یہاں پے میں نے زاہد حسین صاحب كے ایك مضمون كو پڑھ كر اس كی كچھ اہم پوائنٹس كو شئیر كیا ہے جن سے مجہے پورہ اتفاق ہے
افراتفری كا دور
طالبان سے مذاکرات کو شروع ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں، لیکن اب تک ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے جس سے کسی قسم کی امن کی کوئی امید پیدا ہو كیوں كہ جنگ بندی کے اعلان كے بعد بہت سے حملے ہوے ہیں . حقیقت تو یہ ہے کہ جنگ بندی پر طالبان نے کبھی پوری طرح عمل بھی نہیں کیا . دہشت گردوں کے حملوں میں معصوم لوگوں کی موت پر اب کوئی افسوس بھی نہیں کرتا . مرنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اب محض شماریات کا ایک ہندسہ ہے . اسلام آباد کی فروٹ مارکیٹ میں تقریباً تیس غریب مزدوروں اور تاجروں کے قتل عام کے چند گھنٹوں کے اندر ہی حکومت نے کچھ اور طالبان قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا جو سب کے سب صرف غیرمتحارب افراد كہلاتے تھے مگر طالبان کا مطالبہ تھا كہ تقریباً 800 دوسرے قیدیوں کو بھی رہا کردینا چاہئے .
اور اب ٹی ٹی پی خود آپس کے خونی جھگڑوں میں الجھی ہوئی ہے جس میں درجنوں تشدد پسند مارے گئے ہیںاور اس لڑائی نے پورے گروہ کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا ہے . بظاہر ایسا لگتا ہے، کہ ملا فضل اللہ ، جو سرحد کی دوسری جانب افغانستان سے معاملات چلا رہے ہیں ، اس جھگڑالو گروپ کو متحد نہیں کرسکتے . دہشت گردی کے اس نیٹ ورک کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کا یہ ایک بہترین موقع ہے لیکن مذاکرات نے فضل اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی ایک نئی زندگی عطا کردی ہے اور یہ سب اس حقیقت کے باوجود کہ وہ سرحد کے اس طرف افغانستان سے پاکستانی فوجوں کے خلاف مہلک ترین حملوں کا ذمہ دار رہا ہے
یہ سب تحریک طالبان کی جیت ہے کہ انہوں نے جو مذاکرات كی جھوتی وعدہ دے كر اپنی دہشت گردی کے نیٹ ورک کے کئی ساتھیوں کی رہائی بھی حاصل کرلی ہے اور خود ابھی تک ایک انچ بھی حوالہ نہیں کیا . یہ تو صاف صاف ٹی ٹی پی ہے جو اپنی شرائط پر بات کررہی ہے- اس کا سب سے بڑا فائدہ اس گروہ کو یہ ہوا ہے کہ انہیں اپنے پرتشدد نظریات کو جائز طورپر بلا خوف پھیلانے کا اور آزادانہ کام کرنے کا جواز مل گیا ہے اور یہ ملک کی سلامتی کے لئے واقعی ایک بہت خطرناک صورت حال ہے
پچھلے چند مہینوں کے واقعات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ملک تیزی سے افراتفری کا شکار ہوا ہے . مثال كے طور پر ، پچھلے ہفتے، اسلام آباد کی لال مسجد کے بدنام زمانہ مولانا عبد العزیز نے ایک غیر قانونی طور پر قبضہ کی ہوئی لائبریری کو ایک نیا نام دیا . القاعدہ کے مقتول قائد اسامہ بن لادن کا نام . مولانا عبدالعزیز جیل سے رہائی کے کئی سال بعد تک گمنامی کی زندگی گذار کر پھر دوبارہ نمودار ہوئے ہیں اور ایک بار پھر اپنے زہریلے پیغامات سے لوگوں کو ریاست پر غاصبانہ قبضے کیلئے ورغلا رہے ہیں
