اورنگ زیب مصباحی
محفلین
چھپا رستم
نیک سرشت،شریف الطبع،متوسط گھرانے سے سے تعلق رکھنے والا سمیر گاؤں کا ایک باشندہ تھا،گاؤں کے اسے محلے میں ایک حسین دوشیزہ، شائستہ بھی رہتی تھی،دونوں کے گھر قریب قریب تھے،شائستہ عمر میں سمیر سے غالبا دو تین سال چھوٹی ہوگی،وہ وہاں کے ایک سرکاری اسکول میں زیر تعلیم تھی،نہایت حسین،شگفتہ لب، انسانی پیکر میں مہ کامل،یہ حسینہ آگے چل کر سمیر کی محبت کا شکار ہوگی،اس نے سوچا تک نہ ہوگا۔
سمیرشکل و صورت میں شائستہ سے بہت دور تھا مگر محبت حسن وزیبائش،کو کہاں دیکھتی ہے۔شائستہ کا مسحورکن حسن اس کے دل و دماغ پر حاوی ہو چکا تھالیکن اس کے باوجود سمیر کو کبھی اتنی ہمت نہ ہوئی کہ اپنی اس یکطرفہ محبت کو زبان پر لائے،شائستہ کے سامنے اظہار کرے۔اس طرح طویل مدت گزرنے کے بعد بھی وہ اظہار محبت کی ہمت نہ کرسکا لیکن اس کی زندگی میں اس وقت سخت موڑ آیاجب اسے اس کے ایک قریبی دوست خالد نے یہ بتایا کہ وہ شائستہ سے بے پناہ پیار کرتا ہے اور اس پیار کو ازدواجی زندگی میں بدلنے کامتمنی ہے،شائستہ اور خالد ایک ہی اسکول میں تعلیم حاصل کرچکے تھے،ان کے مابین بے تکلفانہ بات چیت بھی ہوا کرتی تھی،لہذا خالد کے لیے اس راہ میں کوئی مانع نہ تھا۔البتہ سمیر کے راستے میں رکاوٹوں کا امکان تھا۔مگر وہ احساس وفا اورعشق ومحبت میں گہرائی و گیرائی کا حامل اور دوسروں کی خاطر اپنی خواہشات و جذبات کو قربان کرنے میں عدیم المثال تھا۔
خالد اورشائستہ باہم خوب گھلنے ملنے لگے،وہ عشق وعرفان کی منازل طے کر ہی رہے تھے کہ چند وجوہ کی بنا پر ان کے مابین دراڑیں پڑنے لگیں وہ اس طرح جدا ہوگئے کہ دوبارہ کسی کو باہم رابطہ کرنے کا اشتیاق نہ ہوا،اس طرح شادی کے تعلق سے اس کے اپنی آنکھوں میں سجاے ہوے تمام خواب وخیالات یکدم چکناچور ہوگئے۔سمیر کو جب ان دونوں کےمتعلق پتا چلا کہ ان کی محبت پارہ پارہ ہو گئی،تووہ اندر ہی اندر خوشی محسوس کرنے لگا مگر بر بناے دوستی خوشی کے آثار چہرے پر نمایاں نہ ہونے دیے۔اسے ایسا لگ رہا تھا کہ خوشیوں نے دوبارہ اس کی چوکھٹ پر دستک دی ہے۔
سمیر کا راستہ صاف ہوا ہی تھا کہ ایک بار پھر اس کے سر پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے٬دراصل شائستہ کی خالہ اپنے اکلوتے بیٹے کامران کو شائستہ سے منسوب کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں،یہ سب کچھ سن کر سمیر بے حال ہو گیا،اس کے لیے اپنے جذبات پر قابو پانامشکل ہوگیا اور اس نے یہ طے کرلیا کہ اب وہ شائستہ کے سامنے محبت کا اظہار کرکے ہی سانس لے گا۔اس نے اپنی ایک قریبی دوست سائمہ(جواس سے یکطرفہ محبت کرتی تھی) سے رابطہ کیا، اس کی تفصیل طوالت کے سبب صرف نظر کی جاتی ہے،سمیر اسے اپنی اچھی دوست تصور کرتا تھا،اپنی ہر خوشی وغمی میں اسے شریک رکھتا،بغیر اس سے مشورہ کیے کوئی کام انجام نہ دیتا تھا۔
