اصلاح کے لیے پیش کرتا ہوں

بھری محفل میں اس نے کل، یوں بانہوں میں سمویا تھا
میں نازاں تھا عنایت پر ،مجھے سینے لگایا تھا
کسی وہ غیر کی خاطر، یوں ایسے مضطرب ہو کر
نہ پوچھوں ہم پہ کیا گزری ،گلے مل کے جو رویا تھا
بھلا تھی کیسی مجبوری، بچھڑنے والے کو لیکن
یہ میرا ضبط تھا گویا، اسے سینے لگایا تھا
میں اس کو یاد آتا ہوں ،مرے دل کا گماں ہے یہ
بھلا دے بے وفا کو، وہ پرایا ہے پرایا تھا
کہ چرچےہیں مرے ہر سو ،کچھ ایسا حال ہے اپنا
اسے پانے کا سپنا تھا، جو آنکھوں میں سجایا تھا
 
بھری محفل میں اس نے کل، یوں بانہوں میں سمویا تھا
میں نازاں تھا عنایت پر ،مجھے سینے لگایا تھا
سمویا اور لگایا قافیہ کیسے ہو سکتے ہیں؟؟؟

کسی وہ غیر کی خاطر، یوں ایسے مضطرب ہو کر
نہ پوچھوں ہم پہ کیا گزری ،گلے مل کے جو رویا تھا
کسی وہ غیر کی خاطر کہنا ٹھیک نہیں، الفاظ کی فطری ترتیب "وہ کسی غیر کی خاطر" ہوگی ... جو یہاں وزن میں نہیں آئے گا ... مگر موجود ترتیب بالکل بھی مناسب نہیں.
دوسرے مصرعے میں پوچھوں نہیں، پوچھو کہنا چاہیے.

بھلا تھی کیسی مجبوری، بچھڑنے والے کو لیکن
یہ میرا ضبط تھا گویا، اسے سینے لگایا تھا
سینے لگانا کہنا خلاف محاورہ ہے، درست سینے سے لگانا ہے.

میں اس کو یاد آتا ہوں ،مرے دل کا گماں ہے یہ
بھلا دے بے وفا کو، وہ پرایا ہے پرایا تھا
پہلے مصرعے میں ہے یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے جب یہ ہے آرام سے وزن میں آجاتا ہے.
کون بھلا دے بے وفا کو؟؟ دوسرے یہ پرایا ہے پرایا تھا کہنا روزمرہ کے خلاف ہے، پرایا تھا پرایا ہے کہنا چاہیے، جو ظاہر ہے اس زمین میں ممکن نہیں.
ایک بات یاد رکھیے کہ محض وزن پورا کرنے کے لیے الفاظ کی قدرتی ترتیب خراب کرنا یا قافیہ ردیف کی مجبوری کی وجہ سے محاوروں کو یکسر بدل دینا بڑے عیوب ہیں.

کہ چرچےہیں مرے ہر سو ،کچھ ایسا حال ہے اپنا
اسے پانے کا سپنا تھا، جو آنکھوں میں سجایا تھا
کافِ بیانہ سے مصرع اولیٰ کا آغاز اچھا نہیں.

ان سب نکات سے زیادہ اہم مسئلہ یہ ہے کہ اس غزل کے قوافی ہی غلط ہیں.
 
Top