جاسم محمد
محفلین
اصل حکمران سامنے آ رہے ہیں !
07/07/2019 بابر ستار
عمران خان نے نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل کیوں بنائی اور اس کے رکن کی حیثیت سے جنرل باجوہ کا انتخاب کیوں کیا؟ اور آرمی چیف نے نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل میں شمولیت کی حامی کیوں بھری اور کیوں پی ٹی آئی حکومت کی معاشی پالیسیوں کی ناکامی یا کامیابی کی ذمہ داری اپنے سر لی؟ نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل کی تخلیق اور تکمیل کو کسی بھی پہلو سے دیکھ لیں، یہ آئیڈیا بالکل ناقابل قبول نظر آتا ہے۔ یہ ڈی جورو سسٹم کو کمزور کرتا ہے اور یہ اختیار اور ذمہ داری کے بیچ فرق کو بھی ختم کرتا ہے جو کہ ڈیفیکٹو سسٹم کی سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے۔
سب سے پہلے نظریاتی لحاظ سے اس خیال کو سامنے رکھتے ہیں۔ یہ فیڈرل ازم پر مبنی نظریہ ہے اور آئینی طور پر کردار اور ذمہ داریوں کی تقسیم کے خلاف ہے۔ آئین میں نیشنل اکانومک کونسل کی اجازت ہے جو وزیر اعظم اور چار وزرائے اعلی اور دیگر ممبران جن کو وزرائے اعلی سلیکٹ کرتے ہیں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس طرح مرکز اور صوبائی سطح پر اس کونسل کا توازن درست رہتا ہے۔ اس کونسل کا مقصد ملک کی معاشی صورتحال کو دیکھنا اور ترجیحات طے کرنا ہوتا ہے۔
منتخب حکومتوں نے اس فورم کو استعمال نہیں کیا یہ الگ معاملہ ہے۔ لیکن اگر عمران خان معاشی پالیسی کے معاملے میں اداروں کی مضبوطی چاہتے تھے اور اس مشکل وقت میں آرمی چیف کی بھی رائے چاہتے تھے وہ آرمی چیف کو این ای سی کا حصہ بنا سکتے تھے۔ این ای سی اور اس کے فیصلوں کی وقعت ہوتی کیونکہ یہ ایک آئینی ادارہ ہے۔ نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے بنائی گئی ہے جو نہ تو وزراء اعلی کو میٹنگ کا حصہ بننے کا پابند بنا سکتی ہے اور نہ ہی صوبوں کے بیچ تعلق کو مضبوط بناتی ہے۔
پھر اہلیت کی بھی بات قابل توجہ ہے۔ ادارتی لحاظ سے فوج باقی تمام اداروں سے بہتر کارکردگی کی حامل ہے کیونکہ یہ اہلکاروں کو ایک ادارے کی طرح ٹرین کرتی ہے اور اپنا رویہ بھی ادارے کے طور پر سامنے رکھتی ہے۔ کمانڈ، سٹاف اور ٹریننگ کے عہدوں پر آرمی عہدیداران کی تبدیلیاں ایک ایسی چیز ہے جو دوسرے اداروں کو آرمی سے سیکھنا چاہیے۔ جو بھی آرمی افسر سب سے اعلی عہدے پر پہنچتا ہے وہ بہت مضبوط ہوتا ہے کیونکہ پہلے انہیں اعلی درجہ کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور پھر ان کی عہدے کے لیے اہلیت جانچنے کا عمل مکمل کیا جاتا ہے۔