سائمہ کے والد کی محلے میں ایک چھوٹی سی شاپ تھی جس کی دیکھ ریکھ سائمہ ہی کے ذمہ رہتی،یہیں دن کے آخری پہر ان دونوں کی طویل ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں،نہ جانے سمیر کی کون سی اداے دلربائی نےسائمہ کا دل جیت لیا تھا،سائمہ کارشتہ طےہو جانے کے بعد ایک دن جب سمیر کو پتا چلا کہ وہ اس سے بے پناہ محبت کرتی تھی،اس سے شادی کرنا چاہتی تھی مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو وہ کافی مایوس ہوا کہ کاش اس نے سائمہ کے جذبات مجروح نہ کیے ہوتے،کیونکہ سائمہ اور شائستہ حسن میں تقریبا یکساں تھیں،فرق تھا تو اخلاق حسنہ،احساس وفا،پاس ولحاظ اور جذبہ و ایثار کا،ان سب میں وہ شائستہ پر سبقت لے گئی تھی،لہذا مذکورہ صفات کی حامل شریک حیات کو گنوانے پر اس کا غم زدہ ہونا لازمی تھا۔
وہ شرمندہ سرنگوں آج پھر سائمہ کی شاپ پہ گیا مگر آج کی یہ محفل دوسری محفلوں سے الگ تھلگ تھی،اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب امنڈ نے والا تھا،بدن لرز رہا تھا، بات بھی رک رک کر نکل رہی تھی،شام کا وقت تھا،آسمان کی نیلی چادر پر بادل قبضہ جماے ہوے تھے،بادلوں کی وجہ سے تاریکیوں کا چھانا ضروری تھا،تھوڑی بہت بوندا بوندی بھی ہو رہی تھی۔
''سمیر کیا ہوگیا؟تم کافی پریشان لگ رہے ہو بتاؤ مجھے پلیز'' اس کی یہ حالت زار دیکھ کر گھبراتے ہوے،دبی دبی آواز میں سائمہ بولی۔
''میں نے سب کچھ کھو دیا،اب میں بے سہارا،تنہا ہو گیا ہوں،اس دنیا میں اب کوئی نہ رہا جو مجھے دوست کہہ کر پکارے،اپنے،رازونیاز سے آگاہ کرے،اچھے اچھے مشوروں سے نوازے''سمیر ندامت بھری آواز میں سرجھکائے بولا،اس کی آنکھوں میں موجود آنسوں کا سیلاب دھیرے دھیرے رخساروں کو پار کرنے لگا۔''بتاؤ گے بھی کہ کیا ہوا،یا اسی طرح روتے رہو گے'' اس نے سمیر کو ٹوکتے ہوے سوال کیا۔
''سائمہ پلیز مجھے معاف کر دینا میں نے تمہارے ساتھ بہت برا کیا،تمہیں دھوکہ دیا،کچھ دیر باہم خوب گلے شکوے کرنے کے بعد یہ محفل برخواست ہوگئی۔
دوسرے دن وہ دونوں(سمیر اور سائمہ)اپنے عارضی مکان(جو کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں،گرمی کے ایام گزارنے کے لیےبناے جاتے ہیں)کو چل دیے دن بھر وہاں موجود اپنے اہل خانہ اور دیگر اعزا و اقربا سے مل جل کر شام کو اپنے اصل گھر(جہاں مستقل قیام ہوتا تھا) لوٹنے لگے،اتفاقا دونوں کو واپسی کا سفر ایک ساتھ طے کرناتھا،چناں چہ وہ رخت سفر باندھ کر ایک ساتھ چل دیے،سفر شروع ہوتے ہی گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہو گیا،دو گھنٹے کا یہ طویل سفر پیدل چل کر ہی کاٹنا تھا اس لیے انہیں بات چیت کا ایک خوشگوار موقع میسر آگیا۔
