loneliness4ever
محفلین
اصلاح
از س ن مخمور
”کوئی چھپے نہ چھپے میں آ رہا ہوں“
گنتی پوری کرکے بلال نے زور سے آواز لگائی اور آنکھوں پر سے ہاتھ ہٹا دئیے۔ برسات میں بھیگتے بچوں کا گروہ ”چھپن چھپائی “ کھیل رہا تھا، میں دوسری منزل پر واقع اپنے فلیٹ کی بالکونی سے اُن بچوں کو کھیلتا دیکھ کر اپنے بچپن کی یادیں تازہ کر رہا تھا۔اپارٹمنٹ کی چار دیواری میں مختص کار پارکنگ ایریا میں کھڑی کاروں کے پیچھے چھپے بچوں کا چھپنا اور شور مچانا اِس وقت مجھے بہت بھلا محسوس ہو رہا تھا۔ اسکولوں کی چھٹیوں کو مون سون کی آمد نے چار چاند لگا دئیے تھے۔ بچوں کے لئے تو راوی نے عیش ہی عیش لکھے ہوئے تھے مگر کل سے جاری اِس تیز بارش نے اسکول میں ملازمت کرنے والوں کو بھی ذرا آرام دے دیا تھا۔ اسکول کی چھٹیوں کے سبب تدریسی عمل تو فی الحال اسکول میں نہیں ہو رہا تھا مگر دیگر انتظامی امور پر آئے دن میٹنگ بلائی جارہی تھی، جس کے سبب اسکول سے چھٹیوں کے باوجود غیر حاضر ہونا ممکن نہیں ہوا تھا، مگر اِس تیز بارش نے میٹنگ کے عمل میں بھی تعطل پیدا کر دیا تھا۔ شام کے چار بج رہے تھے مگر ایسا لگ رہا تھا کہ مغرب ہو چکی ہو۔ گہرے بادلوں نے سورج کو مکمل ڈھانپ رکھا تھا اور کل سے اب تک یہ وقت ہو چکا تھا، بادلوں کا جلال پوری آب وتاب کے ساتھ قائم تھا۔ کراچی میں رہتے ہوئے برسات کے لئے بھی ہر شخص دو مختلف رائے رکھے ہوئے ہوتا ہے، برسات نہ ہو تو پانی کی فکر اور برسات ہو تو زندگی گھر تک محصور، اور یہ ہی حال آج کل دیکھنے کو مل رہا تھا، بارش کے سبب فلیٹس کے کافی رہائشی اپارٹمنٹ کی چار دیواری تک محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ میرے لئے یہ سب حالات ہمیشہ افسانوی نوعیت کے ہوتے ہیں، میں جدید وقت کے اس حال پر گزرے وقت کی پُر سکون اور پُر محبت پرچھائیوں کو ذہن کے قرطاس پر کھینچتا رہتا ہوں اور کبھی ایسے ہی سوچتے سوچتے میری میز پر رکھا قلم اوراق پر گردش کرنے لگتا۔ لیکن آج مجھے بچوں کے کھیل نے ماضی کے دریچوں کوقرطاس پہ اُتارنے کے بجائے بالکونی میں بیٹھ کر نیچے کھیلتے کودتے بچوں میں اپنا آپ تلاش کرنے میں مشغول کر دیا تھا۔
نیچے کار پارکنگ ایریا میں بلال ، ثاقب ، منیب، علینہ اور دیگر بچے پورے جوش و خروش سے اپنے کھیل میں مگن تھے۔ بلال کی ذمہ داری لگی ہوئی تھی وہ دیگر تمام بچوں کو تلاش کرے، کھیل کی اصطلاح میں بلال ”چور“ بنا ہوا تھا، وہ اپنی تلاش میں کامیاب نہیں ہو رہا تھا کیونکہ ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی بچہ اس کو ” بھنڈا“ کر رہا تھا، یعنی ”چھپن چھپائی‘‘ کے کھیل میں چور اپنی تلاش میں اُس وقت ناکام ہو جاتا ہے جب چھپے ہوئے ساتھیوں میں سے کوئی چور کو ہاتھ لگا کر ”بھنڈا“ پکار لیتا ہے۔ یوں بلال کو کوئی نہ کوئی ہر مرتبہ ” بھنڈا “ کر رہا تھا۔ بچے شوروغل مچاتے ہوئے بارش کا بھرپور لطف اٹھا رہے تھے، میں بھی بالکونی میں کرسی بچھائے ہاتھ میں گرما گرم چائے کی پیالی کوہونٹوں سے لگائے بچوں کو کھیلتا دیکھ کر مزے لے رہا تھا۔