ابن سعید
خادم
اداریہ
نحمدہ و نصلی علی رسولہ الکریم۔ اما بعد
یہ بات کس قدر باعثِ افتخار و انبساط ہے کہ ہماری پہلی کوشش بنام اظہارِ حق آپ کے ہاتھوں میں ہے۔ زیرِ نظر شمارہ چند سرپھرے نوجوانوں کی اولوالعزمی اور نا تجربہ کاری کی مخلوط مثال ہے جن کے حوصلے بلند مگر وسائل محدود ہیں۔ ہاتھوں میں ہتھیار کے نام پر ٹوٹی ہوئی پنسل ہے اور مقابلہ ایسی طاقتوں سے ہے جو لامحدود وسائل اور جدید ترین اسلحہ جات سے لیس ہیں۔ انتہائی بے سروسامانی کے عالم میں برسوں سے جاری اس جنگ میں اس ایمان و یقین کے ساتھ شامل ہو رہے ہیں کہ انجام کار تو مالکِ کل کے ہاتھ میں ہے۔
ہماری جنگ اصلاحِ معاشرہ کے لئے ہے۔ علم کی ترویج کے لئے ہے۔ نفرت و عداوت کی بیخ کنی اور امن و دوستی کے قیام کی خاطر ہے۔ اتحاد و اتفاق اور آپسی بھائی چارے کے لئے ہے۔ ہمارا مقابلہ بے روزگاری اور غربت کے خلاف ہے۔ نوجوانوں میں بڑھتی بے راہ روی کے خلاف ہے۔ عزت و عصمت کی پامالی کے خلاف ہے۔ فحاشی اور عریانیت کے خلاف ہے۔ معاشرے کی گرتی قدروں کے خلاف ہے۔ مذاہب کی بے حرمتی کے خلاف ہے۔ ہماری کوششیں انکارِ باطل اور اظہار حق کیلئے ہیں۔
بیک وقت اتنے سارے محاذوں پر صف آرائی جس لشکر جرّار کا متقاضی ہے ابھی اس کا تصوّر بھی محال ہے۔ لہٰذا ہمارا انداز شبخون مارنے والا ہوگا۔ اس امید کے ساتھ کہ شاید مستقبل میں کوئی لشکر تشکیل پاسکے۔
یومِ سرسید کے موقع پر ہم اس ہستی اور اس کے کارناموں کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہیں۔ جنھوں نے کچھ اسی انداز کا شبخون تب مارا تھا جب ہندوستان میں اور خصوصاً مسلم طبقے میں علم بیزاری عام تھی۔ جس کا نتیجہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی شکل میں سب کے سامنے ہے۔ اور اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ ادارہ ہندوستان کی اسلامی یونیورسٹیوں میں علم بردار کی حیثیت کا حامل ہے۔ جس سے لوگ بلا تفریقِ قوم و ملت فیض یاب ہو رہے ہیں۔ جس وقت سر سید احمد خاں نے اس جنگ کا آغاز کیا تھا اس وقت بے سر و سامان تو وہ بھی تھے اور تنِ تنہا بھی۔ ان کے کارنامے ہمارے لئے باعثِ حوصلہ افزائی اور نشان ِراہ ہیں۔
ہم اپنے کرم فرماؤں معاونین رضاکاروں اور قدردانوں کے شکرگزار ہیں۔ نیز آپ کی گراں قدر شرکت اور رائے کے منتظر ہیں۔
اللہ سبحانہ تعالیٰ ہماری کاوشوں کو قبول فرمائے اور ہمیں اپنے مقاصد میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار کرے۔
آمین۔
والسلام ۔
خیر اندیش
سعود عالم خان