’’جنگلی پھولوں کی مہک‘‘
چند راتوں کا کاجل، دنوں کی چمک،چند خوابوں کے پھولوں کی جنگلی مہک
میں تو دستِ تہی ان سے رخصت ہوا، میرے پیچھے بہت سلسلے رہ گئے
اعجاز عبید صاحب نے پچھلے چالیس برس سے شاعری کو اپنی ذات کا حوالہ بنایا ہوا ہے، ان کے شعری مجموعوں میں ان تمام برسوں کی سند موجود ہے، ۱۹۶۷ سے ۱۹۸۴ء تک کی غزلیں ’تحریرِ آبِ زر‘ اور ۱۹۷۶ ء سے لے کر ۲۰۰۷ ء تک کی غزلیں ’’اپنی برہنہ پائی پر‘‘ اور ’صاد اور دوسری نظمیں ‘ کے عنوان سے تمام نظمیں اس طرح وجود میں آئی ہیں کہ پڑھنے والا بے اختیار ان کے ساتھ خوابوں کے سفر پر چل نکلتا ہے جہاں اپنے وطن کی خوشبو ہے، جہاں دیس کے دلکش مناظر ایک ایک فریم میں بڑی نفاست سے گیلری میں سجے ہوئے ہیں ، محترم اعجاز عبید زندگی کے ہر شعبے کا ادراک رکھتے ہیں اور اپنے جذبات و احساسات کو اشعار کی تشکیل میں زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ استعمال کر رہے ہیں ،ان کے اشعار مؤثر روایتی آہنگ کے ذریعے ان کے اسلوب کے عکاس ہیں ،اعجاز عبید صاحب شعروادب کی دنیا میں اپنی مستحکم حیثیت سمیت تجربات اور مشاہدات کی روشنی میں اپنی کیفیات کو قلمبند کرنے کے ہنر سے آراستہ ہیں ، میرا تعارف کیسے اور کہاں ہوا ؟ یہ کہانی پھر تو نہ سہی البتہ آگے چل کر سناؤں گی کیونکہ میں بحیثیت شاعرہ اشعار کی جاذبیت سے مسحور ہوچکی ہوں اور فی الوقت انہی میں ڈوبی رہنا چاہتی ہوں :
تو میرے گیتوں کی لے تھی
میں ترے پاؤں کی جھانجھن تھا
ہلتے ہاتھ جو نیچے آئے
پھر سونا اسٹیشن تھا
کلاسک رنگ میں جدیدیت گھولتے ہوئے اشعار واضح کر رہے ہیں کہ ان کا خالق شعری تہذیب سے بخوبی واقف ہے ، ان اشعار کو پڑھتے ہی آپ ایک ایسے اسٹیشن پر جا کھڑے ہوتے ہیں جہاں یادیں اس کے سونے پن میں جھن جھنا جھن جھن گونج رہی ہیں ، جانے والا اپنے کائناتی حسن کی لے سے آپ کو بھی کھینچ رہا ہے،اللہ تعالی جب کسی انسان کو کوئی ہنر عطا فرماتا ہے تو وہ اس کے خاص ہالے کی روشنی اپنے ارد گرد لے کر چلتا ہے جس کی پھوٹتی کرنیں روشنی سے محبت کرنے والے پتنگوں اورپروانوں کو بے اختیار اپنی جانب کھینچ لیتی ہیں ، کچھ ایسی ہی بات شاعری میں بھی ہے، شاعر اپنی زندگی کا ایک ایک لمحہ،ایک ایک خواب، ایک ایک منظر اور ہر مشاہدہ اپنے الفاظ میں پرو دیتا ہے، جس طرح ہر چیز کے دو پہلو ہوتے ہیں مثلا ، غم یا خوشی،اندھیرا یااجالا وغیرہ لیکن ان سے کئی شاخیں نکلتی ہیں اور مختلف رنگوں کی آمیزش ہوتی چلی جاتی ہے ، اسی طرح شاعرانہ خیالات کے مالک بھی انسانی جذبوں کو سمیٹ کر ہر بار ان سے ایک نئی غزل یا نظم تخلیق کر لیتے ہیں ، کبھی کوئی نقش ابھرتا ہے تو کبھی کوئی خاکہ کھنچتا ہے، کبھی کسی رنگ کی پھوار برستی ہے تو کبھی کبھی کاغذ کورا بھی رہ جاتا ہے:
یاہو کی ایک ونڈو میں ۔۔۔اس کا مکھڑا دیکھوں میں
مانیٹر کے پردے پر ۔۔۔ایک ہی چہرہ دیکھوں میں
اس کی یاد آئے جب بھی ۔۔۔مونا لیزا دیکھو ں میں
تو ہی بتا ترا ایسا روپ ۔۔۔دیکھوں یا نا دیکھوں میں
یہ کلام کتابی صورت میں آپ کی ’نظروں ‘ کے سامنے ہے میں نے جان بوجھ کر’ ہاتھوں ‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا کیونکہ موجودہ دور میں کمپیوٹر نے انسان کا یہ حق بھی لے لیا ہے ، کتاب کے ساتھ ٹوٹتے ہوئے بندھن کے بارے میں گوناگوں اظہار خیال کیئے جا رہے ہیں کہ شاید یہ ایک قصہ پارینہ بن جائے مگر میں جب بھی باہر نکلتی ہوں کسی نہ کسی انگریز کے ہاتھ میں کتاب یا اخبار دیکھ کر ایک پرسکون سی ٹھنڈی سانس بھرنے لگتی ہوں :