ہماری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ آرمی افسران تبھی ناکام ہوتے ہیں جب وہ سویلین اداروں میں بھرتی ہوتے ہیں کیونکہ وہاں وہ ایسے کام بھی کرنے لگتے ہیں جن کی انہیں فوج میں ٹریننگ نہیں ملی ہوتی۔ نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل میں آرمی چیف کی موجودگی سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ انہوں نے اپنے کیریر کے کس مرحلے میں معاشی مسائل حل، ملکی ترقی میں کردار ادا کرنے اور مالیاتی مواقع پیدا کرنے کی تربیت حاصل کی تھی۔ آرمی چیف کا جواب اپنے ادارے کی بجٹ ضروریات سے نمٹنے کی طرف اشارہ کی صورت میں مل سکتا ہے۔ وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ریاست کی سکیورٹی پالیسی کو مشکلات درپیش ہو سکتی ہیں اگر دفاعی نظام کے لیے مطلوبہ ہتھیار رقم نہ ہونے کی وجہ سے خریدنے میں مشکلات پیش آئیں یا مشینری کو جدید دور کی ضروریات کے مطابق نہ بنایا جا سکا۔ لیکن کیا وہ ریاست کو پیسے کے حصول کے سلسلے میں مشورہ دینے کی اہلیت رکھتے ہیں؟
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ نواز شریف کے دور میں سول ملٹری تنازعہ کی وجوہات میں سے ایک وجہ سی پیک پر کنٹرول کا جھگڑا بھی تھا۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں یہ چہ میگوئیاں سننے کو ملتی تھیں کہ سی پیک کی ایک ڈویژن بنانے کی بات ہو رہی تھی جس کو دیکھنے کی ذمہ داری ایک لیفٹیننٹ جنرل کو دی جائے۔ ملٹری ہائی کمان کے ایک افسر نے جنرل باجوہ کے اس خیال کی مخالفت کر دی۔ شاید انہوں نے یہ سوچا ہو گا کہ کمرشل پراجیکٹس پر کام کرنا آرمی کا کام نہیں ہے یا پھر جرنیلوں کو ایسے کام کرنے کی ٹریننگ نہیں دی گئی ہے۔ اس وقت سے اب تک جنرل باجوہ کے آرمی چیف بننے کے علاوہ کوئی تبدیلی آئی ہے؟
دوسرا نظریاتی مسئلہ یہ ہے کہ کیا ایمرجنسی کے نام سے عارضی تبدیلیاں دائمی اداروں کو کمزور کرتی ہیں یا مضبوط؟ اس معاملے میں سپیشل ٹریبونلز (جو احتساب سے دہشت گردی اور بینکنگ سے رینٹ جیسے معاملات کے لیے بنائے گئے ہیں ) کی پرفارمنس ہمارے سامنے ہے۔ مثال کے طور پر اینٹی ٹیررازم کورٹس کو ہی لے لیجیے جو 1998 میں بنائی گئی تھیں۔ ان سے عدم اطمینان کی وجہ سے ہم نے آرمی پبلک سکول کے واقعہ کے بعد ملٹری کورٹس بنا لیں۔ لیکن کیا ہم دیانتداری سے دعوی کر سکتے ہیں کہ ان مختصر مدتی حل کے بعد انصاف کے تقاضے پورے ہوئے اور کرائم ریٹ میں کمی آئی ہے؟
عارضی حل کو بھی فائدہ مند ثابت ہونے کے لیے وقت اور تسلسل درکار ہوتا ہے۔ جب اے پی ایس کے بعد ملٹری ٹریبیونلز بنائے گئے تب عام عدالتوں میں بہتری لانے کے معاملے سے توجہ ہٹ گئی اور ساری توجہ ملٹری کورٹس کو جاری رکھنے پر مرکوز کر دی گئی۔ اس طرح فوکس بنیادی ضرورت اور سروس ڈیلیوری سے ہٹ کر ملٹری کورٹس کے اختیار کی طرف منتقل ہو گیا۔ اس عمل کے بعد بنیادی حقوق اور طریقہ کار اور ٹرائل کورٹ کو مضبوط بنانے کے معاملے میں جو نتائج سامنے آئے وہ بہت حوصلہ افزا نہیں تھے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے معاملے میں جنگی اپروچ اور کریمینل جسٹس اپروچ پر بحث بھی بہت مفید ہے۔ جب پہلی بار لاپتہ افراد اور انٹرنمنٹ کیمپس کا معاملہ زیر بحث آیا تو یہ جواز پیش کیا گیا کہ فاٹا اور سوات میں ایک نئی نوعیت کی جنگ پھیل رہی ہے اور کریمینل جسٹس سسٹم اس جنگ سے نمٹنے میں ناکام ہے اس لیے جنگی آپریشن کے دوران مجرموں کو غیر قانونی انٹرنمنٹ کیمپس میں رکھنا مجبوری ہے۔ اسی وجہ سے نیا اینٹی ٹیررازم ایکٹ، پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ اور فئیر ٹرائل ایکٹ لائے گئے تا کہ ملٹری اور خفیہ ایجنسیوں کو مکمل اختیار دیا جا سکے۔
