نوید اختر نوید
محفلین
بھری محفل میں اس نے کل، یوں بانہوں میں سمویا تھا
میں نازاں تھا عنایت پر ،مجھے سینے لگایا تھا
کسی وہ غیر کی خاطر، یوں ایسے مضطرب ہو کر
نہ پوچھوں ہم پہ کیا گزری ،گلے مل کے جو رویا تھا
بھلا تھی کیسی مجبوری، بچھڑنے والے کو لیکن
یہ میرا ضبط تھا گویا، اسے سینے لگایا تھا
میں اس کو یاد آتا ہوں ،مرے دل کا گماں ہے یہ
بھلا دے بے وفا کو، وہ پرایا ہے پرایا تھا
کہ چرچےہیں مرے ہر سو ،کچھ ایسا حال ہے اپنا
اسے پانے کا سپنا تھا، جو آنکھوں میں سجایا تھا
میں نازاں تھا عنایت پر ،مجھے سینے لگایا تھا
کسی وہ غیر کی خاطر، یوں ایسے مضطرب ہو کر
نہ پوچھوں ہم پہ کیا گزری ،گلے مل کے جو رویا تھا
بھلا تھی کیسی مجبوری، بچھڑنے والے کو لیکن
یہ میرا ضبط تھا گویا، اسے سینے لگایا تھا
میں اس کو یاد آتا ہوں ،مرے دل کا گماں ہے یہ
بھلا دے بے وفا کو، وہ پرایا ہے پرایا تھا
کہ چرچےہیں مرے ہر سو ،کچھ ایسا حال ہے اپنا
اسے پانے کا سپنا تھا، جو آنکھوں میں سجایا تھا