افسانوی مجموعہ "آس پاس " تانیثی مسائل کے آئینے میں ۔۔۔محمد خرم یاسین

احمد ندیم قاسمی کا یہ افسانوی مجموعہ کئی زاویوں سے پڑھا جاسکتا ہے۔ مجھے سب سے غالب رجحان اس میں تانیثیت (ٖٖفیمینزم) کا لگا۔ اس ضمن میں پڑھتے ہوئے جو بھی ذہن میں آیا، سپرد قلم کردیا۔ دو تین بار دوبارہ پڑھنے پر بھی اس سے بہتر زاویہ سمجھ میں نہ آیا۔ آپ یہ مضمون اس لنک سے ڈاؤنلوڈ کرکے پڑھ سکتے ہیں۔ بہت شکریہ !

 

سیما علی

لائبریرین
بہت شکریہ خرم صاحب ٹیگ گرنے کا !!!!!!!!احمد ندیم قاسمی صاحب ہمارے
بہت پسند یدہ مصنف و شاعر ہیں ۔۔۔
لیکن آنکھ میں انفیکشن ہے دوائی ڈالی ہے آرام سے پڑھتے کچھ بہتری ہوجائے تو۔
 
احمد ندیم قاسمی کی "چڑیل" کا تانیثی بیانیہ
ڈاکٹر محمد خرم یاسین
احمد ندیم قاسمی کا افسانہ "چڑیل" ایک مظلوم اور بے بس عورت کی داستان ہے، جوتقسیم کے ہنگاموں میں اپنی عزت لٹوانے کے بعد انسانی آبادی سے کچھ دور ایک کالی پہاڑی کی آغوش میں پناہ لیتی ہے۔ اس کی راتیں اپنوں سے بچھڑنے، عزت اور گھر بار لٹ جانے کے سوگ میں گزرتی ہیں ۔ اسی حالت میں اس پر پاگل پن سوار ہوجاتا ہے اور وہ بلند آواز میں چیخیں مارتی اور روتی ہے۔اس کی چیخیں سن کر توہم پرست سادہ لوح لوگ اسے چڑیل سمجھتے ہیں۔ کچھ عرصے کے بعد ایک نوجوان مُراد بتاتا ہے کہ اس نے اسے دیکھا ہے اور وہ چڑیل نہیں انسان ہے؛ایک بہت خوبصورت عورت جس کے سیاہ گہرے بال لمبے اور چہرہ روشن ہے۔ وہ اس کے حسن کی داستان کچھ اس انداز میں سناتا ہے کہ سب مبہوت ہوجاتے ہیں۔ جب وہ بتاتاہے کہ اس کی پیشانی پر بندیا ہے تو عمومی تاثر یہ جاتا ہے کہ وہ ہندو ہے۔ مسجد کے مولوی صاحب اسے سادھو سنت اور مجذوب سمجھتے ہوئے لوگوں کو اس کی خدمت کی دعوت دیتے ہیں اور ہر دن کسی نہ کسی گھر سے اس کے لیے مخصوص جگہ پر کھانا رکھاجانے لگتا ہے ۔ آبادی میں اس کے قہر سے بچنےاور اس سے رحمتیں طلب کرنے کے لیے چلے کاٹے جاتے ہیں، تعویزات تقسیم ہوتے ہیں اور وظیفے پڑھے جاتے ہیں ۔یوں وہ خاتون جس کے بار ےمیں کچھ لوگ اب بھی یہ فیصلہ نہیں کر پارہے کہ وہ چڑیل ہے یا مجذوب ، اچانک پرد ے سے غائب ہوجاتی ہے۔ لوگ اس کی تلاش میں نکلتے ہیں اور مراد آگے جاتا ہے تاکہ اسے ڈھونڈ سکے اور اس کی شکل میں آبادی پر جو رحمتیں یا اس کی خدمت نہ کرپانے پر جو مصیبتیں دیہات پرنازل ہوسکتی ہیں ، ان سے بچا جاسکے۔ مراد کچھ دیر تک واپس نہیں آتا تو آبادی کو لگتا ہے کہ مراد کی بھینٹ چڑھ چکی ہے لیکن دریں اثنا وہ ایک نومولود کو ہاتھوں پر اٹھائے نمودار ہوتا ہے ۔ اس بچے کو بظاہر جیتی جاگتی لیکن اندر سے مری ہوئی خاتون نے جنم دیا ہے جو فسادات میں اپنا سب کچھ لٹا کر ان پتھروں کے درمیان رہ رہی ہے جن کے درمیان اسے انسانوں سے زیادہ تحفظ محسوس ہوتا ہے۔ ہاتھوں پر نوزائیدہ بچے کو اٹھائے مراد کا بیان ملاحظہ کیجیے جو انسانوں کے ضمیر کو جھنجوڑ رہا ہے ، انسانیت کے زخموں کر کرید رہا ہے اورفکر میں ارتعاش برپا کر نے کی کوشش کر رہا ہے۔ اس کے ہاتھ میں بچہ ، حیات ِ نو کی امید اور انسانوں سے رحم کی التجا ہے۔