بلال نے ایک مرتبہ پھر دیوار کی جانب منہ کرکے آنکھوں پر ہاتھ رکھے گنتی مکمل کی اور دوسرے بچوں کو تلاش کرنے میں مشغو ل ہو گیا، گاڑیوں کے پیچھے چھپے ہوئے بچے بلال کو آتا دیکھ کر اپنی اپنی جگہیں تبدیل کر نے لگے تاکہ ہر مرتبہ کی طرح بلال کو بھنڈا کرکے گنتی کرنے دوبارہ بھیج سکیں۔ اس مرتبہ بھی ثاقب نے کامران صاحب کی گاڑی کی اوٹ سے تیزی سے نکلتے ہوئے بلال کی کمر پر ہاتھ رکھ کر بلند آواز سے ”بھنڈا“ بول دیا۔ بچوں کا فاتحانہ شور بلند ہوا مگر پل ہی میں سکوت طاری ہو گیا اور بلال کے رونے کی گھٹی گھٹی آواز بارش کی بوندوں کے شور کے ساتھ سماعت میں اترنے لگی۔ ثاقب حیران پریشان کھڑا تھا، پھر جیسے اُس کو اور دیگر بچوں کو ہوش آگیا اور تمام بچے بلال کی جانب لپکے، میں نے بھی چائے کا کپ ہونٹوں سے جدا کرکے ساتھ رکھی چھوٹی میز پر رکھ دیا اور دونوں ہاتھوں کو بالکونی پر لگی گیلر پر جما کر ذرا جھک کر نیچے جھانکنے لگا، ایسا کرنے کے سبب بارش نے مجھے بھی گیلا کر دیا مگر نیچے کھیلتے بچوں کی طرح مجھے بھی اِس وقت صرف بلال کی فکر تھی۔ بلال ثاقب کے ہاتھوں اپنی کمر پر لگی قوت کے لئے بالکل تیار نہ تھا، اِس لئے اپنا توازن کھو بیٹھااور لڑکھڑا گیا، بارش کے سبب زمین پر پھسلن بڑھ گئی تھی جس کی بدولت بلال کی لڑکھڑاہٹ پر گیلے فرش نے اپنے بازو کھول دئیے اوربلال پھسلتا ہوا سامنے کھڑی موٹر سائیکل سے ٹکرا گیا اور کمر کے بل زمین پر گر پڑا، بلال کے ٹکرانے کی وجہ سے موٹر سائیکل اپنے اسٹینڈ پر جھول گئی ۔ پہلے پیچھے کھڑی گاڑی سے ٹکرائی اور پھر زمین پر گرے بلال کی جانب پلٹ پڑی، بارش کے شور میں ایک ہلکا سا دھماکہ ہوا اور موٹر سائیکل زمین پر گرے بلال پر الٹ گئی، وہ تو خیر ہوئی موٹر سائیکل اپنے ہینڈل کے متوازی رہنے کی وجہ سے پورے وزن کے ساتھ بلال کی ٹانگوں پرنہ گری ۔ بچوں نے مل کرجلدی سے موٹر سائیکل کو اُس کی جگہ پر کھڑا کر دیا، بلال دایاں گھٹنا پکڑے زمین پر پڑا رو رہا تھا اور آخر وہ ہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ بلال کے رونے کی آواز نے اُس کی ماں کو متوجہ کر لیا۔ گراونڈ فلور پر واقع کارنر کے ایک فلیٹ کا دروازہ کھلا اور بلال کی ماں پریشانی کی حالت میں فلیٹ سے باہر آگئی۔
” کیا ہوا،کیوں رو رہا ہے بلال؟؟؟“
بلال کی ماں کی کرخت آواز نے بچوں پر طلسم کر دیا،
” وہ ۔۔۔ وہ ۔۔ آنٹی ، بلال ہمیں پکڑتے ہوئے گر گیا“
علینہ نے گھبراہٹ میں جواب دیا
” گر گیا ۔۔۔۔ وہ تو میں دیکھ رہی ہوں، یہ بتاﺅ کیسے گرا؟؟؟“
” آنٹی ۔۔۔ میں نے پیچھے سے بھنڈا کیا تو ۔۔۔۔۔۔ “
ثاقب نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ بلال کی ماں تمام منظر اپنے آپ آنکھوں میں کھینچتے ہوئے بلال کی جانب لپکی، اور ثاقب جو بلال کے گھٹنے کو سہلا رہا تھا،اس کو پرے جھٹک کر پل بھر میں بلال کے گال پر تھپڑ جڑ دیا۔ چٹاخ کی آواز نے جیسے برستی بارش کو بھی سہما دیا۔
