محمد جمیل اختر
محفلین
افسانہ برائے تبصرہ و تنقید
.
افسانہ: ہمارا درد کوئی درد ہی نہیں۔۔۔۔۔ ۔
مصنف : جمیل اختر .
.
بعض دفعہ بعض لوگوں کو دیکھ کہ یہ احساس ہوتا ہےکہ کاش یہ آپکو کہیں اور ملے ہوتے،
وقت اور حالات یہ نہ ہوتےبالکل جیسے سیمی اکرام کو دیکھ کے مجھے شدت سے احساس ہوتا تھا کہ کاش سیٹھ اکرام اتنے امیر نہ ہوتے، کاش کہ میں انکا ڈرائیور نہ ہوتا، کاش میں دس جماعت سے ذائد پڑھا ہوتا، کاش سیمی انکی بیٹی نہ ہوتی۔۔۔
انسان کے چاہنے سے تھوڑی سب کچھ ہوتا ہے۔۔ہر انسان اپنا اپنا نصیب لکھوا کے لاتا ہے،
ایک جتنی محنت ،ایک جتنا رنگ نہیں لاتی،
مجھے کوئی حق نہیں بنتا تھا سیمی سے محبت کرنے کا، لیکن محبت پوچھ کے تھوڑی ہوتی ہے، بنا پوچھے، بنا بتائے، بنا دستک دیئے، بن بلائے مہمان کی طرح۔۔۔۔ایسے میں غریب آدمی کرے بھی تو کیا .
مجھے بھی ایسے ہی محبت ہو گئی تھی، میں سیٹھ اکرام کا ڈرائیور تھا ، صبح سیمی کو یونیورسٹی چھوڑنا اور واپس لانا میرے ذمہ تھا۔۔ہمارے درمیان کوئی بات نہ ہوتی تھی۔سوائے اس دن کہ جس دن سیمی کو جلدی یا دیر سے چٹھی ہونی ہوتی تو وہ وقت بتا دیتیں کہ ، ںعیم آج چھٹی اس وقت ہونی ہے،
.
سیمی کہ منہ سے اپنا نام سن کہ اتنی خوشی ہوتی،کہ دن سارا سرشاری میں گزرتا، بعض لوگوں کہ منہ سے اپنا نام سن کہ نام ہی کچھ نیا نیا سا لگتا ہے، ایسے کہ اس طرح تو کبھی کسی نے نام لیا ہی نہیں۔۔۔
، پھر سیمی کی تعلیم مکمل ہو گئی، اب وہ گاڑی خود ڈرائیو کرتیں۔ میری ڈیوٹی تبدیل کردی گئی میں اب سیمی کہ چھوٹے بھائی کو سکول چھوڑنے جاتا تھا۔۔۔ ، پھر گھر میں سیمی کی شادی کی باتیں شروع ہو گئیں ، کوئی شہریار بابو تھے لنڈن میں رہتے تھے، سیٹھ اکرام کہ بزنس پارٹنر کہ اکلوتے صاحبزادے۔
.
. پھر ایک صبح شہریار اور انکے گھر والے آگئے ،اسی شام سیمی اور شہریار کی منگنی کر دی گئ ، شادی کی تاریخ ایک ماہ بعد کی طے کی گئی، ان دنوں مجھ پہ ہر لمحہ صدیاں بن کے گزرتا تھا، لیکن ہمارہ درد بھی کوئی درد تھا بھلا، ہماری محبت بھی کوئی محبت تھی بھلا۔، بے حیثیت ،بے وقعت۔۔۔
اس کہانی میں میرا کردار ایکسٹرا سے بھی کم تھا۔ان دنوں میرا دل کرتا کہ چیخ چیخ کہ بتا دوں کہ مجھے سیمی سے محبت ہے لیکن اس سے بھلا کیا ہوتا یہ ۷۵۰۰ والی نوکری بھی ہاتھ سے جاتی۔
.