وہ اپنا پرس جھلاتی چلی گئی دفتر
مجھی کو چھوڑ گئی گھر سنبھالنے کے لئے
٭
انسان کی تصوراتی و خیالاتی دنیا کے طلسم پر کمپیوٹر کتنا قبضہ جمائے گا اس کا تو مجھے علم نہیں لیکن اتنا ضرور جانتی ہوں کہ یہ خالق کا درجہ نہیں لے سکتا ’’ اپنی برہنہ پائی پر‘‘ میرے ہاتھوں میں آنے کے بجائے نظروں میں کمپیوٹر کی کھڑکی کھول کر نمودار ہوئی، اس مجموعے کا تقاضہ عرصہ دراز سے ہورہا تھا ،کھڑکی کھلتے ہی :
زخم مہکا اور نم تمکیں ہوا چلنے لگی
شعر کہنے کے سبب سارے فراہم ہوگئے
٭
بہت سے نام ہیں اس ٹہرے ٹہرے پانی پر
سیاہیوں سے لکھے ہیں نصیب لگتے ہیں
یہ وہ زبان ہے کہ جسے سمجھنے کے لئے کسی زبان کا مرہونِ منت نہیں ہونا پڑتا،جہاں نظر ٹکٹکی باندھ لے تو خود بخود رنگسازی ہونے لگتی ہے، کتنی دھوپ کھلتی ہے کتنی برکھا برستی ہے،ہوا کیا گنگناتی ہے اور سرگم کیسے رقص کناں ہوجاتی ہے،ندی کا دھارا کیا کہتا ہے ، دوپہریں کیسے بولنے لگتی ہیں ، خاموشیاں کہاں دوڑ جاتی ہیں ان کی تشریحات اشعار کے ذریعے ملاحظہ فرمائیے :
وہ چہرہ نظر آتے ہی کُھل جاتی ہیں آنکھیں
اب خواب بہت خواب رُبا ہونے لگے ہیں
٭
ڈوبنے آئے تھے مگر یہ ندی
بہتے رہنا سکھا رہی ہے ہمیں
پہلے جو لوریاں سناتی تھی
یاد اس کی جگا رہی ہے ہمیں
٭
ٹکرائے مجھ سے اَبر تو پانی برس گیا
جیسے کہ ساری دھرتی پہ کہسار میں ہی تھا
اعجاز عبید شبنمی خوابوں اور گلاب کی پنکھڑیوں کے آمیزے سے اپنی یادوں پر کسک کا چھڑکاؤ کرتے ہوئے ان سوچوں کے دیس میں لے جاتے ہیں جو ہلکی سی رو میں اگر آپ کو دھیرے سے چھولیں تو دل میں ارتعاش پیدا ہوجاتا ہے، کیفیات و محسوسات کا کرب، مسکراہٹوں اور آنسوؤں کا امتزاج،رنگوں کی لہریں ،تلخ و شیریں یادوں کی شدتیں ، غزلوں کا روپ دھارے سامنے آکھڑی ہوئی ہیں :
بس ایک رنگ شفق ذہن میں ہے نام نہ نقش
وہ کون شخص ہے جو یاد آرہا ہے بہت
٭
عجیب لمس کسی ہاتھ کی کمان میں تھا
میں تیر بن کے اسی لمحے آسمان میں تھا
٭
شام آئے تو گدگدائے اسے
چپ سی بیٹھی ہے دوپہر کوئی
خوف کے سائرن خموش ہوئے
اب نہیں شہر میں خطر کوئی
٭
یہ گھنٹیوں کی صدائیں کہاں سے آتی ہیں
مرے بدن کو بجاتا نظر تو آئے کوئی
احساسِ تنہائی جب دل کی دھڑکنوں کو چھلنی کر دے تو روح کے نغمے اپنے سُر کھو کر ادھورے رہ جاتے ہیں ،زخموں پر جمی ہوئی کھرنڈ اکدم سے اکھڑ جاتی ہے،خوابوں کی مشعل جلانا، یادوں کی چلمنیں ہٹا کر جھانکنا، الفاظ کے ساتھ آنکھ مچولی کھیلنا اور چہروں کی بستیاں بسانا یہ سب آپ کو غیرمحسوس طریقے سے ان کی زندگی میں لے جاتا ہے،ان کے شعری متن اور استعارے منفرد لطافت کے ہمراہ ریاضی کے اصول بھی برت رہے ہیں ، جہاں ارتقائی مدارج طے کیئے ہیں وہیں شہرِ دل کے نامکمل ادھورے خواب حسرت و یاس کے عالم میں بیتے وقت کے لیئے پکار بھی ہے ،اعجاز عبید نے شعری سرمائے پر دسترس رکھتے ہوئے فیض احمد فیض کو بھی اپنے انداز میں خوب برتا ہے :
ہیں ایک خطِ متوازی یہ تیری یاد اور دل
کبھی قریب جو آئے تو دور جائے بھی
’’وہ با ت سارے فسانے میں جس کا ذکر نہ تھا‘‘