"سامنے مراد ایک روتے ہوئے نوزائیدہ بچے کو بازوؤں پر اٹھائے کھڑا تھا اور وہ کہہ رہا تھا: تم حیران ہو رہے ہودادا؟ پر اس میں حیرانی کی کونسی بات ہے۔ یہ تو ایک نیا انسان ہے۔ پچھلے چیت کی حیوانیت نے اسے جنم دیا ہے۔ یہ منوں بہے ہوئے لہو کاجوہر ہے۔ تم ایک دوسرے کو مبارک باد کیوں نہیں دیتے ۔ دیوانی انسانیت کی کوکھ سے نکلے ہوئے اس نئے انسان کو تم ہاتھوں ہاتھ کیوں نہیں لیتے اور تم میرے پاس آکر اور اس چوٹی پر کھڑے ہوکر ساری دنیا کو یہ کیوں نہیں بتاتے کہ دھرتی کی اجڑی ہوئی مانگ کا سیندور پھرسے چمک اٹھا ہے۔ مگر اس عورت کے ماتھے پر تو بندیا کا نشان تھا۔ نیچے سے مولوی جی نے ایک اعتراض اچھالا اور مراد پکارا "مگر بچے کا ماتھا تو چاند کا ٹکڑا ہے۔" چڑیلوں کے بچے ایسے ہی ہوتے ہیں! مولوی جی نے جیسے ساری دنیا کو سرزنش کی۔"(22)
یوں یہ افسانہ ایسی خواتین کے معاشر ے میں رد و قبول کو ہدف بناتے ہوئے ختم ہوجاتا ہے جو بے آسرا ہیں، تقسیم کے تناظر میں لٹ پٹ چکی ہیں، گھر بار سب ختم ہوچکا ہے اور اب وہ نہ جانے کس کے بچے کو جنم دے رہی ہیں ۔ ایسی خواتین کو شریک ِ حیات یا جینے کا کوئی اور سہارا بمشکل تمام ہی میسر آتاہے اور وہ شدید نفسیاتی مسائل سے گزرتی ہیں ۔ مراد ایسا کوئی شخص ان کے حق میں آواز اٹھائے بھی تو اس کی آواز دبا دی جاتی ہے یا اسے قبول نہیں کیا جاتا۔
مضمون: افسانوی مجموعہ "آس پاس " تانیثی مسائل کے آئینے میں
مکمل مضمون کا لنک پہلے کمنٹ میں
#احمدندیم #قاسمی #تانیثیت #چڑیل
May be an image of 8 people and child



جوان اور تنہا "خانی" تانیثی مسائل کے آئینے میں
ڈاکٹر محمد خرم یاسین
"آس پاس" کا پہلا افسانہ"اکیلی"دل میں چھپی ہزاروں جوان امنگوں سے بھرپور ایک ایسی بے سہارا لڑکی "خانی" کا قصہ ہے جس کے سر میں سفیدی اتر رہی ہے لیکن نہ تواسے کوئی جذباتی سہارا میسر ہے اور نہ ہی گھر میں کوئی ایسا بڑا بچا ہے جو اسے عزت سے سسرال رخصت کرسکے۔ خانی کےوالدین فوت ہوچکے ہیں اور چھو ٹا بھائی"جمعہ خان "عرف جمو کی کفالت اس کے ذمے ہے۔ افسانے کا زمان و مکان دیہات سے جڑا ہے جس کی وجہ سے اُسے گھر سے باہر قدم رکھنے یا محنت مزدوری کرنے پر کئی قسم کی معاشرتی قباحتوں کا سامنا ہے۔