شہریار اور انکا خاندان بھی شادی تک پاکستان ہی میں مقیم تھا ۔ ابھی شادی میں پندرہ دن رہتے تھے کہ ایک شام سیمی اپنی سہیلیوں کے ساتھ شا پنگ پہ گئی تو واپسی پہ انکی گاڑی کا ایکسیڈ ینٹ ہوگیا۔ ۔ ۔ تھوڑی دیر میں ساراخاندان ہسپتال میں تھا، سیمی کاخون کافی ذائع ہوگیا تھا ڈاکٹروں نے فوری طور پہ O Negative خون کا بندوبست کرنے کو کہا، واہ رے قسمت کہ وہاں موجود افراد میں فقط میرا ہی بلڈ گروپ O Negative تھا۔
.
خون دینے کے بعد اور سیمی کے ہوش میں آنے تک کسی نے بھی مجھےایک لفظ شکریہ کا نہیں کہا تھا ایسے کے جیسے میرا خون تو بس وافر ہی تھا۔۔۔۔ ،
.
سیمی ٹھیک ہو کہ گھر آگئی، شادی میں ایک ماہ کی تاخیر کر دی گئی تھی۔ اس شام میں گاڑی صاف کر رہا تھا جب دونوں خاندان لان میں شام کی چائے پی رہے تھے۔ کسی نے سیمی سے پوچھا تھا سیمی تمھیں معلوم ہے جب تمہارہ ایکسیڈینٹ ہوا تو تمیں خون کس نے ڈونیٹ کیا تھا
۔سوال سن کہ میرا دل دھڑک اٹھا کہ ابھی میرا نام آئے گا، وہی سرشاری، اسی طرح نیا نیانام گویاسیمی کو بلڈ دونٹ کرنا اور اسکے منہ سے اپنا نام سننا ہی میری محبت کا عروج ہو۔۔۔
۔پھر سیمی کی آواز آئی۔
" i , think it's Shehryar"
تالیاں بجنے لگیں تھیں
..........."exactly,
Wao,
amazing,
"....... its called a true love"
.
افسانہ: ہمارا درد کوئی درد ہی نہیں۔۔۔۔۔ ۔
مصنف : جمیل اختر .
.
بعض دفعہ بعض لوگوں کو دیکھ کہ یہ احساس ہوتا ہےکہ کاش یہ آپکو کہیں اور ملے ہوتے،
وقت اور حالات یہ نہ ہوتےبالکل جیسے سیمی اکرام کو دیکھ کے مجھے شدت سے احساس ہوتا تھا کہ کاش سیٹھ اکرام اتنے امیر نہ ہوتے، کاش کہ میں انکا ڈرائیور نہ ہوتا، کاش میں دس جماعت سے ذائد پڑھا ہوتا، کاش سیمی انکی بیٹی نہ ہوتی۔۔۔
انسان کے چاہنے سے تھوڑی سب کچھ ہوتا ہے۔۔ہر انسان اپنا اپنا نصیب لکھوا کے لاتا ہے،
ایک جتنی محنت ،ایک جتنا رنگ نہیں لاتی،
مجھے کوئی حق نہیں بنتا تھا سیمی سے محبت کرنے کا، لیکن محبت پوچھ کے تھوڑی ہوتی ہے، بنا پوچھے، بنا بتائے، بنا دستک دیئے، بن بلائے مہمان کی طرح۔۔۔۔ایسے میں غریب آدمی کرے بھی تو کیا .
مجھے بھی ایسے ہی محبت ہو گئی تھی، میں سیٹھ اکرام کا ڈرائیور تھا ، صبح سیمی کو یونیورسٹی چھوڑنا اور واپس لانا میرے ذمہ تھا۔۔ہمارے درمیان کوئی بات نہ ہوتی تھی۔سوائے اس دن کہ جس دن سیمی کو جلدی یا دیر سے چٹھی ہونی ہوتی تو وہ وقت بتا دیتیں کہ ، ںعیم آج چھٹی اس وقت ہونی ہے،
.