وہ بات شعر کے پردے میں چھپ کے آئے بھی
اس مجموعے میں ہندی آمیز تراکیب ان کی ذہنی کارکردگی کا اظہار کرتی ہیں ، اس بات کو مدِ نظر رکھنا ضروری ہے کہ ہندوستان میں جو اردوبولی جاتی ہے اس پر ہندی رسم الخط کے ذریعے قابض ہونے کی بھرپور کوششیں ہورہی ہیں ، اس صورتحال پر اردو لکھنے والے اپنے اندر کے ارتعاش پر بے کیفی و مایوسی کی فضا کا شکار ہیں ، موجودہ حقائق سے روگردانی کرنا شاعر کے لئے ناممکن ہے، اپنے احساس کا احتجاج اس طریقے سے پیش کیا ہے کہ روایت بھی پامال نہیں ہوئی اور شعرکی دلکشی بھی برقرار رکھی ہے،تضادات و نشیب و فراز سے مربوط کرتے ہوئے چند اشعار ملاحظہ کیجئے:
کیسی کیسی قد آدم مشعلیں جلتی رہیں
کیسی دیوالی تھی کل سارا نگر روشن رہا
٭
کس کو وقت مزار پہ فاتحہ پڑھنے کا
دل کے قبرستان میں عود جلائے کون
٭
اب تو ہندی میں کام کیجئے عبید
شاید اردو میں ہو زیاں اپنا
٭
بیکار ہی رہا مرا پیڑوں تلے قیام
عرفان کے لئے میں ’گیا‘ تک چلا گیا
اعجاز عبید صاحب کا فنکارانہ ہنر اشعار میں بخوبی رواں دواں ہے اور ان کے متصوفانہ رحجان کا بھی قائل کرتا ہے ، گو کہ اس مجموعے میں حمد و نعت علیحدہ سے شامل نہیں کی گئی لیکن کئی اشعار میں شمع ہدایت جل رہی ہے ساتھ ہی ان کی بے چینی اور فکر نہایت سلیقے سے مذہبی لگاؤ سے وابستگی کا اظہار کررہی ہے:
سنگم سے لے کے غارِ حرا تک چلاگیا
میں جادۂ وفا سے فنا تک چلا گیا
٭
تڑخی ہوئی زمیں تھی جہاں آج جھیل ہے
یوں بھی رحیم ہوتی ہے فطرت کبھی کبھی
ہے یزید کون کون ہے حسین ہے فرات کہاں
کچھ پتہ نہیں محشر خیال کربلا تو ہے
٭
کتابوں میں لکھا تھا ایسے ہی یگوں میں آئیں گے
وہ جو نبی تھے آنے والے کس طرف چلے گئے
٭
کیا خبر کوئی معجزہ ہوجائے
آج میں ننگے سر دعا مانگوں
٭
پاک و ہند کی بیشمار کہاوتیں وضرب الامثال مختلف علاقوں اور خطوں سے منسوب ہیں ، نسل در نسل بڑے بوڑھوں کی زبانی یہ منتقل ہوتی رہیں اور ہم ان پر اعتبار کرتے رہے ہیں بعض اوقات یہ فقط واہموں پر مشتمل ہیں توبعض تجربوں کی بنیاد پر مشہور ہیں ، زبان کے حوالے سے اعجاز عبید صاحب نے محاوروں کو بخوبی اپنی اشعار میں ڈھالا ہے جس سے پڑھنے والا ان کے اظہار کی قدرت اور شعری لطافت سے محظوظ ہوتا ہے، محاوروں کے استعمال میں مصرعوں کی برجستگی اور سلاست قارئین کو اپنی جانب فورا متوجہ کرتی ہے:
وہ چار دن کی چاندنی تھی یہ اندھیری رات ہے
وہ جگنو جگمگانے والے کس طرف چلے گئے
٭
ابھی ابھی تو آخری چوڑی ٹوٹی تھی
کالی بلی کلمو ہی رستہ کاٹ گئی
٭
میں خود ہی پھانس چبھو بیٹھا دل میں ، جاتا تھا
کسی کے پاؤں سے کانٹا نکالنے کے لئے
٭
اگر سفید کبوتر مرا لہو پی لے
مجھے یقیں ہے شہادت کا درجہ پاؤں گا
اعجاز عبید ایک سچے اور کھرے شاعر کے پیمانے پر پورے اترتے ہیں ان کے نزدیک قول وفعل کی پاسداری کے لیئے دم توڑدینا زبان کھولنے پر فوقیت رکھتا ہے کسی سے کیئے ہوئے وعدے کو نبھانا بھی ایک عزت و مرتبہ ہے ، حالانکہ ایسی صورتحال میں تو مرزا غالب بھی تنگ آکر یوں سخن طراز ہوئے تھے کہ؛
شہر اسباب گرفتاری خاطر مت پوچھ
اس قدر تنگ ہوا دل کہ میں زنداں سمجھا
رومن فلسفی کا ایک قول پیش ہے کہ۔۔۔
"Never esteem anything as of advantage to you that will make you break your word or lose your self-respect."