”لاکھ منع کیا ہے۔ لڑاکا بچوں کے ساتھ مت کھیلا کر مگر مجال ہے جو باز آئے، اچھا ہوا جو چوٹ لگی تیرے“
اتنا سننا تھا کہ ثاقب کی ماں جو بلال کے گھر کے سامنے والے فلیٹ میں رہتی تھی، دوڑی چلائی آئی اور ثاقب کو بازﺅں سے پکڑکر اُٹھاتے ہوئے بلال پر جملہ کس دیا۔
” منع کیا ہے اِن کے بچے کے ساتھ مت کھیلا کر، مگر ذلیل تجھے کوئی بات سمجھ نہیں آتی، شہزادہ گلفام ہے اِن کا بچہ ، چھوئی موئی ۔۔۔۔۔ ہونہہ!!! “
” اے !! زبان سنبھال کر بات کرو ، ایک تو تمہارا بچہ مار کٹائی کرے اور اس پر تم تیور دکھاﺅ، تمہاری اماں نے تمہیں کچھ نہیں سکھایا تو کم از کم تم تو اپنے بچے کو کچھ تمیز سکھا دو۔۔۔“
بلال کی ماں نے تنک کر کہا اور پھر توبہ توبہ وہ طوفان بد تمیزی بپا ہوا کہ اللہ کی پناہ، اور اِس کار خیر میں دونوں بچوں کے ابا حضرات نے بھی جم کر اپنا حصہ ڈالا۔ بلال کا باپ خیر سے بی بی اے کر کے ایک معروف کمپنی میں اکاونٹس آفیسر کے عہدے پر کام کرتا تھا تو دوسری جانب ثاقب کا باپ بھی غیر تعلیم یافتہ نہ تھا، مائیکروبائیولوجی میں ماسٹرکرکے دوائیں بنانے والی ایک بڑی کمپنی میں کوالٹی کنٹرولر کی حیثیت سے کام کر رہا تھا۔ مگر اِس وقت دونوں ہی تعلیم یافتہ مردوں نے غیر تعلیم یافتہ ہونے کا بھرپور مظاہرہ کیا، دونوں کی بیویوں کی بابت مجھے معلوم نہ تھا مگر آج دونوں گھرانوں کی عورتوں کا بھی اچھا خاصہ تعارف ہو گیا تھا۔ میں نے نیچے لڑتے ہوئے لوگوں پر سے نظر ہٹائی تو تقریبا دیگرتمام بالکنیوں پر مجھے تماش بین نظر آئے، اور پھر پہلی منزل سے علینہ کی ماں نے آواز لگائی
” علینہ فوراَ َاوپر آجاﺅ۔۔۔۔“
اور پھر تو جیسے سب ہی کو اپنے بچوں کی یاد آ گئی،
” سعد بہت کھیل ہو چکا فوراَ اوپر آﺅ ۔۔۔۔۔ “
اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے دیگر تمام والدین نے اپنے اپنے بچوں کو گھر واپس بلا لیا۔ ثاقب اور بلال کے ماں باپ بھی لڑ لڑ کر اپنے اپنے فلیٹ میں جا بیٹھے۔ کار پارکنگ میں خاموشی چھا گئی، بس بارش کی بوندوں نے خاموش نہ ہونے کی جیسے قسم کھائی ہوئی تھی۔ میرے اوپر بیزاری طاری ہونے لگی۔ میں بھی بالکونی سے اندر کمرے میں آ گیا۔ کچھ وقت بکھرے کاغذوں کے پاس بیٹھا رہا۔ مجھے چائے کا کپ یاد آیا تو میں پھر بالکونی میں آ گیا۔ برسات کی وجہ سے میری چائے اتنی سی دیر میں ٹھنڈی ہو چکی تھی۔ اوراب اِس کومائیکرو ویوز میں گرم کرنا ضروری تھا۔ میں نے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے نیچے جھانکا، تو مجھے نیچے بلال اپنے فلیٹ میں گیلر والے بند دروازے کی دوسری جانب اُداس بیٹھا بارش کی بوندیں تکتا نظر آیا۔ بلال کے چہرے پر اُداسی اور اُس کے دائیں گال کی سرخی نے مجھے مزید بے زاری اور اکتاہٹ کی جانب دھکیل دیا اور رات گئے تک اُداسی کی ایک غیر مبہم سی کیفیت میرے اوپر طاری رہی۔
٭٭٭