سیمی کہ منہ سے اپنا نام سن کہ اتنی خوشی ہوتی،کہ دن سارا سرشاری میں گزرتا، بعض لوگوں کہ منہ سے اپنا نام سن کہ نام ہی کچھ نیا نیا سا لگتا ہے، ایسے کہ اس طرح تو کبھی کسی نے نام لیا ہی نہیں۔۔۔
، پھر سیمی کی تعلیم مکمل ہو گئی، اب وہ گاڑی خود ڈرائیو کرتیں۔ میری ڈیوٹی تبدیل کردی گئی میں اب سیمی کہ چھوٹے بھائی کو سکول چھوڑنے جاتا تھا۔۔۔ ، پھر گھر میں سیمی کی شادی کی باتیں شروع ہو گئیں ، کوئی شہریار بابو تھے لنڈن میں رہتے تھے، سیٹھ اکرام کہ بزنس پارٹنر کہ اکلوتے صاحبزادے۔
.
. پھر ایک صبح شہریار اور انکے گھر والے آگئے ،اسی شام سیمی اور شہریار کی منگنی کر دی گئ ، شادی کی تاریخ ایک ماہ بعد کی طے کی گئی، ان دنوں مجھ پہ ہر لمحہ صدیاں بن کے گزرتا تھا، لیکن ہمارہ درد بھی کوئی درد تھا بھلا، ہماری محبت بھی کوئی محبت تھی بھلا۔، بے حیثیت ،بے وقعت۔۔۔
اس کہانی میں میرا کردار ایکسٹرا سے بھی کم تھا۔ان دنوں میرا دل کرتا کہ چیخ چیخ کہ بتا دوں کہ مجھے سیمی سے محبت ہے لیکن اس سے بھلا کیا ہوتا یہ ۷۵۰۰ والی نوکری بھی ہاتھ سے جاتی۔
.
شہریار اور انکا خاندان بھی شادی تک پاکستان ہی میں مقیم تھا ۔ ابھی شادی میں پندرہ دن رہتے تھے کہ ایک شام سیمی اپنی سہیلیوں کے ساتھ شا پنگ پہ گئی تو واپسی پہ انکی گاڑی کا ایکسیڈ ینٹ ہوگیا۔ ۔ ۔ تھوڑی دیر میں ساراخاندان ہسپتال میں تھا، سیمی کاخون کافی ذائع ہوگیا تھا ڈاکٹروں نے فوری طور پہ O Negative خون کا بندوبست کرنے کو کہا، واہ رے قسمت کہ وہاں موجود افراد میں فقط میرا ہی بلڈ گروپ O Negative تھا۔
.
خون دینے کے بعد اور سیمی کے ہوش میں آنے تک کسی نے بھی مجھےایک لفظ شکریہ کا نہیں کہا تھا ایسے کے جیسے میرا خون تو بس وافر ہی تھا۔۔۔۔ ،
.
سیمی ٹھیک ہو کہ گھر آگئی، شادی میں ایک ماہ کی تاخیر کر دی گئی تھی۔ اس شام میں گاڑی صاف کر رہا تھا جب دونوں خاندان لان میں شام کی چائے پی رہے تھے۔ کسی نے سیمی سے پوچھا تھا سیمی تمھیں معلوم ہے جب تمہارہ ایکسیڈینٹ ہوا تو تمیں خون کس نے ڈونیٹ کیا تھا
۔سوال سن کہ میرا دل دھڑک اٹھا کہ ابھی میرا نام آئے گا، وہی سرشاری، اسی طرح نیا نیانام گویاسیمی کو بلڈ دونٹ کرنا اور اسکے منہ سے اپنا نام سننا ہی میری محبت کا عروج ہو۔۔۔
۔پھر سیمی کی آواز آئی۔
" i , think it's Shehryar"
تالیاں بجنے لگیں تھیں
..........."exactly,
Wao,
amazing,
"....... its called a true love"