اسی سبب اسےجمو کی کفالت اور خود اپنی گزر بسر کے لیے متعدد مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے۔ وہ بہت سوچ سمجھ کر اس تھیلی میں سے ایک ایک پیسہ خرچ کرتی ہے جو وفات سے قبل اس کے والدنے تھمائی تھی اور اس کے پاؤں میں اس وعد ے کی زنجیر ڈال دی تھی کہ وہ کبھی بھی گھر سے باہر پاؤں نہیں رکھے گی تاوقت یہ کہ اس کا بھائی جمو بڑا ہوجائے ، کچھ کھانے کمانے لگے اور اس کا کفیل بن جائے۔ خانی کا گھر چوں کہ شرافت اور وقار میں دیہات کے اچھے گھروں میں شمار ہوتا تھا اور اسے بچپن ہی سے اپنے ہم عمروں سے بھی ایک مخصوص فاصلے پر رکھا گیا تھا اس لیےوالدین کی وفات کے بعد بھی وہ بچپن کی اس مشق سے جان نہ چھڑا پائی اور تنہا زندگی گزار رہی تھی ۔ایک جانب تو اس کی سہیلیاں نہ ہونے کے برابر تھیں اور دوسری جانب خاندانی شرافت اور وقار کا وہ معیار تھا جسے ہر صورت میں قائم رکھتے رکھتے وہ غربت اور نفسیاتی مسائل کا شکا رہو رہی تھی۔ چنانچہ وہ گھر رہ کر مشکل سے گزارہ کرنے پر قناعت کرلیتی لیکن دوسری پنہاریوں کی طرح نہ تو پنگھٹ پر پانی لینے جاتی اور نہ ہی کوئی ایسا قدم اٹھاتی جس سے کوئی بھی غیر اخلاقی بات اس کی ذات یا خاندان سے منسوب ہوسکے ۔ انھی فکروں میں خانی کی عمر تیزی سے گزر تی ہے اور وہ غیر ضروری جذباتیت ، ذہنی دباؤ اور تناؤ، نا امیدی اور مایوسی کی جانب بڑھتی جاتی ہے ۔ ان حالات و واقعات میں ایک نوجوان اسلم جب جمو کو اس بات پر تنگ کرتا ہے کہ وہ ان کے کھیت سے بیر چرا لایا ہے تو خانی چھت سے جمو کو ڈانٹی ہے اور اسلم کوبیر چوری کے الزام کی وجہ سے طنز کا نشانہ بناتی ہے۔ جھگڑے اور تناؤ کے اس ماحول کے باوجود خانی کو اسلم کی صورت میں نفسیاتی سہارا دکھتا ہے اور لاشعوری طور پر اس کے دل میں اسلم کے لیے جب کہ اسلم کے دل میں اس کے لیے محبت کے جذبات پیدا ہوجاتے ہیں۔ ساون کی ایک رات میں جب خانی تنہائی کی وحشت میں مبتلا ہوکر بنا وجہ پانی کا گھڑا لیے باہر نکلتی ہے اچانک بارش طوفانی ہوجاتی ہے اور وہ مجبوراً اسلم کے چوپال میں پناہ لیتی ہے۔یہاں اس کی اتفاقی ملاقات اسلم سے ہوتی ہے جو اسے پیار سے پکارتا ہے لیکن خانی ڈر کر واپس گھر کی جانب دوڑ لگادیتی ہے ۔
اس افسانے میں خانی کا کردار کئی تانیثی مسائل کو اجاگر کرتا ہے۔اول یہ کہ خانی ایسی لڑکیاں جن کی تربیت زیادہ سخت ماحول میں کی جاتی ہے اور معاشرتی طورپر خود سے لوگوں کے رویوں کو سیکھنے اور پرکھنے نہیں دیا جاتا ، وہ عمر گزرنے کے ساتھ کئی قسم کے التباسات و اشکالات کا شکار ہوکر لوگوں سےآسانی سے دھوکا کھاسکتی ہیں۔ ایسی لڑکیوں کو جلدچند چکنی چپڑی باتوں سےعشق محبت کے جال میں پھنسایا اور استحصال کیا جاسکتا ہے۔ دوم یہ کہ ایسی ہزارو ں نہیں لاکھوں خواتین ایسے معاشروں میں تنہائی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن کا والی وارث نہ رہا ہو، خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہی ہوں، رنگ گہرا گندمی یا سیاہی مائل ہو، والدین کم زور ہوں، گھر اچھا نہ ہو یا جہیز کے مسائل ہوں۔ ایسی لڑکیوں کے عموماً اچھے رشتے نہیں آتے اور جوبے جوڑ رشتے آتے ہیں انھیں قسمت سمجھ کر قبول کرلیا جاتا ہے ۔ایسے رشتے یا تو زیادہ دیر چل نہیں پاتے اور چلتے ہیں تو ان میں کسی ایک فریق کی اور بادی النظر میں اولاد کی زندگی نفسیاتی سطح پر متاثر ہونے کا امکان رہتا ہے۔ سوم یہ کہ پاکستان ایسے معاشرے میں زیادہ خواتین معاشی طورپر خوش حال یا خود مختار نہیں ہیں اس لیے عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ شادی کے حوالے سے ذہنی خلفشار بڑھتا جاتا ہے جس کا اظہار وہ لاشعوری طورپر غیر مناسب انداز میں کرتی ہیں ۔ اس سے ان کے متعلقین کی زندگیاں متاثر ہوتی ہیں۔ چہارم یہ کہ اگر ایسی خواتین معاشی سرگرمیوں میں مبتلا ہوں تو یا تو ان کے والدین جلدی شادی نہیں کرتے اور اگر وہ گھر کی کفالت کر رہی ہوں تو کفالت کرتے کرتے خود کو فراموش کردیتی ہیں۔ یوں ایک عمر کے بعد ان کی لیے آنے والے رشتوں میں معاشی استحکام کی وجہ سے لالچ کا عنصرزیادہ نمایاں ہوتا ہے ۔ پنجم یہ کہ خانی ایسی خواتین گھر کی عزت اور وقار کے ضمن میں اپنے لیے ایسے ہم سفر کو تلاش کرنے میں ناکام رہتی ہیں جو ان کی زندگی میں خوش حالی لا سکے۔ اس کے برعکس وہ خواتین جو اس سلسلے میں فعال ہوتی ہیں ، ان کے ایسے مسائل کا جلد حل نکل آتا ہے ۔ خانی کا کردار سماجی، معاشی اور سیاسی طورپر غیر مستحکم خواتین اور ان کے خاندانوں کے بارے میں بہت سے سوالات چھوڑ جاتا ہے۔
خانی کا یہ روپ ملاحظہ کیجیے جس میں اسے بہ یک وقت اپنی قسمت اور والدین کی وفات سے بہت سے گلے ہیں ۔ اس کے الفاظ اس کے لاشعور کے نمائندہ ہیں اور اس کے گہرے ذہنی خلفشار کا اظہار ہیں۔ نفسیاتی طوپرر اس کی گفتگو ناامیدی اور بے سکونی(Major Depressive Disorder (MDD) پر محمول کی جاسکتی ہے۔نفسیاتی حوالے سے یہ نا امیدی خانی کو موت یا خود کشی کے خیالات پر مجبور کرسکتی ہے جب کہ یہ مسئلہ بھی پیدا ہوسکتا ہے کہ وہ خود کو لاشعوری طورپر بالکل ناکارہ سمجھنے لگے اورآگے بڑھنے کے دیگر راستے خود اپنی سوچ کے تحت مسدود کر دے۔ ملاحظہ کیجیے:
"پھر وہ جمو کو روتا دیکھ کر خود بھی رونے لگی ۔ اسے سینے سے لگا کر بولی"کیسے مزے سے قبرستان میں پڑے آرام کر رہے ہیں۔ یہ نہیں سوچا کہ بیٹا بیٹی اکیلے کیا کریں گے۔وہاں دن بھر دھوپ سینکتے ہیں رات بھر اندھیرےکی چادر اوڑھے۔"(1)