گذشتہ روز کی طرح آج جمعہ کو بھی بادلوں کے چھلکنے کا سلسلہ جاری تھا، وقفہ وقفہ سے کبھی تیز کبھی دھیمی بارش کا سلسلہ جاری تھا۔ اپارٹمنٹ میں واقع جامع مسجد میں فجر کی نماز ادا کرکے میں نے امام صاحب سے مصافحہ کرتے ہوئے ایک ضروری درخواست کی ۔ جس کو امام صاحب نے خوش دلی سے قبول کر لیا اور اپنے تعاون کا یقین دلایا تو میرے دل پر گذشتہ روز سے طاری اُداسی کی کیفیت چھٹنے لگی اور آنکھوں میں امید کی خفیف روشنی کی کرن ٹمٹمانے لگی۔ جمعہ کی نماز تک دل میں ہزار وسوسے آتے رہے، کہیں امام صاحب بھول تو نہیں جائیں گے، ایسا تو نہیں کہ ان کا کہنا ہی بیکار جائے، ہو سکتا ہے مطلوب نمازیوں میں سے کوئی آج فلیٹ میں واقع مسجد کے علاوہ کہیں اور نماز کو نہ چلا جائے۔۔۔ غرض ایسے ہی نہ جانے کتنے خیالات ذہن میں آتے رہے اور میں ہر خیال کو جھٹک کر ہر بار اللہ سے کامیابی کی دعا مانگتا رہا ۔ جمعہ کے قیام کے لئے پہلی اذان بلند ہوئی تو میں اللہ اکبر کہتے ہوئے جامع مسجد کے لئے سیڑھیاں اُتر گیا۔ امام صاحب منبر پر بیٹھے ملک و قوم کی ابتری پر بیان دے رہے تھے، جیسے جیسے وقت بیت رہا تھا، نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ امام صاحب نے ملک اور قوم کی ابتری پر بیان دیتے ہوئے اپنی توجہ کا دائرہ آس پڑوس کے چالیس گھروں تک محدود کر دیا اور پڑوسیوں کے حقوق پر بھرپور بیان کا آغاز کر دیا، فرقہ ورایت سے پاک محبت، اخوت، صلہ رحمی، برداشت اور روزمرہ کے اُن معمولات پر جو پڑوسیوں سے متعلق ہوتے ہیں امام صاحب کا بیان جاری تھا۔ دل چاہنے لگا کہ بیان ختم نہ ہو مگر مقررہ وقت پر جماعت قائم ہوئی اور رفتہ رفتہ نمازیوں نے اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔ میں نماز کے بعد دُرو د و سلام سے فارغ ہوکر فلیٹ پہنچا تو ذہن میں بار بار ایک ہی خیال آ رہا تھا کہ جس مقصد کے لئے میں نے امام صاحب سے ایسا بیان کرنے کی درخواست کی تھی اللہ اُس میں کامیابی دیتا ہے کہ نہیں۔ مجھے تو علم بھی نہیں تھا کہ بالخصوص جن لوگوں کے لئے میں نے امام صاحب سے پڑوسیوں کے حقوق پر بیان کی گزارش کی ہے انھوں نے یہ بیان سنا بھی ہے کہ نہیں؟ وہ مسجد میں موجود تھے یا نہیں؟ اِس بیان کا کچھ اثر بھی اُن پر ہوگا کہ نہیں؟ میں نے اِن تمام سوالات کے ساتھ دوپہر کا کھانا کھایا اور بالکونی کے ساتھ والے کمرے میں بچھی مسہری پر قیلولہ کی غرض سے لیٹ گیا۔ ابھی نیند سے آنکھیں بوجھل ہوئی ہی تھیں کہ میں جھٹکے سے اٹھ کھڑا ہوا او ر بالکونی کی جانب لپکا
” کوئی چھپے نہ چھپے میں آ رہا ہوں“
بلال کی زور دار آواز مجھے بالکونی میں کھینچ لائی تھی۔ نیچے پارکنگ ایریا میں بلال، ثاقب اور دیگر بچے ”چھپن چھپائی“ کھیلنے میں مصروف تھے۔ میں نے نظر گھمائی تو بلال کے والد سیاہ چھتری تان کر ثاقب کے والد کے پاس کھڑے خوش گپیوں میں مصروف تھے۔ دونوں مرد ایک ہی چھتری تلے کھڑے تھے۔ میں اپنے رب کی عطا پر شکر بجا لایا، میری آنکھوں سے شکرانے کے طور پر نکلے آنسو سجدہ ریز ہو گئے۔ میں نے لاکھ دعائیں امام صاحب کو دیں اور کرسی بچھا کر بالکونی میں بچوں کے کھیل سے لطف اندوز ہونے لگا۔
س ن مخمور
امر تنہائی