اضطراب

محمل ابراہیم

لائبریرین
حال نارساں


بہت ساری کہانی ہے،تمہیں ہے کون سی سُننی؟
فسانہ کوئی پریوں کا ؟یا کوئی آنکھ کا پانی؟
یا قصہ بادشاہوں کا؟کہ جن کہ ظلم کے آگے۔۔۔۔۔
بہت سے بے زبان معصوم کرداروں نے جانیں دیں
قحط جب بھی پڑا لہو اُنکا بنا پانی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہ جن کے پاؤں کے نیچے تھی پگ مزدور و بیکس کی
یا پھر قِصّہ یتیموں کا ؟؟؟
جھلستی دھوپ میں ۔۔۔۔۔۔۔
گری پڑتی سی دیواروں کو جو ماں باپ کہتے ہیں
روپہلی چاندنی کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟
جو کھلے آنگن میں پڑتی ہے۔۔۔۔۔۔
امیری اور غریبی میں نہ کچھ تفریق کرتی ہے
امیروں کے دریچوں کو اگر وہ روشنی بخشے
تو پھر غرباء کے گھر کو بھی وہ فانوس کرتی ہے
وہ چپکے سے ہمیں اک خوبصورت درس سے
مانوس کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
ہم اشرف ہیں سبھی مخلوق میں توہین کی ہم نے
ہمارے اشرفیت کی بڑی تحقیر کی ہم نے
ہنسی ہم نے اڑائی ہے ہمارے جدِ امجد کی۔۔۔۔۔
اگر ہم معتبر ہوتے نہ اپنے حال کو روتے
کورونا کی شکل میں اک وباء کیونکر چلی آتی
قفس میں قید ہم ہوتے نہ فرط زِندگی جاتی
جو ہم مخلوق کو مخلوق کا درجہ دیے ہوتے
تو پھر وہ ناخدا ہم کو کنارے سے لگا دیتا
معیشت کی پریشانی سے ہم سب کو بچا لیتا
وہیں جس نے شکم میں ماہی کے یونس کو رکھا تھا
وہی جس نے کلیم اللہ کا رستہ بنایا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جس نے آگ ابراہیم کی خاطر کری ٹھنڈی
وہ جس نے گمشدہ یوسف کو بنایا مصر کا والی
وہ جس نے ابنِ مریم کو اٹھایا آسمانوں پر
وہیں جس نے سلیماں کو نوازا تخت و طاقت سے
وہ جس نے بے سہاروں کو بچایا ہر اک آفت سے
وہ جس نے آدم و حوّا کو بخشا اپنی رحمت سے
تمہیں معلوم ہے وہ پیار کس سے ہے بہت کرتا......؟
یہ دنیا اور وہ عقبیٰ بنائی اس نے کیونکر ہے۔۔۔۔۔۔۔؟
یہ تارے کیوں سجائے؟چاند کو کیونکر ضیاء بخشی؟
زمیں اشجار اور برگ و ثمر سے کیوں ہری کردی۔۔؟
وہ کس کو پیار میں طہ کبھی یاسین کہتا ہے ۔۔۔۔۔۔؟؟
وہ کس کو جوش اُلفت میں میرے محبوب کہتا ہے؟؟
ہاں بیشک وہ محمد مصطفیٰ کی ذات ہی ہوگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کہ جس کے نام سے پہلے ہر اک سو رات ہی ہوگی۔۔۔۔۔۔
ہمیں ہے فخر اُن پر کیا انہیں ہم پر بھی کچھ ہوگا؟؟؟
نہیں سوچا تھا اب تک ہم نے ،کیا اب بھی نہیں سوچا؟
نبی کا پاس رکھ پاتے اے ہم بھی کاش رکھ پاتے۔۔۔۔۔۔
جبیں پاؤں کی ٹھوکر پر نہ دنیا کی دھری ہوتی۔۔۔۔۔۔۔۔
خطائیں خود سے سرزد ہوں سزا پھر بھی کڑی ہوتی
نہ بدحالی میں سر دھنتے نہ بد امنی بڑھی ہوتی
اے ہم بھی کاش کچھ تو مصلحت اندوز ہو جاتے
زباں کے نرم ہوتے اور بہت دل سوز ہو جاتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستم مظلوم پر کرتے نہ ناحق بات پھیلاتے
تو ہم بھی عرفِ عالم میں بہت مقبول کہلاتے
حدف سے ہم نے رخ موڑا،تعلّق دین سے توڑا
پھر ہم مغلوب بن بیٹھے،خدا سے دور بن بیٹھے
روپہلی چاندنی سے آؤ کچھ تو سیکھ جائیں ہم
خودی تک آپ خود پہنچے خدا کو بھی منائیں ہم
جو امراء کے دریچوں کو اگر ہے روشنی بخشے
تو غرباء کے گھروں کو بھی منور کر کے رہتی ہے
وہ بانٹے روشنی سب کو،چلو ہم روٹیاں بانٹے۔۔۔۔۔
دہکتے پیٹ کی جب آگ ٹھنڈی ہو تو راحت ہو
عدل انصاف پر بھی غور کر پانے کی فرصت ہو
کوئی بچہ نہ ہو بھوکا،کوئی مائیں نہ گر روئیں
ہاں خونی بھیڑیے گر خون مظلوموں کے نہ پیئیں
مجھے اتنا یقیں ہے کہ کورونا بھاگ ج
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
یہ آخر کے دو مصرعے رہ گئے تھے_____
مجھے اتنا یقیں ہے کہ کرونا بھاگ جائیگا
سحر ہوگی طلوع پھر سے یقینا دن وہ آئیگا
 