لیکن یہ کافی نہیں تھا۔ اے پی ایس واقعہ کے بعد ہم نے جنگی اپروچ کو اپنا لیا اور ملٹری کورٹس تخلیق کر لیں۔ اس طرح ملٹری کے تحت ایجنسیوں نے پورے اختیار کے ساتھ کریمینل جسٹس سسٹم کی طرز پر پولیسنگ، تحقیقات، پراسیکیوشن اور فیصلے سنانے کا عمل شروع کیا۔ لیکن ان بنیادی تبدیلیوں کے نتیجہ میں کریمینل جسٹس سسٹم میں دو چیزیں سامنے آئیں، ایک یہ کہ جذبات کے استعمال کی وجہ سے مستقل کریمینل جسٹس سسٹم پر بھروسا ختم ہونے لگا، اوردوسرا، اتنے اختیارات ملنے کے باوجود لاپتہ افراد اور انٹرنمنٹ کمیپس کامعاملہ ابھی تک وہیں موجود ہے۔
تیسرا نظریاتی مسئلہ یہ ہے کہ کیا ڈی فیکٹو سسٹم کو ڈی جورو سسٹم میں لانے سے آخر الذکر مضبوط ہوتا ہے یا کمزور؟ آرمی چیف کی حمایت میں بہترین استدلال یہ ہو گا کہ اگر ملٹری پردے کے پیچھے چھپ کر کردار ادا کرے گی تو اس سے بہتر یہ نہیں ہے کہ منافقت ترک کر کے ملٹری کو ٹیبل پر بٹھا کر سب کے سامنے بحث شروع کی جائے؟ اگرچہ یہ نکتہ دیکھنے میں اچھا اور پرکشش لگتا ہے لیکن یہ اس وقت کام نہیں آتا جب آپ اسے ڈی فیکٹو اور ڈی جیورو سسٹم کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
ظاہری نظام بالکل واضح ہے۔ آرٹیکل 243 میں ملٹری پر سویلین حکومت کے کنٹرول کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 245 کے مطبق ملٹری کا کام فیڈرل گورنمنٹ کی ہدایات کے مطابق ملک کا بیرونی جارحیت کے خلاف دفاع کرنا ہے اور جب آرمی کو سویلین حکومت بلائے تو اسے قانون کے مطابق اور سویلین حکومت کے ساتھ مل کر دفاع کا فریضہ سر انجام دینا چاہیے۔ کیا وزیر اعظم نے خود آرمی چیف سے کہا ہے کہ سول پاور کے معاون کی حیثیت سے معیشت کو بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں؟ اور کیا اس کونسل میں آرمی چیف کی شمولیت قانون کے مطابق ہے، خاص طور پر جہاں تک آرمی کے مینڈیٹ کا تعلق ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آئین کی طرف سے نیشنل اکنامک کونسل (این ای سی) کو جو مینڈیٹ دیا گیا ہے، نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل اس کی خلاف ورزی ہے۔
تو کیا نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل ڈی فیکٹو سسٹم کے مقاصد کے عین مطابق ہے؟ ڈی فیکٹو سسٹم کی طاقت اقتدار اور ذمہ داری کے بیچ فاصلے میں چھپی ہے۔ سویلین حکومتوں کی غیر موجودگی میں اور اخلاقی اور قانونی اختیار کے ہوتے ہوئے آمرانہ حکومتیں پورے اختیار اور طاقت کے ساتھ حکمرانی کرتی ہیں۔ یہ خاص طاقت ملٹری اپنے حساب سے استعمال کرتی ہے۔ جب فوج پردے کے پیچھے سے طاقت استعمال کرتی ہے تو اس پر اس کے اعمال کی وجہ سے قانونی طور پر کوئی ذمہ داری لاگو نہیں ہوتی۔ اس صورت میں اگر کوئی پالیسی غلط اور ناکام ہو جائے تو اس کے پاس موقع ہوتا ہے کہ یہ خود کو معاملہ سے الگ کر لے۔
