حسان خان
لائبریرین
لوگ کہتے ہیں کہ میں ہوں شاعرِ جادو بیاں
صدرِ معنیٰ، داورِ الفاظ، امیرِ شاعراں
اور خود میرا بھی کل تک، خیر سے، تھا یہ خیال
شاعری کے فن میں ہوں منجملۂ اہلِ کمال
لیکن اب آئی ہے جب اک گونہ مجھ میں پختگی
ذہن کے آئینے پر کانپا ہے عکسِ آگہی
آسماں جاگا ہے سر میں اور سینے میں زمیں
اب مجھے محسوس ہوتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں
جہل کی منزل میں تھا مجھ کو غرورِ آگہی
اتنی لامحدود دنیا اور میری شاعری
زلفِ ہستی اور اتنے بے نہایت پیچ و خم
اڑ گیا رنگِ تعلی کھل گیا اپنا بھرم
میرے شعروں میں فقط اک طائرانہ رنگ ہے
کچھ سیاسی رنگ ہے، کچھ عاشقانہ رنگ ہے
کچھ مناظر، کچھ مباحث، کچھ مسائل، کچھ خیال
اک اچٹتا سا جمال، اک سر بہ زانو سا جلال
میرے قصرِ شعر میں غوغائے فکرِ ناتمام
ایک درد انگیز درماں، اک شکست آمادہ جام
گاہ سوزِ چشم و ابرو، گاہ سوزِ ناؤنوش
گاہ خلوت کی خموشی، گاہ جلوت کا خروش
چہچہے کچھ موسموں کے، زمزمے کچھ جام کے
دیرِ دل میں چند مکھڑے مرمریں اصنام کے
چند زلفوں کی سیاہی، چند رخساروں کی آب
گاہ حرفِ بے نوائی، گاہ شورِ انقلاب
گاہ مرنے کے عزائم، گاہ جینے کی امنگ
بس یہی سطحی سی باتیں، بس یہی اوچھے سے رنگ
بے خبر تھا میں کہ دنیا راز اندر راز ہے
وہ بھی گہری خامشی ہے جس کا نام آواز ہے
یہ سہانا بوستاں سرو و گل و شمشاد کا
ایک پل بھر کا کھلنڈراپن ہے ابر و باد کا
ابتدا و انتہا کا علم نظروں سے نہاں
ٹمٹماتا سا دیا، دو ظلمتوں کے درمیاں
انجمن میں تخلیے ہیں، تخلیوں میں انجمن
ہر شکن میں اک کھچاوٹ، ہر کھچاوٹ میں شکن
ہر گماں میں اک یقیں سا، ہر یقیں میں سو گماں
ناخنِ تدبیر بھی خود ایک گتھی بے اماں
ایک ایک گوشے سے پیدا وسعتِ کون و مکاں
ایک ایک خوشے میں پنہاں صد بہارِ جاوداں
برق کی لہروں کی وسعت الحفیظ و الاماں
اور میں صرف ایک کوندے کی لپک کا رازداں
رازداں کیا، مدح خواں اور مدح خواں بھی کم سواد
نابلد، نادان، ناواقف، ندیدہ، نامراد
کیوں نہ پھر سمجھوں سبک اپنے سخن کے رنگ کو
نطق نے الماس کے بدلے تراشا سنگ کو
لیلیِٰ آفاق الٹتی ہی رہی پیہم نقاب
اور یہی عورت، مناظر، عشق، صہبا، انقلاب
پا رہا ہوں شاید اب اس تیرہ حلقے سے نجات
کیونکہ اب پیشِ نظر ہے عقدہ ہائے کائنات
یہ بھنچی، الجھی زمیں، یہ پیچ در پیچ آسماں
الامان و الامان و الامان و الاماں
اک نفس کا تار اور یہ شورِ عمرِ جاوداں
اک کڑی اور اس میں زنجیروں کے اتنے کارواں
ایک ایک لمحے میں اتنے کاروانِ انقلاب
ایک ایک ذرے میں اتنے ماہتاب و آفتاب
اک صدا اور اس میں یہ لاکھوں ہوائی دائرے
جس کے شعبوں کو اگر چن لیں تو دنیا گونج اٹھے
ایک بوند اور ہفت قلزم کے ہلا دینے کا جوش
ایک گونگا خواب اور تعبیر کا اتنا خروش
اک کلی اور اس میں صدیوں کی متاحِ رنگ و بو
صرف اک لمحے کی رگ میں اور قرنوں کا لہو
ہر قدم پر نصب ہیں اسرار کے اتنے خیام
اور اس منزل میں میری شاعری، میرا کلام
جس میں رازِ آسماں ہے اور نہ اسرارِ زمیں
ایک خس، اک دانہ، اک جو، ایک ذرہ بھی نہیں
نوعِ انسانی کو جب مل جائے گی رفتارِ نور
شاعرِ اعظم کا تب ہو گا کہیں جا کر ظہور
خاک سے پھوٹے گی جب عمرِ ابد کی روشنی
جھاڑ دے گی موت کو دامن سے جس دن زندگی
جب ہماری جوتیوں کی گرد ہوگی کہکشاں
تب جنے گی نسلِ آدم شاعرِ جادو بیاں
فکر میں کامل نہ فنِ شعر میں یکتا ہوں میں
کچھ اگر ہوں تو نقیبِ شاعرِ فردا ہوں میں
(جوش ملیح آبادی)