''سائمہ تمہارے دل پر کیا گزر رہی ہوگی نا جو میں نے تمہیں اتنا بڑا دھوکا دیا،اب تو مجھے خود سے بھی گھن سی آنے لگی ہے'' سمیر نے سائمہ کے ہرے بھرے زخموں پر مرہم لگانے کی کوشش کی۔
''پھر تم نے وہی لایعنی باتیں شروع کردیں،پلیز چھوڑو بھی اب ان سب باتوں کو''شاید وہ بور ہونے لگی تھی۔
''نہیں میرا مقصد تمہارے پرانے زخم تازہ کرنا نہیں، میں تو صرف یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ جب انسان دل و جان سے کسی کا گرویدہ ہو جائے تب بھی وہ اسے پانے میں ناکام رہے تو واقعی اس کا دل پارہ پارہ ہو جاتا ہے،میں تمہارا درد جانتا ہوں اس لئے کہ میرے ساتھ بھی شائستہ نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔'' لفظ شائستہ زبان سے نکلا ہی تھا کہ وہ خاموش ہوگیا،اپنے سر پر ہاتھ مارنے لگا کہ سائمہ کی اس حالت میں میری یہ ادھوری کہانی کہیں اسے مزید پریشان نہ کردے۔سائمہ بھی لفظ ''شائستہ'' سنتے ہی چونک گئی۔
''اس سے پہلے کہ میں تمہیں اس تعلق سے بار بار سوال کروں اور تم مجھے ہر بار ٹالنے کی کوشش کرو،تمہیں میری قسم میرے سر پر ہاتھ رکھ کر سچ سچ بتاو کہ معاملہ کیا ہے،تم کہیں نہ کہیں مجھ سے کچھ چھپانے کی کوشش کرتے چلے آ رہے ہو، مجھے تو اسی دن شاپ ہی پہ کچھ سک سا ہونے لگا تھا،مگر میں نے خاموشی اختیار کرنا مناسب سمجھا،لیکن اب مزید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔''وہ فورا اس سے راز اگلوانے کے درپے تھی۔
''ارے جانے دو شائستہ کبھی کبھی انسان کے منہ سے ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں جن سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا یا علاقہ تو ہوتا ہے مگر مقدر ساتھ چھوڑ دیتےہیں"وہ دم بدم غم میں ڈوبتاجا رہاتھا۔اولا تو وہ ہچکچانے لگامگر دوست کی ضد کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا اورسب کچھ تفصیل سے بتانے لگا،جوں جوں سفر کٹتا گیا،اس کے راز ہاے سربستہ بھی یکے بعد دیگرے فاش ہوتے گئے۔
''سائمہ میں نے کسی مصلحت کے تحت تمھیں ان سب باتوں سے ناآشنا رکھا تھا،اب جب تمہیں سب کچھ پتا چل ہی گیاہے تو پلیز میری خاطر میرا یہ چھوٹا سا کام کردو،عمر بھر تمہارا احسان مند رہوں گا''
''مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کہ مجھے کیا کرنا ہے کیا نہیں،تم صرف تماشائی بن کر دیکھتے رہو کہ کیسے میں شائستہ کو تمہارے قدموں میں لا کھڑا کرتی ہوں اگر ایسا نہ کیا تو میرا نام بھی سائمہ نہیں'' خیر یہ سب جملے تو اس کا دل رکھنے کے لیے اس نے کہے تھے،یہ کام اتنا آسان نہ تھا جتنا اس نے چند لفظوں میں بیان کر دیا۔ سفر بھی ختم ہونے کو تھا دونوں ایک دوسرے کو الوداع کہتےہوے اپنے اپنے گھر چل دیے۔