لیکن یہ صاف و شفاف ترتیب اس وقت بگڑ جاتی ہے جب آپ اس نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل میں آرمی چیف کو شامل ہوتا دیکھتے ہیں۔ اس کونسل کے قیام کے پیچھے جو محرکات ہیں ان پر قانونی لحاظ سے سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ لیکن آرمی چیف جب اس اعلی سطحی کونسل کے باقاعدہ حصہ ہیں جو ملک کو معاشی مسائل سے نکالنے کے لیے بنائی گئی ہے تو آرمی اور اس کے سربراہ پی ٹی آئی حکومت کی معاشی، خسارتی اور ترقیاتی پالیسیوں کے سپانسر اور پارٹنر بن جاتے ہیں۔ یوں آرمی چیف اور ان کا ادارہ ان پالیسیوں کی کامیابی یا ناکامی کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ اب ہمارے پاس ایسے آرمی چیف ہیں جو عمران حکومت کی طرف سے بنائی گئی معاشی پالیسی کے براہ راست حصہ دار ہیں۔
عارضی سسٹم کے مطابق نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل کسی طرح بھی قابل قبول نہیں اور حقیقی نظام کے لیے ناپسندیدہ ہے۔ لیکن عمران خان کی طرف سے یہ سب سے پسندیدہ قدم ہے۔ انہوں نے آرمی چیف کو گلے لگا کر اور انہیں نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل کا حصہ بنا کر عوام کو یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ پی ٹی آئی کی سویلین حکومت اور ملٹری ایک صفحہ پر ہیں، مل کر قومی معاشی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں، ان کی قسمت ایک دوسرے سے جڑی ہے اور وہ اکٹھے ڈوبنے یا تیرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ اس حکومت کی طوالت کے لیے یہ سب سے زیادہ قابل اعتماد گارنٹی ہے۔
07/07/2019 بابر ستار
عمران خان نے نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل کیوں بنائی اور اس کے رکن کی حیثیت سے جنرل باجوہ کا انتخاب کیوں کیا؟ اور آرمی چیف نے نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل میں شمولیت کی حامی کیوں بھری اور کیوں پی ٹی آئی حکومت کی معاشی پالیسیوں کی ناکامی یا کامیابی کی ذمہ داری اپنے سر لی؟ نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل کی تخلیق اور تکمیل کو کسی بھی پہلو سے دیکھ لیں، یہ آئیڈیا بالکل ناقابل قبول نظر آتا ہے۔ یہ ڈی جورو سسٹم کو کمزور کرتا ہے اور یہ اختیار اور ذمہ داری کے بیچ فرق کو بھی ختم کرتا ہے جو کہ ڈیفیکٹو سسٹم کی سب سے بڑی طاقت ہوتی ہے۔
سب سے پہلے نظریاتی لحاظ سے اس خیال کو سامنے رکھتے ہیں۔ یہ فیڈرل ازم پر مبنی نظریہ ہے اور آئینی طور پر کردار اور ذمہ داریوں کی تقسیم کے خلاف ہے۔ آئین میں نیشنل اکانومک کونسل کی اجازت ہے جو وزیر اعظم اور چار وزرائے اعلی اور دیگر ممبران جن کو وزرائے اعلی سلیکٹ کرتے ہیں پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس طرح مرکز اور صوبائی سطح پر اس کونسل کا توازن درست رہتا ہے۔ اس کونسل کا مقصد ملک کی معاشی صورتحال کو دیکھنا اور ترجیحات طے کرنا ہوتا ہے۔