Marcus Aurelius, Roman emperor and Stoic philosopher (121-180 A.D.)
موجودہ عہد کے دشت وفا میں آبلہ پائی کتابی حد تک ہی رہ گئی ہے ،وفاداری کے قدر شناس لوگوں کا فقدان ہے ایسے میں یہ اشعاردَرِ دل کے پاکیزہ اور مقدس جذبوں کے قریب لے جاکر عشق کی سچائی اور وفا نبھانے والی سرشت کی وہ ترغیب دیتے ہیں کہ جس کا احترام لازمی ہے:
وہ شخص تو میرا ہمزاد تھا مری جاں تھا
جو اس نے راز دیا تھا وہ فاش کیا کرتا
گدا سمجھ کے امیرانِ شہر دے گئے بھیک
میں تیرے دَر پہ پڑا تھا فراش ، کیا کرتا
٭
اس کا کوئی نام نہ لے
اپنا چرچا ہر سو ہے
اس کو نہ دیکھیں ، دیکھیں آج
دل پر کتنا قابو ہے
٭
جز ایک لفظ وفا کچھ نہ لکھنا چاہوں میں
مرے قلم میں خدا اتنی روشنائی دے
ان کے قلم میں یقینا وہ روشنائی ہے کہ جس سے نت نئے الفاظ کی کرنیں سدا پھوٹتی رہیں گی ،اپنے خیالات و احساسات کو تصور سے نکال کر تصویر کی صورت لفظ کردینا، زخم کی گہرائی، دکھ کی شدت کو ایک ایک سطر میں پرونا، سوچ کے جنگل میں قیس کی طرح بھٹکنا اور مانند مجنوں اپنے عشق میں اس قدر محو ہوجانا کہ اسے اپنا مذہب تسلیم کرلیا جائے اس دور میں افسانوی داستان لگتا ہے مگر اعجاز عبید کہتے ہیں کہ یہ عشق وہ کنجی ہے جس سے ہر دل کے سارے دروازے کھولے جاسکتے ہیں اسی لئے کچھ یوں مخاطب ہیں کہ:
کریں تبلیغ دینِ عشق گھر گھر
عبید اب تو پیمبر ہوگئے ہیں
٭
میں نبی ہوں مذہبِ عشق کا
ترے حق میں صرف دعا کروں
٭
اے قیس اخی! بتا کہ ستاتا ہے یوں ہی عشق؟
ہم نے تو دل میں روگ یہ پالا نہ تھا کبھی
یاروں نے لکھ کے ناولیں رکھ دیں دکان میں
ہم نے تو اس کا نام بھی لکھا نہ تھا کبھی
٭
اب ودیعت ہوا ورثہ مجھے قیس ابن ابی عامر کا
مرض عشق مری جان کا آزار کہاں تھا پہلے
٭
ہم تو ہیں گو قیس ابی عامر نہیں لیلیٰ نہیں
گاہے گاہے باز خواں یہ قصہ پارینہ نہیں
آئینوں سے عکس کھرچ کرحاصل کچھ نہیں ہوتامگر پھر بھی ہم تصاویر سے دل بہلانے کی کوششیں کرتے ہیں ان کے ذریعے زندگی کے مختلف لمحوں کو جو بدلتے ساتھیوں کی مانند آتے جاتے ہیں رفاقت کے چراغوں کی طرح روشن رکھنا چاہتے ہیں جبکہ یہ عمل مزید آرزوؤں کے ہجوم میں دھکیل دیتا ہے،نظامِ زیست ایسا ہے کہ سوائے یاد کے، کبھی کوئی پل لوٹ کر نہیں آتا، سرد، خنک موسم میں یادیں دھوپ کے چمکتے سکوں کی مانند کھنکھناتی ہیں ، زندگی کے آگے لاچاری اور پسپائی کی داستان سے کڑھتی ہیں ، خواب جب کانچ کی طرح چھن سے گر کر ٹوٹ جائیں تو بظاہر خوش مزاج و خوش گفتار شخصیات کے اندر بھی دراڑیں ڈال دیتے ہیں ، کبھی کبھی جی چاہتا ہے اس کھلیان میں آگ لگادی جائے ، لکھنے والوں نے ان کیفیات کی تجارت شروع کردی لیکن اعجاز عبید ان ہمعصروں کی مانند سمندروں سے موتی چن چن کر دکانداری کے قائل نہیں :
ہم موتیوں کے ڈھیر لٹائیں یہاں وہاں
لوگوں نے شاعری کی تجارت بھی کی بہت
٭
بند کردو کہ یہ تصویریں بکھر جائیں گی
اس دریچے سے بہت تیز ہوا آئی ہے
٭
بجھتے بجھتے سبھی اک لمحے میں تھم جائیں گے ساز
پھر یگوں کچھ بھی کسی کو نہ سنائی دے گا