سہیلی سے خانی کے دل میں امڈتی امنگوں اور ناکام خواہشات کا اظہار ملاحظہ کیجیے۔ یہ اظہار اس کے ذہنی دباؤ (Depression) کا نمائندہ ہے۔
"تمہی بتاؤ، جب گہرے کالے بادل سے سورج نکلتا ہے اور تمہیں معلوم ہوتا ہے کہ دوسرا کالا بادل اسے نگل جانے کے لیے بڑھا آرہا ہے تو اب تھوڑی دھوپ کے سنہری خزانے سے تم اپنی جھولیاں نہیں بھر لیتیں ؟ انگڑائیاں نہیں آتیں تمہیں ؟ کیا تم یہ نہیں چاہتیں کہ تم ناچنے لگو اور ناچتے ناچتے اوپر اڑنے لگو۔ اور اڑتے اڑتے ان بادلوں کو چیر کر آگے نکل جاؤ اور تاروں اور نیلا ہٹوں اور چاند سورج اور۔۔۔ہائے ری ، میں کیسی پاگل ہوں۔وہ سر دونوں ہاتھوں میں دباکر سہم جاتی ۔" (2)
جمو کے منانے اور بڑی بہن کو گڑیا کہنے پر خانی کا ذہنی تناؤ ان الفاظ سے جانچا جاسکتا ہے جس میں اسے اپنی غربت کا پورا احساس ہے اور اس سے میں بیان کیا گیا ہے:
اتنی لمبی اور اتنی پتلی ، اور پھر ایسے میلے کپڑوں والی ۔ نہ ریشم کا دوپٹہ، نہ سونے کا جھومر، نہ طلائی جوتا۔ بس ایک ہنسلی ہی ہنسلی ۔ بڑی گندی گڑیا ہے تمھاری۔ " (3)
جمو کو چوں کہ خانی بیٹے کی طرح پال رہی ہے اس لیے ایک جانب اس میں مامتا کا جذبہ جاگ رہا ہے دوسرا وہ اسے اپنے لیے سہارا سمجھتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے مدرسے چلے جانے کے بعد جمو مختلف التباسات (Hallucination ) کا شکار ہوجاتی ہے۔ جمو کا بیان اس کے نفسیاتی مسائل کا آئینہ ہے۔ ہیلوسی نیشن کا شکار مریض اپنے لیے اور اپنے متعلقین کے لیے خاصا بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔ ایسا مریض ایسی حالت میں لاشعوری طورپر خود کواور دوسروں کو جان سے ماردینے تک کا خطرہ مو ل لے سکتا ہے۔ایسا مریض معاشرتی طور پر سب سے کٹ کر زندگی گزارنے کا عادی ہوجاتا ہے۔ خانی کا معاملہ دو طرفہ خرابی کا شکار ہے۔ ایک جانب اس کی ہیلوسی نیشن کا محرک ہی تنہائی ہے دوسری جانب ہیلوسی نیشن کی وجہ سے وہ سب سےدور ہورہی ہے البتہ اس کے لاشعور میں اس کے خلاف ایک مزاحمت بھی پیدا ہورہی ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔
"تم جب مدرسے چلے جاتے ہو نا تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ دیواریں ہولے ہولے سرکتی آرہی ہیں اور میں گھٹی جار ہی ہوں۔ تب مجھے بڑے ڈراؤنے خیال آتے ہیں۔ رنگ رنگ کے چہرے نظر آتے ہیں۔ کئی اتنے خوبصورت جیسے آگ کے پھولوں کا گچھا۔ کئی ایسے بھیانک جیسے وہ کونے میں پڑی ہوئی ہنڈیا۔ اتنے اتنے دانت اور یہ ناخن اور۔۔۔"(4)
