نیرنگ خیال
لائبریرین
تمام دوست خوش گپیوں میں مصروف تھے، لیکن وہ خاموش بت بنا بیٹھا خالی نظروں سے سب کو دیکھ رہا تھا۔ پیشانی پر سلوٹیں اور آنکھوں کے گرد حلقے بہت گہرے نظر آرہے تھے۔بار بار گردن کو دائیں بائیں ہلاتا جیسے درد کی وجہ سے پٹھوں کو آرام دینے کی کوشش کر رہا ہو۔ آنکھوں کی سرخی سے یوں محسوس ہوتا تھا کہ گزشتہ کئی دن سے سو نہیں پایا۔ کافی دیر گزرنے کے بعد بھی جب برخلافِ طبیعت اس کی طرف سے کوئی جملہ کسی بھی موضوع پر سننے کو نہ ملا تو احباب اپنی گفتگو ترک کر کے اس کی طرف متوجہ ہوئے۔
تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ پہلے نے ایک گہری نگاہ اس کے سراپے پر ڈال کر پوچھا۔
یہ تمہاری آنکھوں کے گرد حلقے اتنے گہرے کیوں ہیں؟ کس کا غم سوہان روح بنا ہوا ہے؟ دوسرے نے سوال اٹھایا۔
بولو بھی! کیا زبان گروی رکھ دی ہے؟ تیسرے نے جملہ چست کیا۔
خدا کے واسطے! اب یہ نہ کہہ دینا کہ تمہیں اس عمر کسی مٹیار سے عشق ہوگیا ہے.جبکہ تمہارا ایک پاؤں قبر میں اور دوسرا کیلے کے چھلکے پر ہے۔ ایک نے جھلا کر کہا۔
پھر سب چپ ہوگئے۔ اس نے سب پر ایک گہری نگاہ ڈالی۔ اور پھر آہستہ سے بولا۔
میں آجکل نائٹ شفٹ بھی کر رہا ہوں۔
نوٹ: پتا نہیں اس کو افسانچہ بھی کہنا چاہیے کہ نہیں۔۔۔ خیر جو بھی ہے۔
تمہیں کیا مسئلہ ہے؟ پہلے نے ایک گہری نگاہ اس کے سراپے پر ڈال کر پوچھا۔
یہ تمہاری آنکھوں کے گرد حلقے اتنے گہرے کیوں ہیں؟ کس کا غم سوہان روح بنا ہوا ہے؟ دوسرے نے سوال اٹھایا۔
بولو بھی! کیا زبان گروی رکھ دی ہے؟ تیسرے نے جملہ چست کیا۔
خدا کے واسطے! اب یہ نہ کہہ دینا کہ تمہیں اس عمر کسی مٹیار سے عشق ہوگیا ہے.جبکہ تمہارا ایک پاؤں قبر میں اور دوسرا کیلے کے چھلکے پر ہے۔ ایک نے جھلا کر کہا۔
پھر سب چپ ہوگئے۔ اس نے سب پر ایک گہری نگاہ ڈالی۔ اور پھر آہستہ سے بولا۔
میں آجکل نائٹ شفٹ بھی کر رہا ہوں۔
نوٹ: پتا نہیں اس کو افسانچہ بھی کہنا چاہیے کہ نہیں۔۔۔ خیر جو بھی ہے۔