٭
پیڑوں پر جو نام لکھے تھے وہ تو اب بھی باقی ہیں
لیکن جتنے بھی تالاب میں پتھر پھینکے ڈوب گئے
٭
یہ سرخ جنگلی پودے کنارِ آب عبیدؔ
کسی کے چہرے کی ان میں بڑی شباہت ہے
٭
کھلیانوں میں رکھ دو یادیں
ہوا یہ فصل جلا دیتی ہے
٭
خشک آنکھیں ہوں تو مقابلتاً
کوئی گنگا چناب بھی دیکھوں
خواہشیں ختم ہو چکیں ساری
نیند آئے تو خواب بھی دیکھوں
٭
کبھی دل بھی نہیں اک زخم آنکھوں کی جگہ آنسو
کبھی میں بھی نہ تھا بس ڈائری میں شعر لکھا تھا
مختلف اوقات میں اپنے گوناگوں افکار کو انہوں نے بحسن و خوبی مجتمع کیا ہے،جس سے پس منظر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے،زندگی ایک راہِ خاردار ہے جہاں پھونک پھونک کر قدم اٹھانے کے باوجود ببول کے کانٹے پاؤں میں گڑ جاتے ہیں ، اس حقیقت سے آگاہ کرنے کے ساتھ ساتھ پیغام دینے میں بھی اعجاز عبید صاحب نے کوتاہی نہیں کی، ان ناانصافیوں کی بابت چیخ کی حد تک تو کوئی آواز سنائی نہیں دیتی البتہ نرم رو ی و صلح جوئی کا رویہ ضرور نظر آیاہے، ایک ایک موتی چن کر نازک سی لڑی میں پرونا ہر دور میں دلچسپی کا باعث رہا ہوگا مگر اس کو سماجی رویوں کے ہمراہ جوڑنے کا تجربہ بھی خوب ہے:
رات میں کرنوں کی جنگ، دشت میں اک جلترنگ، دیدۂ حیراں کا رنگ
حلقۂ زنجیر تنگ کیسے شعاع نظر اپنی رہا کیجئے
شب کے مسافر عبید ، ایک ہیں شاعر عبید، قانع و صابر عبید
ان کو نہ کچھ دیجئے، ان سے نہ کچھ لیجئے، شعر پڑھا کیجئے
٭
آئینہ ہی بدلا بدلا لگتا ہے
اپنے پر جھوٹا الزام لگائے کون
اعجاز عبید صاحب کی شاعری کے بارے میں میرا ایک ذاتی تاثر کہتا ہے کہ ان یادوں اور خوابوں کی شکستگی کا باعث ایک اور کردار بھی ہے جس کے احساسات کی عدم موجودگی متجسس کرتی ہے، مزید جاننے کی کیفیت میں مبتلا کرتی ہے تاکہ یکطرفہ ہجر کا تسلط ختم ہو،بنجر اور سپاٹ زمین پر پھول اگنے لگیں ،انہوں نے اپنے خیالات کے جن رفیقوں کو اپنا موضوع بنایا ہے ان کے ساتھ پہچان بنانا بھی ضروری ہے:
کون مجرم ہے کہ دوری ہے وہی پہلی سی
پاس آ کر چلے جانے کی ادا کس کی تھی
شام آتے ہی اتر آئے مرے گاؤں میں رنگ
جس کے یہ رنگ تھے جانے وہ قبا کس کی تھی
چاندنی رات گھنے نیم تلے کوئی نہ تھا
پھر فضاؤں میں وہ خوشبوئے حنا کس کی تھی
٭
بِتا دئے کئی دن جس کے ساتھ اب اس سے
عجیب لگتا ہے کہنا ’ مجھے محبت ہے‘
٭
اب اسی کی آنکھ میں آنسو کہاں چمکتے ہیں
یہ سارا ڈھونگ پرانا ہے میں نہ کہتا تھا
٭
یہ زندگی انسان کو مہلت کب دیتی ہے کئی سنہرے سال اس کے شکنجے میں گزرجاتے ہیں اور جب رہائی ملتی ہے تو وقت اور آئینہ دونوں منہ چڑانے لگتے ہیں ، ایک ہی گھر میں رہ کے بھی دو وجود اجنبیوں سا رویہ اختیار کر لیتے ہیں ، ان رشتوں میں کبھی کبھار سماجی رویوں کی کاٹ بھی نظر آتی ہے ، یہ رویہ شکوے کیوں پیدا کرتا ہے اس کے لئے زندگی کی پیچیدگیوں اور نفسیات کی گہرائیوں پر بھی غور کرنا پڑے گا،موجودہ دور میں معلومات کے خزانے سے بھرپور ہونے کے باوجود یہاں نجانے کیوں رابطوں کا قحط پڑا ہوا ہے!