منتخب حکومتوں نے اس فورم کو استعمال نہیں کیا یہ الگ معاملہ ہے۔ لیکن اگر عمران خان معاشی پالیسی کے معاملے میں اداروں کی مضبوطی چاہتے تھے اور اس مشکل وقت میں آرمی چیف کی بھی رائے چاہتے تھے وہ آرمی چیف کو این ای سی کا حصہ بنا سکتے تھے۔ این ای سی اور اس کے فیصلوں کی وقعت ہوتی کیونکہ یہ ایک آئینی ادارہ ہے۔ نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل ایک نوٹیفیکیشن کے ذریعے بنائی گئی ہے جو نہ تو وزراء اعلی کو میٹنگ کا حصہ بننے کا پابند بنا سکتی ہے اور نہ ہی صوبوں کے بیچ تعلق کو مضبوط بناتی ہے۔
پھر اہلیت کی بھی بات قابل توجہ ہے۔ ادارتی لحاظ سے فوج باقی تمام اداروں سے بہتر کارکردگی کی حامل ہے کیونکہ یہ اہلکاروں کو ایک ادارے کی طرح ٹرین کرتی ہے اور اپنا رویہ بھی ادارے کے طور پر سامنے رکھتی ہے۔ کمانڈ، سٹاف اور ٹریننگ کے عہدوں پر آرمی عہدیداران کی تبدیلیاں ایک ایسی چیز ہے جو دوسرے اداروں کو آرمی سے سیکھنا چاہیے۔ جو بھی آرمی افسر سب سے اعلی عہدے پر پہنچتا ہے وہ بہت مضبوط ہوتا ہے کیونکہ پہلے انہیں اعلی درجہ کی ٹریننگ دی جاتی ہے اور پھر ان کی عہدے کے لیے اہلیت جانچنے کا عمل مکمل کیا جاتا ہے۔
ہماری تاریخ یہ بتاتی ہے کہ آرمی افسران تبھی ناکام ہوتے ہیں جب وہ سویلین اداروں میں بھرتی ہوتے ہیں کیونکہ وہاں وہ ایسے کام بھی کرنے لگتے ہیں جن کی انہیں فوج میں ٹریننگ نہیں ملی ہوتی۔ نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل میں آرمی چیف کی موجودگی سے یہ سوال اٹھتا ہے کہ انہوں نے اپنے کیریر کے کس مرحلے میں معاشی مسائل حل، ملکی ترقی میں کردار ادا کرنے اور مالیاتی مواقع پیدا کرنے کی تربیت حاصل کی تھی۔ آرمی چیف کا جواب اپنے ادارے کی بجٹ ضروریات سے نمٹنے کی طرف اشارہ کی صورت میں مل سکتا ہے۔ وہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ ریاست کی سکیورٹی پالیسی کو مشکلات درپیش ہو سکتی ہیں اگر دفاعی نظام کے لیے مطلوبہ ہتھیار رقم نہ ہونے کی وجہ سے خریدنے میں مشکلات پیش آئیں یا مشینری کو جدید دور کی ضروریات کے مطابق نہ بنایا جا سکا۔ لیکن کیا وہ ریاست کو پیسے کے حصول کے سلسلے میں مشورہ دینے کی اہلیت رکھتے ہیں؟
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ نواز شریف کے دور میں سول ملٹری تنازعہ کی وجوہات میں سے ایک وجہ سی پیک پر کنٹرول کا جھگڑا بھی تھا۔ جنرل راحیل شریف کے دور میں یہ چہ میگوئیاں سننے کو ملتی تھیں کہ سی پیک کی ایک ڈویژن بنانے کی بات ہو رہی تھی جس کو دیکھنے کی ذمہ داری ایک لیفٹیننٹ جنرل کو دی جائے۔ ملٹری ہائی کمان کے ایک افسر نے جنرل باجوہ کے اس خیال کی مخالفت کر دی۔ شاید انہوں نے یہ سوچا ہو گا کہ کمرشل پراجیکٹس پر کام کرنا آرمی کا کام نہیں ہے یا پھر جرنیلوں کو ایسے کام کرنے کی ٹریننگ نہیں دی گئی ہے۔ اس وقت سے اب تک جنرل باجوہ کے آرمی چیف بننے کے علاوہ کوئی تبدیلی آئی ہے؟
