افسانچہ : ایک خط۔ نزہت وسیم

ام اویس

محفلین
میرے ہمدم ! آنکھیں خواب دیکھتی ہیں اور مدتوں ان کی دیکھ بھال کرتی اُجڑتی جا رہی ہیں۔ تنہائیوں کی دُھوپ نے چہرہ جلا کر راکھ کردیا مگر ظاہر کی آنکھ دیکھ نہیں پاتی۔ درد جوڑتے جوڑتے لفظ ٹوٹ گئے اور لفظوں کے جوڑنے میں عبارت کی ہر سطر بکھر گئی، آئینے تڑخ کر ٹکڑوں میں بٹ گئے اور ان نا تراشیدہ ٹکڑوں میں کئی عکس کھو گئے۔

تم تو ایسے گئے کہ کبھی پلٹ کر پھیرا نہ ڈالا۔ جانِ من ! ہم نے بھی ہمت نہ ہاری ، ہر رہگزر کی بِھیڑ میں، لوگوں کے خدو خال میں تمہاری مانوس صورت اورشعور سے مٹتے سراپے کی تلاش جاری رہی۔

کئی سال بیت گئے دھیرے دھیرے تم وہ اجنبی، پردہ نشیں محبوب بن گئے جس کو پہچاننے کی ساری نشانیاں سامنے تو ہوں مگر ایسے بکھری ہوں جیسے آئینہ ہاتھوں سے گر کے بے شمار ٹکڑوں میں تقسیم ہو جائے، ہر ٹکڑے میں ایک چہرہ ہو وہ بھی ادھورا۔

سنو! نہ جانے کیوں اس وقت مجھے اولڈ ہوم کے اس شخص کی یاد آگئی، جس کی یاداشت کے سارے پنے بکھر چکے تھے۔ جسے اپنا نام بھی یاد نہیں تھا۔ میں نے اس سے پوچھا: “ کہاں تھا تمہارا آشیانہ ، کیسا تھا ہمسفر زندگی کا”

وہ جو اپنے وجود سے بے خبری کے شب و روز میں بھٹکتا تھا جسے نہ اپنی جڑ کا پتہ تھا نہ شاخوں سے آشنا تھا، نہ پتوں کی خبر تھی، کہاں کتنے جھڑ گئے باقی بھی ہیں یا بکھر گئے، موسم ، وقت ، رُت ، دن ، رات سب گردشِ حیات اور رفتارِ ماہ و سال میں کھو چکے تھے، وہ جس کا لہجہ اپنی کہانی سناتے بار بار لڑکھڑا کر گمشدہ یادوں کی سیڑھی چڑھتا ، لرزتا ، کانپتا، بے یقینی کا بھنورجس کی یادوں کے پنے اڑائے لے جاتا، جنہیں پکڑنے وہ دیوانہ وار ان کے پیچھے لپکتا۔ خواب نگر میں بستا تھا، بے بسی کی ہنسی ہنسا اور کہنے لگا:

“ سبھی میرے ساتھ رہتے ہیں ، میرا خیال رکھتے ہیں، ملنے آتے ہیں اور یادوں کے رنگین گلدستے چھوڑ جاتے ہیں، پہروں ان کے خیال میں وقت گزارتا ہوں اور ان سے دوبارہ ملاقات کے وعدے پر زندہ ہوں۔”

اور لوگ کہتے ہیں، مدتیں گزری اس سے کبھی کوئی ملنے نہیں آیا۔

اس کا خواب نگر آباد تھا اَن دیکھے ، موہوم سایوں سے ، ٹوٹی کرچیوں سے نظر آتے ہزارہا چہروں کی مانند ، بھلا یوں بھی کبھی کچھ ہاتھ آتا ہے؟

نہیں نا ! کبھی وہ ان گزرے لمحوں کی ، بیتے سفر کی ، راہوں میں بکھرے پتوں پر بیتی بہار و خزاں کی اور اس ہم سَفر کی جو فراق کی دلدل میں کھو چکا ہو، خبر پا سکے گا، یا اسی سراب میں اپنی زندگی کے باقی ماندہ دن بِتا دے گا؟

لیکن میں! میں تو تمہارے سنگ گزرے وقت میں جیتی ہوں، ایک ایک پل کو دھنک میں بسے رنگوں کی مانند محسوس کرتی ہوں، پھر ہوا میں تمہاری مخصوص مہک کی لطافت کے وہ سبک سبک لمحے بھی شعور کی کسی نہ کسی تہہ سے ابھر کر کبھی نہ کبھی احساس کو مہکا دیتے ہیں۔

لیکن ٹھہرو ذرا! اک پل سوچنے دو، مجھے بھی اب یہ سب کچھ اک سراب لگتا ہے دشتِ سراب، اتنی لمبی مدت نے ہر نقش دھندلا دیا، یادوں کے پنوں پرمدہم مدہم لکیریں، بچاتے بچاتے بھی مٹتی جا رہی ہیں۔ ہجر کے صحرا میں بھٹکتے بھٹکتے کہیں نشانِ منزل نہیں ملتا، ہاں سراب سے سراب ہیں اور سامنے آئینے میں پچاس سالہ بڑھیا کا جھریوں بھرا چہرا، اور آئینے سے جھانکتی دیوار پر لگی ایک کڑیل جوان کی مسکراتی، کھلکھلاتی تصویر۔

کیا یہ تم ہو؟
۔۔۔۔۔
نزہت وسیم
 
Top