کیسی مجبوریاں نصیب میں تھیں
زندگی کی کہ اک عذاب کیا
٭
اب تو جیسے اس عمارت کو بھی چپ سی لگ گئی
کھڑکیو ، دروازو ، چہکو ، گا ؤ ، کچھ باتیں کرو
٭
اب اس کی آنکھ میں آنسو کہاں چمکتے ہیں
یہ سارا ڈھونگ پرانا ہے میں نہ کہتا تھا
٭
وہ مجسم بھی جو آ جائے تو دیکھوں نہ اسے
میری اس بت کی عبادت کبھی ایسی تو نہ تھی
٭
کبھی دِ کھا تو نہ تھا مجھ کو اس کنارے پر
مجھے یہ کون ملا ساتھ پار اُترتے ہوئے
٭
کل چھم سے اچانک مرے آنگن میں وہ آیا
اور شومئی تقدیر کہ میں گھر پہ نہیں تھا
٭
کبھی افق کے پرے جاؤں دیکھوں شب کا سنگھار
کبھی تو دیکھ سکوں چاند کو سنورتے ہوئے
٭
لہو سے یوں لکھوگے شعر کب تک
اٹھو دفتر کے دفتر ہوگئے ہیں
سپنوں سے مہکتی ہوائیں اعجاز عبیدکے حسن بیاں سے لبریز ہیں ، یاد کی بوندیوں میں چمک ہے،ایک سے ایک اچھا شعر، ایک سے ایک بہترین غزل وسعت علم کی مظہر ہے، شفق کے منظروں میں کھلنا، ہری ہری پتیوں کی تازگی کا مہکنا ان کی شاعری سے چھلکتا ہے:
شفق لو پھوٹتی ہے جس جگہ سے
وہیں جاتے ہیں رستے آسمانی
بڑی نفاست سے جمالیاتی اقدار کی جھلک دکھاتے ہوئے انہوں نے قارئین کی سوچ زندگی کے ٹھوس پہلوؤں کی جانب موڑ دی ہے، رومی فرماگئے ہیں کہ ’’قطرہ بن کر سمندر کا حصہ بن جاؤ٬‘‘ بقول ان کے میں نے سب کچھ کھودیا جو میرے پاس تھا مگر اس عمل میں اپنے آپ کو پایا اور جب خود کو پایا تو خدا کو پایا، جب خدا کو پایا تو پھر مجھے کچھ پانے کی آرزو نہ رہی، اسی عمل کے تحت انسان کو صبر و قناعت اور راضی بہ رضا رہنے کا درس ملتا ہے ، اسی گہرائی میں اعجاز عبید صاحب کانظام حیات کا تجزیہ و مشاہدہ بھی سامنے آیا ہے جس سے ان کی بالغ نظری کا اظہار ہوتا ہے:
مرے رب تو اس کے آنچل میں خوشی کے رنگ بھردے
مجھے جس نے غم دئے ہیں مرے ظرف سے سوا ہی
٭
خدا بھی خوش ہے بہت آسماں پہ بیٹھا ہوا
یہاں مجھے بھی کسی سے نہ کچھ شکایت ہے
فصلوں کا انحصار بارش پر ہوتا ہے ، دانۂ گندم جس کے لئے حضرت آدم نے بہشت سے نکلنا گوارا کیا تھاہمارے مسائل کا مرکز ہے، ہمارے معاشرے میں بھوک بیماری، جدال و قتال، غرض معاشرے کے کئی پہلو نانِ جویں کے گرد گھومتے ہیں ، بھری بھری زمین، کھلیان میں سونے کی طرح دمکتا گندم،ساتھ ہی اپنے مخاطب کو ٹھنڈے میٹھے پانیوں کی طرح سیراب کرنے والا ذائقہ چکھوادینا ،قناعت پسندی کی جانب راغب کرتا ہے، اعجاز عبید کے اشعار کبھی دھوپ میں جلاتے ہیں تو کبھی دیوانگی کے عالم میں روشنی کے لئے سرگرداں کرتے ہیں :
یہی بہت ہے شکم پُر ہے اور تن پہ لباس
ترے بغیر میں کچھ تام جھام کیا کرتا
٭
آج پھر قید ہوگئے بادل
دھوپ میں پھر بدن جلانا ہے
٭
جو جاچکے ہیں غالباً اُتریں کبھی زینہ ترا
اے کہکشاں ، اے کہکشاں ، روشن رہے رستہ ترا
اے زندگی اے زندگی کچھ روشنی کچھ روشنی
چلّا رہا تھا شہر میں مدت سے دیوانہ ترا
فکری رموز سے باخبر ہونا اور فن کے سانچے سے گزرنا سہل نہیں ہوتا،کائنات کے خالق کا ذکر،اس مالک سے ایک خاص نسبت، اللہ توکل والے مقولے پر عمل پیرا ہونا ،جہاں انسان بے بس ہے وہاں اُس کی اہمیت کو محسوس کروادینا یقیناً ان کے بلندیٔ فن پر ہونے کا اشارہ کرتا ہے، ’راہبات‘ جیسے قافیۓ کے ساتھ ہجر کو بھی منسلک کرتے ہوئے اعجاز عبید نے کلاسیکی انداز میں بھرپور تاثر پیش کیا ہے:
