فرخ منظور
لائبریرین
اظہار اور رسائی -- از ن م راشد
مو قلم، ساز، گل تازہ، تھرکتے پاؤں
بات کہنے کے بہانے ہیں بہت
آدمی کس سے مگر بات کرئے
بات جب حیلہء تقریب ملاقات نہ ہو
اور رسائی کہ ھمیشہ سے ھے کوتاہ کمند
بات کی غایت غایات نہ ہو!
ایک ذرّہ کف خاکستر کا
شرر جستہ کے مانند کبھی
کسی انجانی تمنّا کی خلش سے مسرور
اپنے سینے کے دہکتے ھوئے تنّور کی لو سے مجبور
ایک ذرّہ کہ ہمیشہ سے ھے خود سے مہجور،
کبھی نیرنگ صدا بن کے جھلک اٹھتا ہے
آب و رنگ و خط و محراب کا پیوند کبھی
اور بنتا ھے معانی کا خداوند کبھی
وہ خداوند جو پابستہ آنات نہ ہو!
اسے اک ذرّے کی تابانی سے
کسی سوئے ہوئے رقّاص کے دست و پا میں
کانپ اٹھتے ہیں مہ و سال کے نیلے گرداب
اسی اک ذرّے کی حیرانی سے
شعر بن جاتے ہیں اک کوزہ گر پیر کے خواب
اسے اک ذرّہ لا فانی سے
خشت بے مایہ کو ملتا ھے دوام
بام و در کو وہ سحر جس کی کبھی رات نہ ہو!
آدمی کس سے مگر بات کرئے
مو قلم، ساز، گل تازہ، تھرکتے پاؤں
آدمی سوچتا رہ جاتا ہے،
اس قدر بار کہاں، کس کے لیے، کیسے اٹھاؤں
اور پھر کس کے لیے بات کروں
مو قلم، ساز، گل تازہ، تھرکتے پاؤں
بات کہنے کے بہانے ہیں بہت
آدمی کس سے مگر بات کرئے
بات جب حیلہء تقریب ملاقات نہ ہو
اور رسائی کہ ھمیشہ سے ھے کوتاہ کمند
بات کی غایت غایات نہ ہو!
ایک ذرّہ کف خاکستر کا
شرر جستہ کے مانند کبھی
کسی انجانی تمنّا کی خلش سے مسرور
اپنے سینے کے دہکتے ھوئے تنّور کی لو سے مجبور
ایک ذرّہ کہ ہمیشہ سے ھے خود سے مہجور،
کبھی نیرنگ صدا بن کے جھلک اٹھتا ہے
آب و رنگ و خط و محراب کا پیوند کبھی
اور بنتا ھے معانی کا خداوند کبھی
وہ خداوند جو پابستہ آنات نہ ہو!
اسے اک ذرّے کی تابانی سے
کسی سوئے ہوئے رقّاص کے دست و پا میں
کانپ اٹھتے ہیں مہ و سال کے نیلے گرداب
اسی اک ذرّے کی حیرانی سے
شعر بن جاتے ہیں اک کوزہ گر پیر کے خواب
اسے اک ذرّہ لا فانی سے
خشت بے مایہ کو ملتا ھے دوام
بام و در کو وہ سحر جس کی کبھی رات نہ ہو!
آدمی کس سے مگر بات کرئے
مو قلم، ساز، گل تازہ، تھرکتے پاؤں
آدمی سوچتا رہ جاتا ہے،
اس قدر بار کہاں، کس کے لیے، کیسے اٹھاؤں
اور پھر کس کے لیے بات کروں