اسی طرح جمو کو پری اور پھول کی کہانیاں سنانا جن میں پھول کو چومنے سےپھول شہزادہ بن جاتا ہے اور پری آہستہ آہستہ مر جاتی ہے، بھی اس کے لاشعوری مسائل کی آئینہ دار ہیں۔ خانی کی تنہائی کے اسباب میں اس کے والدین کی غیر ضروری احتیاط کا سب سے زیادہ عمل دخل تھا۔ والدہ کی وفات کے بعد والد اور بھائی کے درمیان وہ بالکل تنہا تھی۔ باہر جانے کی بھی کوئی وجہ نہ تھی کیوں کہ پانی گھر پر پہنچا دیا جاتا تھا، لوگوں سے غیر ضروری طورپر ڈرایا جاتا تھا اور وضع داری کو کھودینے کے ڈر سے پاس پڑوس سے فاصلہ بنائے رکھنے کی ترغیب دی جاتی تھی ۔ چنانچہ ایک ایسے دن میں جب کہ بارش برس رہی تھی، خانی، جو عام دنوں میں بھی کبھی گھر سے باہر نہ نکلتی تھی، جذبات میں بے قابو ہوکر گاگر سر پر رکھے باہر نکلی اور جب بارش میں پھنس کر اسلم کی چوپال میں پہنچی تو اسلم نے اس سے گفتگو کرنا چاہی۔ ان کمزور لمحوں میں جب کہ خانی کے دل میں جذبات کا طوفان برپا تھا، اس نے خاندانی ناموس کاخیال کرتے ہوئے وہاں سے فرار حاصل کی اور گھر کی چار دیواری میں سکون محسوس کیا۔
"ایک بار تو خانی کو یوں محسوس ہوا جیسے اس نے اکیلے پن کی جو ریاضت کی تھی اس کا اجر ملنے والا ہے ۔ خود سپردگی کے نہایت شدید احساس نے اس کے جسم کو بالکل بے جان کردیا۔ جیسے وہ دنیا میں اکیلی نہیں رہی، جیسے خدا نے اسے بہت طویل اور کڑی آزمائش کے بعد تنہائیوں سے چھٹکارا دلا دیا ہے۔ اس نے چاہا کہ اسلم سے لپٹ جائے، اس کے کندھے پر اپنا سر رکھ دے اور اس سے دوہوں میں باتیں کرے لیکن اچانک اپنے کندھے پر اسلم کے ہاتھ کو محسوس کرکے تڑپ اٹھی، گاگر سنبھالتی جھپٹ کر باہر نکلی ۔۔۔گلیوں میں یوں دوڑنے لگی جیسے وہ رقص کے اختتامی چکر میں بے خود ہوگئی ہے۔ "(5)
احمد ندیم قاسمی نے یہاں خانی کی فرار اور گھر کو پناہ قرار دے کر افسانے کا خاتمہ کیا ہے لیکن یہ سوال پھر بھی موجود رہتا ہے کہ خانی ایسی کتنی لڑکیاں اس تنہائی اور قربت سے فرار حاصل کرسکتی ہیں ؟ کیا یہ ضروری نہیں کہ ایسی لڑکیوں کی تربیت میں غیر ضروری پابندیاں کم کی جائیں، ذات کے اظہار کا موقع دیا جائے اور ان کی غربت کی وجہ سے منھ موڑنے کے بجائے انھیں تحفظ فراہم کیا جائے تا کہ اسلم ایسے لوگ ان کی تنہائی سے فائدہ نہ اٹھا سکیں؟
مکمل مضمون "افسانوی مجموعہ "آس پاس " تانیثی مسائل کے آئینے میں"
پہلے کمنٹ میں
#احمدندیم#قاسمی #خانی #تنہا #اکیلی #محمدخرم#یاسین
No photo description available.
 
بہت شکریہ خرم صاحب ٹیگ گرنے کا !!!!!!!!احمد ندیم قاسمی صاحب ہمارے
بہت پسند یدہ مصنف و شاعر ہیں ۔۔۔
لیکن آنکھ میں انفیکشن ہے دوائی ڈالی ہے آرام سے پڑھتے کچھ بہتری ہوجائے تو۔
بہت شکریہ آپا! اللہ کریم آپ کو صحت و تندرستی عطا فرمائے۔ آمین۔
 
Top