھ تک اک موجِ خوں لانے لگی


میں قلو پطرہ سے سندر، میں کہ حسنِ خاک داں
میں جمالِ حور کو خاطر میں کیوں لانے لگی

سبزہ و گل کھل رہے ہیں ابر ہےپانی بھی ہے
میں سلگتے دشت میں کیسا جنوں لانے لگی

اس کی بابت کہہ رہی ہوں جو بھی دل میں ہے مرے
میں گلی کے بیچ شورِ اندروں لانے لگی

آئینہ خانہ مرے کمرے کا چہرہ بن گیا
اس کی آنکھیں اپنی تنہائی میں یوں لانے لگی
 

ایم اے راجا

محفلین
بہت خوب ،
میں قلو پطرہ سے سندر، میں کہ حسنِ خاک داں
میں جمالِ حور کو خاطر میں کیوں لانے لگی

عجیب نہیں بیان اس شعر کا، اس پر غور فرمائیے گا۔ امید ہیکہ آپ کو برا نہیں لگے گا۔ شکریہ۔
 
Top