رات بھر شمع لے کے ہاتھوں میں
ایسے پھرتی ہیں راہبات کہاں
اب کسی راہ میں چراغ نہیں
اب مرے ہاتھ اس کے ہاتھ کہاں
٭
اب اور رنگ نہیں خوں میں تر سحر کے بعد
لو آج ٹوٹ گیا بازِ شب کا شہہ پر بھی
جدیدیت اور کلاسک دونوں سے واقفیت اور ان دونوں کو برتنا آسان نہیں ، اعجاز عبید کے کلام میں ناصر کاظمی، فیض احمد فیض، احمد فراز، بشیر بدر اور ایک آدھ جگہ ابن انشاء جیسے شعراء کا تاثر ہونے کے باوجود اپنے منفرد انداز کا بڑا ہی مضبوط پہلو ہے، پہلے اشعار سے قطع نظر مندرجہ بالا خالص رنگ تغزل شاعر کے علمی و جمالیاتی ذوق کو بخوبی نمایاں کررہا ہے، جس طرح حسن کی آرائش و تزئین کے لیئے ہار سنگھار کا اہتمام کیا جاتا ہے اُسی طرح شعر کہنے کے لئے جن لوازمات کی ضرورت ہوتی ہے وہ میسر نہ ہوں تو اس کی جمالیاتی دلکشی میں فرق آجاتا ہے لیکن ان کے یہاں ایسا نہیں ہے:
یہ خیال آتا ہے میں خوش تھا بہت
کس طرف تھا مرا گھر یاد نہیں
٭
دن میں سایہ کن رہیں بوڑھی دعائیں ، رات کو
ایک چھوٹا سا دیا پیشا نی پر روشن رہا
٭
میں فرشِ خاک پہ لیٹوں تو سوتا رہتا ہوں
ہزار خواب اترتے ہیں چارپائی پر
٭
احساس پھر شدید ہوا بے زمینی کا
میں اپنی ماں کی گود کے اندر بھی تھا کبھی
٭
کوئی تو ہو جو مجھے شاخ سے جدا کردے
ہوا کے ہاتھ کا چاقو مگر کھلا بھی نہیں
وہ گھر جہاں انسان کی بالیدگی ہو جہاں ممتا کی شہد آگیں دعائیں ماتھے پہ بوسہ دیتی ہوں ، جہاں اندھیری راتوں میں بھی دیئے جل جاتے ہوں کبھی نہیں بھولتا، ہر انسان کے اندر ایک ننھا بچہ کسی کونے میں چھپ بیٹھا ہے اور موقع ملتے ہی تانک جھانک شروع کردیتا ہے، کبھی یہ احساس خوشگواری دیتا ہے تو کبھی بیقراری، کبھی کبھی جب اندر کا یہ گھر آباد ہوتا ہے تو باہر کا گھر اکدم اجڑا اجڑا لگتا ہے، اعجاز عبید صاحب نے اشعار میں جس اسلوب سے کام لیا ہے وہ انہی کا تخلیقی رنگ ہے ’’ جسم سے اگر روح پرواز کرجائے تو جسم بیکار ہوجاتا ہے‘‘ اعجاز عبید کے الفاظ کی اس سپاہ میں جب تک ولولہ اور جوش رہے گا تب تک یہ نہتی رہ کر بھی فتح کے جھنڈے گاڑتی رہے گی:
یہ پیڑ جیسے میری فوج کے سپاہی ہیں
یہ سبز سبز سمندر مری حکومت ہے
٭
کیا مصیبت ہے خود اپنے غم کا اندازہ نہیں
صبح مشرق میں کہاں لڑتی ہے کرنوں کی سپاہ
٭
لو نہتی ہوئی سپاہ تمام
ایک تنہا سوار تھا کیا تھا
٭
میں نہتا ، بے سپر ، اسلحہ مرا صرف جلنے کی آرزو
میں چراغِ شب ہوں عجیب شے کہ غنیم شب سے لڑا کروں
افلاطون کا نظریہ یہ ہے کہ محبت کا تعلق ہمیشہ خوبصورتی سے ہوتا ہے ، روح خوبصورت چیزوں کو دیکھ اور پرکھ کر آگے بڑھتے ہوئے اس تصور کی جانب متوجہ ہوتی ہے یعنی حواس خمسہ کے جہاں میں جب وہ کسی خوبصورت چیز کو دیکھتی ہے تو اسے ایک تصور کی یاد آتی ہے جو خیالات کی دنیا میں تھا یہیں سے روح کے اندر عقلی استدلال کا عمل شروع ہوتا ہے یہیں سے محبت کا جذبہ انسان کے اندر کی صفت کو بیدار کرتا ہے جو محبت سے متصف ہے، اعجاز عبید صاحب نے اپنے اسی آفاقی تصور کو اشعار کے ذریعے مخاطب کیا ہے کہ :