دوسرا نظریاتی مسئلہ یہ ہے کہ کیا ایمرجنسی کے نام سے عارضی تبدیلیاں دائمی اداروں کو کمزور کرتی ہیں یا مضبوط؟ اس معاملے میں سپیشل ٹریبونلز (جو احتساب سے دہشت گردی اور بینکنگ سے رینٹ جیسے معاملات کے لیے بنائے گئے ہیں ) کی پرفارمنس ہمارے سامنے ہے۔ مثال کے طور پر اینٹی ٹیررازم کورٹس کو ہی لے لیجیے جو 1998 میں بنائی گئی تھیں۔ ان سے عدم اطمینان کی وجہ سے ہم نے آرمی پبلک سکول کے واقعہ کے بعد ملٹری کورٹس بنا لیں۔ لیکن کیا ہم دیانتداری سے دعوی کر سکتے ہیں کہ ان مختصر مدتی حل کے بعد انصاف کے تقاضے پورے ہوئے اور کرائم ریٹ میں کمی آئی ہے؟
عارضی حل کو بھی فائدہ مند ثابت ہونے کے لیے وقت اور تسلسل درکار ہوتا ہے۔ جب اے پی ایس کے بعد ملٹری ٹریبیونلز بنائے گئے تب عام عدالتوں میں بہتری لانے کے معاملے سے توجہ ہٹ گئی اور ساری توجہ ملٹری کورٹس کو جاری رکھنے پر مرکوز کر دی گئی۔ اس طرح فوکس بنیادی ضرورت اور سروس ڈیلیوری سے ہٹ کر ملٹری کورٹس کے اختیار کی طرف منتقل ہو گیا۔ اس عمل کے بعد بنیادی حقوق اور طریقہ کار اور ٹرائل کورٹ کو مضبوط بنانے کے معاملے میں جو نتائج سامنے آئے وہ بہت حوصلہ افزا نہیں تھے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے معاملے میں جنگی اپروچ اور کریمینل جسٹس اپروچ پر بحث بھی بہت مفید ہے۔ جب پہلی بار لاپتہ افراد اور انٹرنمنٹ کیمپس کا معاملہ زیر بحث آیا تو یہ جواز پیش کیا گیا کہ فاٹا اور سوات میں ایک نئی نوعیت کی جنگ پھیل رہی ہے اور کریمینل جسٹس سسٹم اس جنگ سے نمٹنے میں ناکام ہے اس لیے جنگی آپریشن کے دوران مجرموں کو غیر قانونی انٹرنمنٹ کیمپس میں رکھنا مجبوری ہے۔ اسی وجہ سے نیا اینٹی ٹیررازم ایکٹ، پروٹیکشن آف پاکستان ایکٹ اور فئیر ٹرائل ایکٹ لائے گئے تا کہ ملٹری اور خفیہ ایجنسیوں کو مکمل اختیار دیا جا سکے۔
لیکن یہ کافی نہیں تھا۔ اے پی ایس واقعہ کے بعد ہم نے جنگی اپروچ کو اپنا لیا اور ملٹری کورٹس تخلیق کر لیں۔ اس طرح ملٹری کے تحت ایجنسیوں نے پورے اختیار کے ساتھ کریمینل جسٹس سسٹم کی طرز پر پولیسنگ، تحقیقات، پراسیکیوشن اور فیصلے سنانے کا عمل شروع کیا۔ لیکن ان بنیادی تبدیلیوں کے نتیجہ میں کریمینل جسٹس سسٹم میں دو چیزیں سامنے آئیں، ایک یہ کہ جذبات کے استعمال کی وجہ سے مستقل کریمینل جسٹس سسٹم پر بھروسا ختم ہونے لگا، اوردوسرا، اتنے اختیارات ملنے کے باوجود لاپتہ افراد اور انٹرنمنٹ کمیپس کامعاملہ ابھی تک وہیں موجود ہے۔
تیسرا نظریاتی مسئلہ یہ ہے کہ کیا ڈی فیکٹو سسٹم کو ڈی جورو سسٹم میں لانے سے آخر الذکر مضبوط ہوتا ہے یا کمزور؟ آرمی چیف کی حمایت میں بہترین استدلال یہ ہو گا کہ اگر ملٹری پردے کے پیچھے چھپ کر کردار ادا کرے گی تو اس سے بہتر یہ نہیں ہے کہ منافقت ترک کر کے ملٹری کو ٹیبل پر بٹھا کر سب کے سامنے بحث شروع کی جائے؟ اگرچہ یہ نکتہ دیکھنے میں اچھا اور پرکشش لگتا ہے لیکن یہ اس وقت کام نہیں آتا جب آپ اسے ڈی فیکٹو اور ڈی جیورو سسٹم کے تناظر میں دیکھتے ہیں۔
