اصل وارث

کلمہ شہادت کی صدائیں بلند ہوئیں ۔۔ میں ساکت و جامد انتہائی خوشبودار کافور اور عطر کے گلدستوں سے مزین چادرمیں ملبوس چارپائی کے چاروں شانوں سے یکدم اُٹھایا گیا ۔۔۔۔۔۔آہ وبکا کا ایک قہربرپا ہوا ۔ الوداعی سسکیاں ہاتھ اُٹھا کر مجھے خدا حافظ کر رہی تھیں ۔چارپائی ابدی آرام گاہ کی طرف خراماں خراماں گامزن ہوئی ۔۔

ایک ہجوم میرے دائیں بائیں پیچھے چل رہا تھا ۔۔۔ ماحول سوگوار تھا ۔۔ کاندھا تبدیل کرتے ہوئے زور سے کلمہ شہادت بلند ہوتا ۔۔۔ چارپائی کے ساتھ ساتھ چلتے لوگ سوگ کی فضا قائم رکھے ہوئے تھے لیکن پیچھے رہ جانے والے احباب آپس میں سرگوشیاں کر رہے تھے جیسے مدتوں بعد ملے رفقا باہم ملاقات میں کھلکھلا اُٹھتے ہوں ۔۔ہجوم کے آخری لوگ صرف قدم کی بندش نہ ٹوٹنے کے ڈر سے تیز تیز چل رہے تھے ۔۔ جیسے ہی جنازہ سڑک کے چوراہے کے قریب ہوا ، موٹر سائیکل ، کار وغیرہ پر سوار لوگ وقتی طور پر اپنی سواری کو روک کر اظہار افسوس سے کھڑے ہو جاتے لیکن جونہی جنازہ اُن کو عبور کرتا ہر کوئی اپنی منزل کی طرف قدرے تیزی سے آگے بڑھ جاتا ۔۔۔۔۔۔

اچانک اُس چوراہے کے پچھلی طرف سے بھاری بھرکم زنجیروں اور گھنگھرؤں میں ملبوس ایک ادھیڑ عمر بوڑھا فقیر ہاتھ میں کشکول اُٹھائے حق حق کا نعرہ بلند کرتا ہوا مشہور زمانہ گیت اونچی صدا میں گانے لگا ۔۔۔

پاگاں والیو نام جپو مولا نام ۔۔۔۔۔۔ نام مولا نام ۔۔

کان پڑتے اس گیت میں سوز اور دانائی کی انتہائی پراثر بازگشت شاید اس رختِ سفر میں بھلے اچھی لگ رہی تھی لیکن دور ِ حیات میں اپنے پورے قد کاٹھ کے ساتھ وہ جوش ِ جنوں ، سوچوں کی رنگین مسافتیں ، خواہشات سے لبریز دنیا لئے کبھی بھی ایک آنکھ نہ بھاتی تھی ۔۔۔۔

اُس وقت ““ نام جپو مولا نام ““ محض گداآرائی ہی معلوم پڑتا تھا ۔۔۔

آج سکوت کا پیرہن اوڑھے یہ خاکی فطرت اپنے نامہ میزان کو تعصب ، بغض و کینہ ، حرص و لالچ اور نفرت جیسی نفسی بیماریوں کے سبب جُھکےپلڑے کے مقابل برتر ثابت کرنے کے لئے اس فقیر سے وہ الفاظ ۔۔۔ مولانام ۔۔۔۔ چھین لینا چاہتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔

اس آگہی کے ساتھ کہ حق کے دریچے کبھی باطل کی دھول سے ڈھکے نہیں جا سکتے وہ جذبہ خاکی اُس فقیر کی صدائے حق پر عمل پیرا ہونا چاہتا تھا ۔۔۔

لیکن وقت گزر چکا تھا ۔ مہلت ختم ہو چکی تھی ۔ اختیار چھن چکا تھا ۔۔۔ جسم ٹھنڈے گوشت نما خدوخال میں قید تھا ۔۔ زبان لفظوں کی بندش لئے سلب تھی ۔۔ حرکات و سکنات سے معذوری برحق تھی ۔۔ کل تک ہواؤں کا رُخ موڑنے والے ہاتھ آج آنکھوں کی جنبش کو ترس رہے تھے ۔۔۔۔ ان پر ان دیکھی مدت تک تالے پڑ چکے تھے ۔

آخری آرام گاہ بھی آن پہنچی ۔۔۔۔ چارپائی کو قدرے اونچے مقام پر رکھا گیا اور صفیں باندھ دی گئیں ۔۔ امام نے جنازہ پڑھا اور میری بخشش کی دعائیں قدرے روائتی انداز میں مانگی گئیں۔۔۔ پھر سب کو میرے آخری دیدار کےلئے بُلایا گیا ۔۔سب اپنے پرائے سفید کفن سے باہر نکلا میرا چہرہ باری باری دیکھتے اور عبرت کی حقیقت سے غافل روش لئے آگے بڑھتے جاتے ۔۔۔۔

چارپائی اُٹھائی گئی اور مجھے قبر کے پاس لایا گیا ۔۔۔۔۔ میرے تین چار احباب قبر میں اُترے اور میرے جسم کو قبرکی اتھاہ گہرائیوں میں اُتارا گیا ۔۔۔۔ قبر میں اُترتے ہی مٹی کی خوشبو عطر سے زیادہ مانوس لگی۔

گویا میرا حقیقی ماحول مجھے اب میسر آیا ہو ۔۔۔ سلیبیں رکھی گئیں اور اوپر سے جلدی جلدی مٹی ڈال دی گئی ۔ ایک نہ ختم ہونے والا اندھیرا میرے مردہ جسم کے ساتھ زندہ ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔

دنیا کے سراپا حیرت جھمیلوںمیں چیخ پا ہوتی فضاؤں سے قبر کے اندر کا یہ سکوت بھلا لگ رہا تھا ۔۔ مٹی کی سوگند کافور و عطر کی موجودگی پر غلبہ پا چکی تھی ۔۔۔

میرے اپنے پرائیوں نے قبرستان سے واپس پلٹتے ہوئے ایک دفعہ بھی پیچھے مُڑ کر میری لحد کو نہ دیکھا جیسے خاموش الفاظ سے مجھے سمجھا گئے ہوں کہ

““ اس دنیا کی فانی قربتوں کے بعد یہ قبر کی گود ہی تمہاری اصل وارث ہے ““
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر : سید شاکرحسین
 
Top