اک پیاری سی لڑکی بھری آنکھوں سے اس کو تکتی تھی
سر کو جھکائے اک لڑکا کیا کیا کچھ باتیں کرتا تھا
٭
یہ کس نے کون رنگ میری آنکھ میں بسادیا
گلی گلی بکھیرے گل دیا دیا جلادیا
وہ شخص خوب تھا کہ بلب مختلف جلادئے
ہمارے چہرے کو ہزاروں شکلوں میں دکھا دیا
٭
برستے پانی میں خوشبو سی میں نے کی محسوس
مجھے یقیں ہے کہ وہ بھی انہیں گھٹاؤں میں تھی
٭
ہوا چلی تو بہت دور تک بکھیر گئی
وہ بوئے راز تھی اک پھول میں نہاں اب تک
٭
میں نے کچھ سوچا نہ تھا یوں ہی جل اٹھا تھا عبید
دیو داسی کوئی مندر میں سجاتی ہے مجھے
٭
بہت عجیب سے جذبے تھے میرے چہرے پر
وہ مجھ کو دیکھ کے ششدر دکھائی دینے لگا
٭
کھل جائیں چند لمحوں میں ہم پھول کی طرح
ہم کو کوئی ہوا کی صدا میں پکار دے
٭
بارش نہیں تھی قوس و قزح کیسے بن گئی
یا اُڑ گیا دوپٹہ کسی کا ہواؤں میں
٭
صدیوں پہلے دو سورج بیٹھے تھے جہاں
آج بھی وہ دریا کا کنارہ روشن ہے
٭
ہتھیلیوں پہ رکھی شمعیں ساری رات جلیں
پھر اس کے بعد کبھی ہم سحر نہ دیکھ سکے
دنیائے ادب میں محترم اعجاز عبید کے پہلے مجموعے کی خیال افروزی نت نئے ستاروں کی مانند جھلمل کر رہی ہے اور مجھے یقین ہے کہ یہ دنیا ان کے فن سے پینگیں بڑھائے گی فن کی دنیا میں کسی پڑاؤ کومنزل سمجھ کر رک جانا فن کی موت ہوتا ہے اعجاز عبید صاحب کی پر اعتماد شخصیت یقیناً نت نئی منزلیں سَر کررہی ہے، اعجاز عبید صاحب سے میرا تعارف اردو محفل کے ذریعے ہوا جہاں میں نے ان کی تصویر میں ایک مشفق و محترم استاد کے رنگ دیکھے ،شعر و سخن سے وابستہ شخصیات میں سے اکثر کو میں نے خودی کے زعم میں مبتلا دیکھا ہے لیکن اعجاز عبید صاحب کو ان کے برعکس پایا، ظاہر و باطن میں ان کی شخصیت صداقت کا پرتو ہے ہر ایک کے ساتھ پرخلوص و ہمدرد رویہ محبت بھرے سماجی تعلقات کا مظہر ہے،یہ تصویر اس تصویر سے بہت مختلف ہے جو اشعار نے گھول کر بنائی ہے، میں نے ان کو اشعار میں ایک بیحد منفرد و مختلف انسان دریافت کیا ہے،جس طرح یہ اشعار ’’شاعر‘‘ اعجاز عبید کے رنگ میرے سامنے گھولتے گئے اُسی طرح مجھے امید ہے آپ بھی ان رنگوں کی پھوارکا لطف اٹھائیں گے مضمون کی طوالت کی بنا پرمیں ان کی نظموں کا حوالہ نہیں دے سکی ہوں لیکن پھر بھی ایک طویل نظم بعنوان ’’صاد‘‘ مجھے اپنے شکنجے میں جکڑے جارہی ہے، ایک ایک بند مختلف اور منفرد ہونے کے باوجود اپنا تسلسل برقرار رکھتا ہے اور مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ یہ نظم اعجاز عبید کا بہترین شہہ پارہ ہے جسے پڑھ کر دیر تک آپ کی روح سرشار رہے گی،ان کے کلام میں تحریک ہے ،معاشرے کی منفی اقدار پر ضربات ہیں ،شائستگی، پاکیزگی، صداقت، محبت، جذبات، روایات، معیارات، موضوعات، تخیلات ، مشاہدات، معاشرت، مذہب، آفاقی سطح پر موجود ہے جو کہ ایک جینوئین شاعر کے فنی اوزار کی حیثیت رکھتے ہیں جن سے فن کی شناخت ہوتی ہے مجھے امید ہے کہ اعجاز عبید اپنے نئے اسلوب کو برقراررکھیں گے اور یہ اجلے اجلے الفاظ شعر و ادب کی دنیا میں سدا زَرتاب رہیں گے۔
٭فرزانہ خان نیناں ۔انگلینڈ