افسانہ : انتظام . مصنف: جمیل اختر

افسانہ : انتظام
مصنف: جمیل اختر

"دیکھو میں بڑی تکلیف میں ہوں۔ "

" حوصلہ رکھ ، رجو حوصلہ۔" .
.
۔ یہ فقیروں کی بستی تھی۔ دور دور تک جھونپڑیاں ہی جھونپڑیاں، انہی میں ایک جھونپڑی کمالے کی تھی جس میں کمالے کے علاوہ چار اور زندگیاں بھی سانس لیتی تھیں،اسکی بیوی رجو اور انکے تین بچے، زندگی جینے اور زندگی گزارنے میں بڑا فرق ہوتا ہے سو وہ گزار رہے تھے، ۔ انکا واحد ذریعہ روزگار بھیک تھی، کمالے کو ایک ہی ہنر آتا تھا اور وہ تھا بھیک مانگنا۔ کوئی اور ہنر سیکھنے کا اسے کبھی خیال ہی نہیں آیا۔ وہ اور رجو سارا دن بھیک مانگتے اور تینوں بچے صبح سے شام انکا انتظار کرتے، کمالے نے کئی بار رجو کو کہا بھی کہ انہیں بھی اب ہنر سیکھنا چاہیے پر رجو ہر بار آڑے آجاتی۔ نہ نہ کمالے یہ ابھی چھوٹے ہیں . حالانکہ ارد گرد کی جھونپڑیوں سے انکی عمر کے بچے اب پچاس ساٹھ روپے کی دیہاڑی لگا رہے تھے۔۔۔۔ باقی بچوں کی نگاہ میں یہ بچے انتہائی کاہل اور بیکار تھے جو سارا دن جھونپڑی کے اندر یا جھونپڑیوں کے درمیان، کھیلتے رہتے ۔۔۔
.
. ۔ وقت ایسے گزر رہا تھا کہ ایک روز رجو کے پیٹ میں شدید درد اٹھا۔ جتنے ٹوٹکے انہیں آتے تھے سب آزما ڈالے جب ٹوٹکوں سے آرام نہ آیا تو اسے خیال آیا کہ دنیا میں ہسپتال نام کی بھی ایک جگہ ہوتی ہے جہاں انسانوں کا علاج ہوتا ہے۔ ہسپتال کے بارے اسکی معلومات بہت محدود تھیں، اسے صرف اتنا پتہ تھا کہ یہاں علاج ہوتا ہے ۔ کیوں اور کیسے کے بارے اسکے ذہن میں کوئی جواب نہیں تھا۔ سو اس نے اردگرد کی جھونپڑیوں کے لوگوں سے اس بارے پوچھا کہ ہسپتال کیسے جاتے ہیں اور کیا وہاں انسانوں کے ساتھ ساتھ بھکاریوں کا بھی علاج ہوتا ہے؟؟؟؟ سب لوگوں کے مطابق ہسپتال جانے کے لئیے کافی رقم کی ضرورت ہوتی ہے۔ کتنی رقم ۔۔۔۔؟؟؟؟ بہت ساری۔۔۔۔ سو اسے رقم جمع کرنی تھی ۔۔۔۔
,
اگلے پانچ دنوں میں وہ رات گئے تک بھیک مانگتا، اسکی آواز میں درد اور بڑھ گیا تھا۔۔۔ پانچویں دن رات گئے جب وہ جھونپڑی میں لوٹا تو اسکے پاس پورے پانچ سو روپے تھے۔۔۔۔ ۔

.

"دیکھو میں بڑی تکلیف میں ہوں۔۔۔"

"بس رجو حوصلہ رکھ میں نے رقم کا بندوبست کر لیا ہے۔ کل ہسپتال چلیں گے۔۔۔۔پھر تمہیں آرام آجائے گا"
.
. اگلے روز وہ رجو کو سرکاری ہسپتال لے گیا۔ رجو کو شدید تکلیف تھی لیکن ہسپتال کے قواعد و ضوابط بڑے سخت تھے جو کہ غریبوں پہ سختی سے نافذ کیے گئے تھے۔ کمالا، رجو کو لے کے صبح سویرے ہسپتال آیا تھا،بڑی مشکل سے پرچی بنی اور سب سے آخر میں بھکارن کا نمبر آیا۔ ۔ ڈاکٹر نے نے ایک ٹیسٹ تجویز کیا تھا، کمالے کے لیئے یہ سب کچھ پہلا تجربہ تھا وہ پوچھتا پوچھتا آخر وہ ٹیسٹ کرانے میں کامیاب ہوا، چار سو کا ٹیسٹ تھا۔



اس نے ذہن میں حساب لگایا اب اسکے پاس نوے روپے باقی تھے۔ لیکن پھر اسے یہ سوچ کہ خوشی ہوئی کہ ٹیسٹ ہو تو گیا نا اب رجو بھی تو ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔ وہ رپورٹ لے کے ڈاکٹر کے پاس پہنچا۔۔۔ ڈاکٹر نے ایک نظر رپورٹ پر ڈالی پھر ایک نظر بھکاری پر۔۔۔۔

.