ظاہری نظام بالکل واضح ہے۔ آرٹیکل 243 میں ملٹری پر سویلین حکومت کے کنٹرول کو واضح طور پر بیان کیا گیا ہے۔ آرٹیکل 245 کے مطبق ملٹری کا کام فیڈرل گورنمنٹ کی ہدایات کے مطابق ملک کا بیرونی جارحیت کے خلاف دفاع کرنا ہے اور جب آرمی کو سویلین حکومت بلائے تو اسے قانون کے مطابق اور سویلین حکومت کے ساتھ مل کر دفاع کا فریضہ سر انجام دینا چاہیے۔ کیا وزیر اعظم نے خود آرمی چیف سے کہا ہے کہ سول پاور کے معاون کی حیثیت سے معیشت کو بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کریں؟ اور کیا اس کونسل میں آرمی چیف کی شمولیت قانون کے مطابق ہے، خاص طور پر جہاں تک آرمی کے مینڈیٹ کا تعلق ہے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آئین کی طرف سے نیشنل اکنامک کونسل (این ای سی) کو جو مینڈیٹ دیا گیا ہے، نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل اس کی خلاف ورزی ہے۔
تو کیا نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل ڈی فیکٹو سسٹم کے مقاصد کے عین مطابق ہے؟ ڈی فیکٹو سسٹم کی طاقت اقتدار اور ذمہ داری کے بیچ فاصلے میں چھپی ہے۔ سویلین حکومتوں کی غیر موجودگی میں اور اخلاقی اور قانونی اختیار کے ہوتے ہوئے آمرانہ حکومتیں پورے اختیار اور طاقت کے ساتھ حکمرانی کرتی ہیں۔ یہ خاص طاقت ملٹری اپنے حساب سے استعمال کرتی ہے۔ جب فوج پردے کے پیچھے سے طاقت استعمال کرتی ہے تو اس پر اس کے اعمال کی وجہ سے قانونی طور پر کوئی ذمہ داری لاگو نہیں ہوتی۔ اس صورت میں اگر کوئی پالیسی غلط اور ناکام ہو جائے تو اس کے پاس موقع ہوتا ہے کہ یہ خود کو معاملہ سے الگ کر لے۔
لیکن یہ صاف و شفاف ترتیب اس وقت بگڑ جاتی ہے جب آپ اس نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل میں آرمی چیف کو شامل ہوتا دیکھتے ہیں۔ اس کونسل کے قیام کے پیچھے جو محرکات ہیں ان پر قانونی لحاظ سے سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں۔ لیکن آرمی چیف جب اس اعلی سطحی کونسل کے باقاعدہ حصہ ہیں جو ملک کو معاشی مسائل سے نکالنے کے لیے بنائی گئی ہے تو آرمی اور اس کے سربراہ پی ٹی آئی حکومت کی معاشی، خسارتی اور ترقیاتی پالیسیوں کے سپانسر اور پارٹنر بن جاتے ہیں۔ یوں آرمی چیف اور ان کا ادارہ ان پالیسیوں کی کامیابی یا ناکامی کا بھی ذمہ دار ٹھہرایا جائے گا۔ اب ہمارے پاس ایسے آرمی چیف ہیں جو عمران حکومت کی طرف سے بنائی گئی معاشی پالیسی کے براہ راست حصہ دار ہیں۔
عارضی سسٹم کے مطابق نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل کسی طرح بھی قابل قبول نہیں اور حقیقی نظام کے لیے ناپسندیدہ ہے۔ لیکن عمران خان کی طرف سے یہ سب سے پسندیدہ قدم ہے۔ انہوں نے آرمی چیف کو گلے لگا کر اور انہیں نیشنل ڈویلپمنٹ کونسل کا حصہ بنا کر عوام کو یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ پی ٹی آئی کی سویلین حکومت اور ملٹری ایک صفحہ پر ہیں، مل کر قومی معاشی منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کا ارادہ رکھتے ہیں، ان کی قسمت ایک دوسرے سے جڑی ہے اور وہ اکٹھے ڈوبنے یا تیرنے کا عزم رکھتے ہیں۔ اس حکومت کی طوالت کے لیے یہ سب سے زیادہ قابل اعتماد گارنٹی ہے۔