کیا خیال ہے اسی بات پر ایک تھریڈ نہ شروع کر لیں کہ میڈیا کیا ہے ۔ اور کیا یہ صرف ایک چھڑی ہی ہے جس پر ناچا جاتا ہے یہ کہ "کبھی کبھی ہی سہی" یہ عوامی جذبات و احساسات کا ترجمان بھی بن جاتا ہے ۔
وہ حکومتیں اور سیاسی جماعت جو کہ دور جدید کے تقاضوں پر استوار ہوتی ہیں، وہ میڈیا کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھتی ہیں، اور اسے بہت اچھی طرح استعمال کرتی ہیں اپنے ایجنڈے اور پیغام کی ترویج کے لیے۔۔۔ اوبامہ کی مثال سامنے ہے، اپنے ایجنڈے (اچھا یا برا کی ترویج کے لیے تمام سیاسی جماعتوں کا بنیادی ہتھیار میڈیا ہوتا ہے۔۔۔۔ اور اس میڈیا پر لیوریج کرنے کے لیے سیاسی پارٹی کے تھنک ٹینک ہوتے ہیں۔ مسلم لیگ نواز گروپ نے اپنی مہم کے دوران میڈیا کا اچھا استعمال کیا۔
لیکن جب پارٹی ہی انگوٹھا چھاپ ہو، اور تھنک ٹینک میں رحمان ملک اور سلمان بواسیر جیسے مسخرے ہوں، تو کیا کہنا۔۔۔ حماقتوں کی حد ہو ہے، کہ حکومت اپنے ہی میڈیا کو استعمال نہیں کر سکی، بلکہ اس کو اپنے خلاف کیا، اور اس کا اپنا وزیر اطلاعات پتلی گلی سے نکل لیا۔۔۔۔۔۔۔ پارٹی کی قیادت کتنی "قابل" ہے اس سے اچھا اندازہ ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ اب انگور کھٹے ہیں۔۔۔۔ دلی دور ہے۔۔۔۔۔ کھمبا نوچنا ہے۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ہم تو چار سو بیس کا وہ ٹولہ ہیں جو کہ اپنے گھر کے میڈیا کو ہی نہ استعمال کرسکا۔۔۔۔۔ بلکہ اپنا وزیر اطلاعت بھی اپنے ہاتھ سے گیا۔۔۔۔
چلو جو ہو سو ہو، اب عوام کو ہم نے یہ تلقین کرنی ہے کہ میڈیا کی چھڑی پر نہ ناچیں۔۔۔۔۔ اگرہم مسخروں میں کوی عقلمند ہوتا، جو کہ صدر صاحب کو بتاتا کہ آج کے دور میں میڈیا کے بغیر آپ نہیں جیت سکتے تو شاید ؤکلا ابھی بھی سڑکوں پر دھکے کھا رہے ہوتے۔۔۔۔۔۔ چلو ہماری حماکتوں سے کسی کو تو فایدہ ہوا۔۔۔۔۔ چلے آیں، پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کی میٹنگ میں بیٹھ کر زرداری اور اپنی شکست کا ماتم کرتے ہیں، اور اجتماعی طور پر کھمبا نوچتے ہیں۔
مجانب
ایک جیالا