"تمہاری بیوی کے گردوں میں مسئلہ ہے ، آپریشن کرنا ہوگا۔۔ بیس ہزار کا انتظام کر لو گے؟؟؟"



"بیس ہزار؟؟؟؟ "

اس نے کبھی اکھٹے بیس ہزار نہیں دیکھےتھے۔ وہ تو سو دو سو کی دیہاڑی لگا نے والا آدمی تھا ۔وہ تو سمجھ رہا تھا کہ اس ٹیسٹ سے ہی سب ٹھیک ہو جائے گا اور رجو چنگی بھلی ہو جائے گی

" صاب اپریسن جروری ہے کیا؟؟؟؟"
ہاں بہت ضروری۔۔ "
"کوئی دوا نہیں مل سکتی اس بیماری میں۔۔۔؟؟؟؟"
"ایک دوا میں نے لکھ دی ہے اس سے کچھ دیر آرام تو ہوگا لیکن اسکا حل آپریشن ہی ہے۔۔۔ "

۔ دوا کا نسخہ سنبھالے وہ میڈیل سٹور پر پہنچا۔ اس نے بچپن سے بھیک ہی مانگی تھی اسکا چہرہ کچھ ایسا ہو گیا تھا کہ کوئی بھی دیکھتا تو وہ اسے بھکاری ہی سمجھتا،،،

"معاف کرنا " میڈیکل سٹور والے نے کہا
نہیں نہیں صاب میں نے دوائی لینی ہے۔۔۔۔"
میڈیکل سٹور والے نے کہا

پیسے ہیں۔۔۔"???

ہاں جی "

اچھا کونسی دوا۔۔؟؟؟ اس نے نسخہ آگے کر دیا۔۔

یہ لو یہ ہے وہ دوا۔۔۔
کتنے پیسے صاب؟؟؟

"۔980 "

کتنے صاب؟؟؟؟ٓ آواز کہیں دور سے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی اسکی جیب میں کل 90 روپے تھے، اسے انداذہ نہیں تھا کہ دوایی بھی مہینگی ہوتی ہوگی۔ اسکی سمجھ جتنی تھی اسکے مطابق گاڑیاں مہینگی تھیں , بنگلے مہینگے تھے اور روٹی تو بہت ہی مہنگی تھی ۔

"صاب یہ رکھ لیں وہ میں کل آوں گا لینے۔۔۔۔" "مجھے پہلے ہی پتہ تھا پیسے ہوتے نہیں اور آجاتے ہیں۔۔"۔ اس نے سٹور والے کی بات پہ کوئی توجہ نہ دی وہ بچپن سے لوگوں سے ایسی باتیں سنتا آیا تھا۔۔۔۔
"کمالے دوا لے آئے؟؟؟؟" ۔ رجو نے درد سے کراہتے ہوئے کہا

"لے آوں گا لے آوں گا۔۔۔"

"دیکھ میں بڑی تکلیف میں ہوں۔۔۔۔" . جانتا ہوں بھلئے لوکے۔۔۔ بس تھوڑے پیسے کا انتجام کرنا ہے۔۔۔۔ " . فی الحال تو 980 روپے کا۔ اسکے بعد ۔۔۔۔اسکے بعد کے 20000 کے بارے ابھی وہ سوچ نہیں سکتا تھا۔۔۔

"کل سے یہ تینوں بھی آئیں گے کام پر میرے ساتھ۔۔۔۔ "رجو نے کچھ کہنا چاہا کہ درد کی اک لہر سے اٹھی۔۔۔۔

"اچھا ٹھیک ہے۔۔۔۔"
اگلے روز سب کام پر نکل پڑے۔

بھکاری کے بچے تھے فورا ہنر سیکھ گئے۔ شام کو کسی کے پاس تیس تھے کسی کے پاس چالیس لیکن 980 ابھی دور تھے۔ اور 20000 ابھی سوچ سے باہر۔

