محمدکامران اختر
محفلین
چلتا ہوں مگر کیسے ، یہ در چھوڑ کے جاؤں
جاں چھوڑ کے جاؤں ، کہ جگر چھوڑ کے جاؤں
افکار منور کو کروں ، نذرانہ ملت
کردار و عمل کا میں ، اثر چھوڑ کے جاؤں
ہر میرے بیاں میں ہو صداقت کی روانی
اک درس میں ایسا ، امر چھوڑ کے جاؤں
تابانی جاوید ملے ، جس سے جہاں کو
میں ایسا سفر ، ایسا حضر چھوڑ کے جاؤں
ملتی رہے وسعت جسے عالم میں ابدتک
وہ دین کی عظمت کی ، خبر چھوڑ کے جاؤں
بے کفن ہی اختر ، جاؤں فرش زمیں میں
ترکے میں فقط ، علم و ہنر چھوڑ کے جاؤں
اصلاح فرما دیں کیونکہ فنی باریکیوں سے نا بلد ہوں
جاں چھوڑ کے جاؤں ، کہ جگر چھوڑ کے جاؤں
افکار منور کو کروں ، نذرانہ ملت
کردار و عمل کا میں ، اثر چھوڑ کے جاؤں
ہر میرے بیاں میں ہو صداقت کی روانی
اک درس میں ایسا ، امر چھوڑ کے جاؤں
تابانی جاوید ملے ، جس سے جہاں کو
میں ایسا سفر ، ایسا حضر چھوڑ کے جاؤں
ملتی رہے وسعت جسے عالم میں ابدتک
وہ دین کی عظمت کی ، خبر چھوڑ کے جاؤں
بے کفن ہی اختر ، جاؤں فرش زمیں میں
ترکے میں فقط ، علم و ہنر چھوڑ کے جاؤں
اصلاح فرما دیں کیونکہ فنی باریکیوں سے نا بلد ہوں