مجہے صرف ایك سوال ہے ، آخر كب تك ہم كو یہ سھنا ہوگا ؟
افراتفری كا دور
طالبان سے مذاکرات کو شروع ہوئے کئی مہینے ہو چکے ہیں، لیکن اب تک ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہے جس سے کسی قسم کی امن کی کوئی امید پیدا ہو كیوں كہ جنگ بندی کے اعلان كے بعد بہت سے حملے ہوے ہیں . حقیقت تو یہ ہے کہ جنگ بندی پر طالبان نے کبھی پوری طرح عمل بھی نہیں کیا . دہشت گردوں کے حملوں میں معصوم لوگوں کی موت پر اب کوئی افسوس بھی نہیں کرتا . مرنے والوں کی بڑھتی ہوئی تعداد اب محض شماریات کا ایک ہندسہ ہے . اسلام آباد کی فروٹ مارکیٹ میں تقریباً تیس غریب مزدوروں اور تاجروں کے قتل عام کے چند گھنٹوں کے اندر ہی حکومت نے کچھ اور طالبان قیدیوں کی رہائی کا اعلان کیا جو سب کے سب صرف غیرمتحارب افراد كہلاتے تھے مگر طالبان کا مطالبہ تھا كہ تقریباً 800 دوسرے قیدیوں کو بھی رہا کردینا چاہئے .
اور اب ٹی ٹی پی خود آپس کے خونی جھگڑوں میں الجھی ہوئی ہے جس میں درجنوں تشدد پسند مارے گئے ہیںاور اس لڑائی نے پورے گروہ کو ٹکڑوں میں تقسیم کردیا ہے . بظاہر ایسا لگتا ہے، کہ ملا فضل اللہ ، جو سرحد کی دوسری جانب افغانستان سے معاملات چلا رہے ہیں ، اس جھگڑالو گروپ کو متحد نہیں کرسکتے . دہشت گردی کے اس نیٹ ورک کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کا یہ ایک بہترین موقع ہے لیکن مذاکرات نے فضل اللہ کے ساتھ دوسروں کو بھی ایک نئی زندگی عطا کردی ہے اور یہ سب اس حقیقت کے باوجود کہ وہ سرحد کے اس طرف افغانستان سے پاکستانی فوجوں کے خلاف مہلک ترین حملوں کا ذمہ دار رہا ہے
یہ سب تحریک طالبان کی جیت ہے کہ انہوں نے جو مذاکرات كی جھوتی وعدہ دے كر اپنی دہشت گردی کے نیٹ ورک کے کئی ساتھیوں کی رہائی بھی حاصل کرلی ہے اور خود ابھی تک ایک انچ بھی حوالہ نہیں کیا . یہ تو صاف صاف ٹی ٹی پی ہے جو اپنی شرائط پر بات کررہی ہے- اس کا سب سے بڑا فائدہ اس گروہ کو یہ ہوا ہے کہ انہیں اپنے پرتشدد نظریات کو جائز طورپر بلا خوف پھیلانے کا اور آزادانہ کام کرنے کا جواز مل گیا ہے اور یہ ملک کی سلامتی کے لئے واقعی ایک بہت خطرناک صورت حال ہے
پچھلے چند مہینوں کے واقعات اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ملک تیزی سے افراتفری کا شکار ہوا ہے . مثال كے طور پر ، پچھلے ہفتے، اسلام آباد کی لال مسجد کے بدنام زمانہ مولانا عبد العزیز نے ایک غیر قانونی طور پر قبضہ کی ہوئی لائبریری کو ایک نیا نام دیا . القاعدہ کے مقتول قائد اسامہ بن لادن کا نام . مولانا عبدالعزیز جیل سے رہائی کے کئی سال بعد تک گمنامی کی زندگی گذار کر پھر دوبارہ نمودار ہوئے ہیں اور ایک بار پھر اپنے زہریلے پیغامات سے لوگوں کو ریاست پر غاصبانہ قبضے کیلئے ورغلا رہے ہیں
مجہے صرف ایك سوال ہے ، آخر كب تك ہم كو یہ سھنا ہوگا ؟