نظم پر بات کرنے سے پہلے ایک مشورہ دینا چاہوں گا.
نظم کی طوالت بہت اہم اور حساس معاملہ ہے. غیر ضروری طوالت سے قاری کی دلچسپی کم ہوجاتی ہے. بہت سے تو سطور کی افراط دیکھ کر ہی اپنا راستہ ناپ لیتے ہیں. آج کل کے قارئین کا ذوق بھی طویل نظموں کا متحمل نہیں ہوپاتا. اس لئے بہتر یہی ہے کہ بے جا طوالت سے حتی الوسع اجتناب کیا جائے.

سب سے اہم بات یہ کی اتنی طویل داستان کے بعد اچانک کرونا سے اس کا ربط بنانا کچھ سمجھ نہیں آرہا؟

بہت ساری کہانی ہے،تمہیں ہے کون سی سُننی؟
فسانہ کوئی پریوں کا ؟یا کوئی آنکھ کا پانی؟
یا قصہ بادشاہوں کا؟کہ جن کہ ظلم کے آگے۔۔۔۔۔
بہت سے بے زبان معصوم کرداروں نے جانیں دیں
قحط جب بھی پڑا لہو اُنکا بنا پانی۔
کہ جن کے پاؤں کے نیچے تھی پگ مزدور و بیکس کی
کہانی "بہت ساری" نہیں ہوسکتی ... یا تو بہت ساری "کہانیاں" ہوسکتی ہیں، یا بہت لمبی کہانی.
پھر پریوں کا فسانہ تو سنایا جا سکتا ہے، آنکھ کا پانی کوئی کیسے سنا سکتا ہے؟ ہاں آنکھ کے پانی کے بہنے کا قصہ سنایا جاسکتا ہے.
علاوہ ازیں کرداروں کے لئے بے زبان کا وصف اتنا اچھا تاثر نہیں چھوڑ رہا. آخر میں قحط کا تلفظ آپ نے غلط کیا، صحیح تلفظ کے ساتھ مصرعہ بحر میں نہیں آتا. قحط کی ح ساکن ہوتی ہے اور اسکا تلفظ قَحْ+طْ ہوتا ہے. اس کے علاوہ بھی مصرعہ بحر سے خارج ہی ہے. مزید یہ کہ پگ اردو میں زیادہ مستعمل نہیں، نہ ہی اس مقام پر مناسب لگ رہا ہے. دستار یا پگڑی کہنا زیادہ بہتر ہوگا.

پہلے کچھ مصرعوں کو یوں سوچ کر دیکھیں.
بہت لمبی کہانی ہے، تمہیں کیا کیا سناؤں میں
فسانہ کوئی پریوں کا، کسی عفریت کا قصہ
یا پھر روداد ایسے بادشاہوں کی
کہ جن کے ظلم کے آگے
کئی کمزور اور معصوم کرداروں نے جانیں دیں
ہمیشہ قحط میں اُن کا لہو بنتا رہا پانی
سناؤں کیا تمہیں میں داستاں بے حس وزیروں کی
کہ جن کے پاؤں کے نیچے تھیں دستاریں غریبوں کی



یا پھر قِصّہ یتیموں کا ؟؟؟
جھلستی دھوپ میں ۔۔۔۔۔۔۔
گری پڑتی سی دیواروں کو جو ماں باپ کہتے ہیں
روپہلی چاندنی کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟
جو کھلے آنگن میں پڑتی ہے۔۔۔۔۔۔
امیری اور غریبی میں نہ کچھ تفریق کرتی ہے
امیروں کے دریچوں کو اگر وہ روشنی بخشے
تو پھر غرباء کے گھر کو بھی وہ فانوس کرتی ہے
وہ چپکے سے ہمیں اک خوبصورت درس سے
مانوس کرتی ہے۔۔۔۔۔۔۔
یتیموں والا حصہ حذف کردیں، اس کی تیسری لائن ویسے بھی بحر میں نہیں. درس سے مانوس کرنا بھی ٹھیک نہیں.
اس حصے کو یوں شروع کرسکتی ہیں
کہو تو ذکر کرتی ہوں
روپہلی چاندنی کا، جو اتر کر سب کے آنگن میں
امیری اور غریبی کی نہ کچھ تفریق کرتی ہے
لطافت سے یوں ہم کو درس دیتی ہے
....
باقی بہ شرط زندگی پھر کبھی
 

محمل ابراہیم

لائبریرین
بہت ممنون ہوں آپکی ۔۔۔۔۔آپکی شکر گزاری کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں۔اللہ آپکو عمر دراز عطا کرے۔مجھے برسوں سے آپ جیسے ہی کسی استاد کی تلاش تھی۔۔۔میں نے کئی ایک شخص کو اپنی غزل اور نظمیں دکھائیں مگر ہر ایک نے بیجا تعریف سے نواز کر مایوس کیا۔اگر اتوار کو اچانک اُردو محفل کی ویبسائٹ میرے ہاتھوں سے ٹچ نہ ہوتی تو مجھے آپکی شاگردی کا شرف کبھی حاصل نہ ہوتا۔۔۔۔

آپکی مشکور
سحر
 
Top