سائمہ اور شائستہ ایک ہی اسکول میں زیر تعلیم تھیں مگر باہم زیادہ گفت و شنید نہ تھی،اگلے دن معمول کے مطابق شائستہ اسکول سے واپسی پر سائمہ کی شاپ پہ رکی،باہم خیروعافیت کےبعد سائمہ پہیلیوں ہی پہیلیوں میں اسے کہنے لگی:''شائستہ اگر تم جیسی مہ جبیں دوشیزہ،انسانی پیکر میں مہ کامل کی ضیاپاشیاں کسی کو زیادہ ہی بھا جائیں اور وہ تمہارے حسن کی ہلاکت آفریں وار کا نشانہ بن کر دست بستہ تمہیں پیغام محبت بھیجے تو تم کیا کرو گی؟؟''
''بھلا مجھے کوئی ایسا پیغام کیوں بھیجے گا'' "بالفرض اگر کوئی بھیج دے تو'' وہ فورا شائستہ کی بات کاٹتے ہوے بولی۔
'' اسی وقت دیکھا جاے گا،لیکن آج تم اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کیوں کر رہی ہو''قدرے تصویر حیرت بنے رہنے کے بعداپنی سرخ گالوں پر سے عطر برساتی ہوئیں عنبریں زلفیں ہٹاکر،موج نور میں غرق اس مہ کامل نے اپنے مخصوص معصومانہ انداز اور مسرور لب و لہجے میں جواب دیا۔
''شائستہ دراصل ایک چھپا رستم ہےجو تمہاری محبت میں دن بدن مستغرق ہوتا جا رہا ہے،تمہاری چاہت اس کی غذا بن چکی ہے،وہ شب و روز تمہاری یادوں میں الجھا رہتا ہے،وہ اپنی یکطرفہ محبت کو زبان پر تو نہیں لاتا مگر میں نے اس کی اداس خاموشی میں تمہیں محسوس کیا ہے،تمہارا عشق اس کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے۔''
''بس بس،ذرا رک بھی جاو یار،یہ تو بتادو کہ وہ ہے کون؟؟''
''تم خاموشی سے سنو کی یا پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔''
''اچھا چلو تم ہی بولتی رہو''شائستہ تو یہ ظاہر کر رہی تھی کہ وہ ان سب باتوں سے بور ہو رہی ہے مگر دل میں اس اسم مبارک کا اشتیاق بڑھتا جا رہا تھا۔
''ذرا سوچو شائستہ،اتنا سب کرنے کے بعد بھی اگر وہ تم سے محروم رہا تو اس کے دل پر کیا گزرے گی،وہ کیسے اس جہاں میں زندہ رہ پاے گا،اب تو اس نے اپنے شب و روز کے مشاغل سے بھی منہ موڑنا شروع کردیا ہے'' یہ سب کہتے کہتے سائمہ کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔
''سائمہ تم تو جانتی ہو کہ یہ پیار وار صرف دھوکا ہوتا ہے،اس کے علاوہ کچھ نہیں،اصلی عاشق آج اس دنیا میں کہاں ملتے ہیں''شاید اس کے ساتھ پیش آے گزشتہ حادثے نے اسے یہ کہنے پر مجبور کیاہوگا۔
''میں تمہاری بات سے متفق نہیں ہوں،ڈھونڈنے والے اہل نظر ہونے چاہیے،عشاق توآج بھی موجود ہیں،یہ بات الگ ہے کہ کمیاب ہیں''