"دیکھ میں بڑی تکلیف میں ہوں ،کسی سے قرض لے لے اور دوا لے آ۔۔۔ "

نی بھلیے لوکے ھم بھکاری ہیں بھکاری ۔۔۔ ہمیں کس نے قرج دینا ہے بھلا؟؟؟؟" "

بس تو تھوڑا حوصلہ رکھ۔۔ ایک دو روج میں دوائی کا انتجام ہو جائے گا،،،، ۔ " پھر ایک شام جب کمالے نے چوک پہ کھڑے کھڑے اپنی رقم اور بچوں کی رقم گنی . پھر اس نے اندر کی جیب سے پچھلے دنوں کی جمع کی رقم کے ساتھ جوڑ کے گنا تووہ کتنا خوش تھا۔ 980 روپے ہو گئے تھے۔۔۔۔ وہ بچوں سمیت میڈیکل سٹور پہ گیا اور وہ ساری رقم جس میں زیادہ سکے تھے ، کاونٹر پر دھر دی۔۔ پھر ڈاکٹر کا نسخہ نکالا۔۔۔

"صاب یہ دوا دے دیں۔۔۔۔"
یہ لو، 980 کی ہے "......

"جی جی , صاب مجھے معلوم ہے۔ پچھلے کئی روز سے یہی تو یا د ہے،،، " . یہ روپے پورے ہیں ؟؟؟؟ سٹور والے نے رقم سمیٹتے ہوئے کہا۔۔ جی صاب۔ میں کئی بار گن چکا ہوں پورے ہیں۔۔۔" ۔ دوا لے کے وہ کتنا خوش تھا گویا دنیا فتح کر لی ہو۔۔۔ جیسے یہی وہ دوا ہے جو رجو کے سارے دردوں کا علاج ہے کہ کے پیتے ہی وہ چنگی بھلی ہو جائے گی۔۔۔۔ ،

"رجو

رجو

نی رجو"

وہ جھونپڑی میں چیختا چلاتا داخل ہوا

"رجو یہ لو تمہاری دوا لے آیا ہوں۔۔۔۔ رجو۔۔۔۔۔ سنتی ہو دوا لے آیا ہوں،،،،اب تمہیں درد سے آرام آجائے گا ...."

لیکن.....

رجو کو پہلے ہی آرام آچکا تھا..................................



۔ ختم شد
 

loneliness4ever

محفلین
سب سے پہلے تو یہ کہوں گا کہ میں نے یہ اتنی دیر سے کیوں پڑھا، اچھا لکھا اور مجھے یہ جملہ
پوری تحریر میں بہت اچھا لگا۔ آنکھ کے رستے دل میں اتر گیا، اس جملے میں تو
بلا کا اثر محسوس کیا میں نے، اور یہ لکھاری کی کامیابی ہی تو ہوتی ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور کیا وہاں انسانوں کے ساتھ ساتھ بھکاریوں کا بھی علاج ہوتا ہے؟؟؟؟

لوگ عموما اس پیرائے میں کم لکھتے ہیں، ڈھیروں داد قلم کار کے نام

آپ کو ایک میسج کیا ہے امید ہے توجہ فرمائیں گے
 

الف عین

لائبریرین
اچھی کہانی ہے، لیکن ریلوے سٹیشن کی قسم کی نہیں۔ اس پر ’سمت‘ میں اکثر تعریفی رائیں آ رہی ہیں
 

قیصرانی

لائبریرین
خوب۔ اچھا لکھا۔ تاہم پروفیشنل بھکاری سینکڑوں میں نہیں ہزاروں میں دیہاڑی لگاتے ہیں آج کل۔ آپ کے افسانے کے کردار شاید کئی سال پرانے ہوں :(
 

نایاب

لائبریرین
واہہہہہہہہہہہہہہہہہ
بہت خوب ہے فسانہ
بھکاریوں کا تو علم نہیں مگر مجھ جیسے سفید پوشوں پر بیتنے والی حقیقت ہے ۔
بہت دعائیں
 
واہہہہہہہہہہہہہہہہہ
بہت خوب ہے فسانہ
بھکاریوں کا تو علم نہیں مگر مجھ جیسے سفید پوشوں پر بیتنے والی حقیقت ہے ۔
بہت دعائیں
پہلے تو بہت شکریہ کہ آپ نے افسانے کے لیئے وقت نکالا اور اس اپنا تبصرہ بھی کیا۔۔
خوش رہیں آباد رہیں۔۔۔
 
Top