الف نظامی
لائبریرین
ڈاکٹر عطش درانی نے اپنے لیکچر میں کچھ دلچسپ اعداد و شمار بھی پیش کیے ۔ مثلاً انہوں نے بتایا کہ علوم کی مجموعی تعداد 250 ہے جن کا مکمل احاطہ ایک کروڑ ستر لاکھ بنیادی تصورات سے ہو جاتا ہے مگر اب تک کسی بھی زبان میں بنیادی الفاظ کی تعداد 60,000 تک ہی دیکھی گئی ہے ۔ ادبی اظہار بیان کیلیے 15,000 سے 20,000 الفاظ استعمال ہوتے ہیں ۔ خود شکسپیر نے جو دنیا میں انگریزی کا سب سے بڑا شاعر اور ادیب تسلیم کیا جاتا ہے ، اپنی تخلیقات میں 22,000 بنیادی الفاظ استعمال کئے ہیں۔
صحافتی اظہارِ بیان کی دنیا اور بھی مختصر ہے جس کا گذارہ دس ہزار الفاظ سے ہو جاتا ہے۔ روزمرہ تبادلہ خیال کے لئے اوسطاً 1500 الفاظ ہی کافی رہتے ہیں ۔ اردو زبان میں بنیادی الفاظ کی مجموعی تعداد صرف 32,000 ہے۔
سائنسی و تکنیکی ذخیرہ الفاظ پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انگریزی میں بنیادی تکنیکی اصطلاحات کی کل تعداد صرف تین لاکھ ہے ۔ البتہ ان کے مشتقات اور ماخوذات کو ملا کر یہ تعداد پانچ لاکھ ساٹھ ہزار اصطلاحات تک جا پہنچتی ہے۔ اگر ان میں سابقے ، لاحقے ، مخففات اور سرنامئے بھی شامل کر لئے جائیں( جن کی اپنی تعداد 110,000 ہے ) تو یہ مجموعہ 670,000 تک جا پہنچے گا۔ علاوہ ازیں ان میں ہر سال تقریباً 2,000 نئی اصطلاحات (یا تکنیکی ذخیرہ الفاظ) کا اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
اردو اصطلاحات کے بارے میں ڈاکٹر عطش درانی نے صرف اتنا بتایا کہ اردو زبان میں اصطلاحات کی تعداد صرف دو لاکھ ہے ۔ لیکن شاید اپنی سرکاری مجبوری کی وجہ سے وہ یہ نہیں کہہ پائے کہ اردو زبان میں اصطلاح سازی کے اس کام کا بہت بڑا حصہ قیامِ پاکستان سے پہلے ہوا تھا جبکہ پاکستان بننے کے بعد جدید اصطلاحات کے تراجم اردو زبان میں اصطلاح سازی اور ان اصطلاحات کی قومی سطح پر معیار بندی کے ضمن میں جو کام ہوا ہے وہ من حیث القوم شرمناک ہے۔
اس تسلسل میں ہم ایک اور بات یہ بھی کہیں گے کہ معیاری ترجمے کے لئے مقتدرہ قومی زبان کی "قومی انگریزی اردو لغت" بلاشبہ ایک قابل قدر کام ہے۔ لیکن اس کا واحد ایڈیشن ( جو 1993 میں پہلی بار شائع ہوا تھا آج تک بغیر کسی ردوبدل کے بار بار "ری پرنٹ" ہو رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی انگریزی اردو لغت کے کام کو ہر پانچ سال بعد نظر ثانی اور اضافی شدہ "ایڈیشن" شائع کرتے ہوئے ، مستقل بنیادوں پر جاری رکھا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماہنامہ گلوبل سائنس سے لیا گیا۔۔۔۔۔۔۔
صحافتی اظہارِ بیان کی دنیا اور بھی مختصر ہے جس کا گذارہ دس ہزار الفاظ سے ہو جاتا ہے۔ روزمرہ تبادلہ خیال کے لئے اوسطاً 1500 الفاظ ہی کافی رہتے ہیں ۔ اردو زبان میں بنیادی الفاظ کی مجموعی تعداد صرف 32,000 ہے۔
سائنسی و تکنیکی ذخیرہ الفاظ پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ انگریزی میں بنیادی تکنیکی اصطلاحات کی کل تعداد صرف تین لاکھ ہے ۔ البتہ ان کے مشتقات اور ماخوذات کو ملا کر یہ تعداد پانچ لاکھ ساٹھ ہزار اصطلاحات تک جا پہنچتی ہے۔ اگر ان میں سابقے ، لاحقے ، مخففات اور سرنامئے بھی شامل کر لئے جائیں( جن کی اپنی تعداد 110,000 ہے ) تو یہ مجموعہ 670,000 تک جا پہنچے گا۔ علاوہ ازیں ان میں ہر سال تقریباً 2,000 نئی اصطلاحات (یا تکنیکی ذخیرہ الفاظ) کا اضافہ بھی ہو رہا ہے۔
اردو اصطلاحات کے بارے میں ڈاکٹر عطش درانی نے صرف اتنا بتایا کہ اردو زبان میں اصطلاحات کی تعداد صرف دو لاکھ ہے ۔ لیکن شاید اپنی سرکاری مجبوری کی وجہ سے وہ یہ نہیں کہہ پائے کہ اردو زبان میں اصطلاح سازی کے اس کام کا بہت بڑا حصہ قیامِ پاکستان سے پہلے ہوا تھا جبکہ پاکستان بننے کے بعد جدید اصطلاحات کے تراجم اردو زبان میں اصطلاح سازی اور ان اصطلاحات کی قومی سطح پر معیار بندی کے ضمن میں جو کام ہوا ہے وہ من حیث القوم شرمناک ہے۔
اس تسلسل میں ہم ایک اور بات یہ بھی کہیں گے کہ معیاری ترجمے کے لئے مقتدرہ قومی زبان کی "قومی انگریزی اردو لغت" بلاشبہ ایک قابل قدر کام ہے۔ لیکن اس کا واحد ایڈیشن ( جو 1993 میں پہلی بار شائع ہوا تھا آج تک بغیر کسی ردوبدل کے بار بار "ری پرنٹ" ہو رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ قومی انگریزی اردو لغت کے کام کو ہر پانچ سال بعد نظر ثانی اور اضافی شدہ "ایڈیشن" شائع کرتے ہوئے ، مستقل بنیادوں پر جاری رکھا جائے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ماہنامہ گلوبل سائنس سے لیا گیا۔۔۔۔۔۔۔