''مطلب تم پیچھا چھوڑنے والی نہیں ہو،مگر کیا میں موصوف کے اسم مبارک سے روشناس ہو سکتی ہوں''
''جی بلکل،اس کا نام سمیر ہے"
''سمیر''
شائستہ یہ نام سنتے ہی تعجب میں پڑ گئی اور پھر قدرے توقف کے بعد بولی۔
''دوبارہ اس طرح کی باتیں میرے سامنے مت کرنا ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔''وہ غضب ناک ہو رہی تھی، اتنا کہتے ہوئے وہ شاپ سے نکل کر گھر کو چل دی،اس قدر حسین و جمیل دوشیزہ کا اپنے حسن پر تھوڑا تکبر کرنا تو اس کا حق بنتا ہی تھا،آج جب وہ گھر پہنچی تو حیران و پریشان تھی،معمول کے برخلاف آج فوراّ اپنے حجرہ خاص میں داخل ہوگئی اورسیدھی آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی کہ میں بھی تو دیکھوں،آخر مجھ میں ہے کیا جو عشاق کے نیزے سیدھے مجھ پر ہی وار کرتے ہیں۔وہ اپنے گھونگرے بال کھولے،اپنی سرخ گالوں کی جادوئی کرنوں کو بکھیر تے،پتلی کمر پر نرم و نازک ہاتھ رکھ کر مسلسل آئینے کو مسحور کیے جارہی تھی،گویا آئینہ کہہ رہا تھا کہ اے ملکہ حسن!کاش میں بھی ایک بشر ہوتااور آپ کے حسن لازوال کی منور شعاوں سے اپنی تاریک راتوں کو جگمگاسکتا،خیر اب اپنے اس حسن قیامت خیز کو سامنے سے ہٹا بھی دو،کہیں میں پھٹنے پر مجبور نہ ہو جاؤں،شائستہ برآمدے میں آکر مستی میں انگڑائی لینے لگی تبھی اس کی نظر سمیر پر پڑی کہ وہ کڑاکے کی سردی سے بےخوف،روئی دار کشمیری چادر اوڑھے،مسلسل اس کی طرف اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے کوئی گھنے بادلوں میں سے اچانک چاند کے نکل آنے کا منتظر ہو،وہ اسے دیکھتے ہی اپنے روم میں واپس چلی گئی،اس کا سکون واطمینان چھننے لگا،اب وہ کھڑکی سے چھپ کر اسے دیکھنے لگی،سائمہ نے سمیر کے تعلق سے اسے جو باتیں کہی تھیںں وہ یکے بعد دیگرے اس پر اثر انداز ہونے لگیں، شائستہ جیسی سخت انسان کا دل بھی اس منظر نامے پر رفتہ رفتہ پگھلنے لگا،اس کے دماغ میں کئی سوالات جنم لینے لگے کہ کیا واقعی سمیر اسے اتنا زیادہ چاہتا ہے؟؟حقیقتا وہ دیوانگی میں یکتاے روزگار ہے؟؟ سورج غروب ہو چکا تھا،تاریکیاں مکمل طور پر ڈیرہ ڈال چکی تھیں،لوگ نیند سے سرشار ہونے لگے وہ بھی آغوش خواب میں مست ہو گئی۔ادھر سمیر نے جب سے یہ سنا تھا کہ شائستہ نے صاف انکار کردیا ہے،اب اس کی امیدوں کا چراغ جلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے،وہ مزید رنج و الم میں ڈوبنے لگا،اس کی نیندیں حرام ہو چکی تھیں لیکن اس بے چارے کو کیا خبر کہ کل کا دن اس کی زندگی کا سب سے اہم دن ہوگا،اس کی مایوس زندگی میں نئی امنگیں،خوشیاں لاے گا،اگلے دن صبح شائستہ نے بیماری کا بہانہ کرکے اسکول جانے سے انکار کردیا،سورج نکلتے ہی اول فرصت میں وہ سمیر کے گھر آئی،چوں کہ وہاں اس کی خالہ تھی جس کے پاس اس کا آناجانا لگا رہتا تھا وہاں پہنچ کر سلام،دعا کے بعدسب سے پہلے اپنے ننھے بھانجے ارقم کو اپنی باہوں میں لیے آنگن میں گھومنے لگی۔ شائستہ کافی بے چین تھی وہہ ارقم کو اٹھاے چپکے سے سمیر کے کمرے میں داخل ہوگئی کہ اچانک اس کی نظر ایک سرخ رنگ کی ڈائری پر پڑی،اٹھا کر دیکھا تووہ انگشت بہ دنداں رہ گئی کہ مابدولت نے اپنی ملکہ حسن کی شان میں قصیدوں کے انبار لگائے ہیں،ادھر سمیر بھی ناشتہ پانی کے لیے کچن کی طرف جانے لگا،کچن کا راستہ سمیر کے کمرے سے متصل تھا ۔وہ جاہی رہا تھا کہ اس کی نظر شائستہ کی خوبصورت چپلوں پر پڑگئی،اولا تو اس نے سوچا کہ شاید بھابھی جی شائستہ کی چپل پہن کر آئیں ہوں گی،مگر تسکین قلب کے لیے کمرے میں جھانکنا ضروری سمجھا،شائستہ نے قدموں کی آہٹ پاتے ہی،ڈائری کو واپس اس کی جگہ رکھ دیا مگر سمیر نے سب کچھ دیکھ لیا تھا،پہلے تو شائستہ نے شرما تے ہوئے بے رخی کا مظاہرہ کیا مگر وہ زیادہ دیر اس حالت میں نہ رہ سکی،سمیر بھی حیران و پریشاں ہو نے لگا۔''ویسے ہی میں نے ٹائم پاس کے لیے تھوڑا بہت لکھنے کی کوشش کی تھی'' سمیر مجرمانہ لب و لہجے میں بولا،مگر اس کے کچھ کچھ میں اتنا کچھ تھا کہ شائستہ اس کے ذہن میں پھیلتے رنگ ونور کے سایوں سے خوب متعارف ہو گئی تھی،اب کیا،ایک نشتر تھا جو جگر کے آر پار ہوگیا۔شائستہ نے بے خوف و خطر اسے گلے لگا لیا اس کی آنکھیں اشکبار تھیں۔اس طرح دونوں کے مابین لگاؤ و محبت سے بھرپور جملوں کا تبادلہ ہونے لگا،گوکہ دونوں نے آج ایک نئی زندگی کی شروعات کی ہو۔
اورنگ زیب
پونچھ،جموں وکشمیر
(موبائل نمبرحذف کیا گیا)
نیک سرشت،شریف الطبع،متوسط گھرانے سے سے تعلق رکھنے والا سمیر گاؤں کا ایک باشندہ تھا،گاؤں کے اسے محلے میں ایک حسین دوشیزہ، شائستہ بھی رہتی تھی،دونوں کے گھر قریب قریب تھے،شائستہ عمر میں سمیر سے غالبا دو تین سال چھوٹی ہوگی،وہ وہاں کے ایک سرکاری اسکول میں زیر تعلیم تھی،نہایت حسین،شگفتہ لب، انسانی پیکر میں مہ کامل،یہ حسینہ آگے چل کر سمیر کی محبت کا شکار ہوگی،اس نے سوچا تک نہ ہوگا۔
سمیرشکل و صورت میں شائستہ سے بہت دور تھا مگر محبت حسن وزیبائش،کو کہاں دیکھتی ہے۔شائستہ کا مسحورکن حسن اس کے دل و دماغ پر حاوی ہو چکا تھالیکن اس کے باوجود سمیر کو کبھی اتنی ہمت نہ ہوئی کہ اپنی اس یکطرفہ محبت کو زبان پر لائے،شائستہ کے سامنے اظہار کرے۔اس طرح طویل مدت گزرنے کے بعد بھی وہ اظہار محبت کی ہمت نہ کرسکا لیکن اس کی زندگی میں اس وقت سخت موڑ آیاجب اسے اس کے ایک قریبی دوست خالد نے یہ بتایا کہ وہ شائستہ سے بے پناہ پیار کرتا ہے اور اس پیار کو ازدواجی زندگی میں بدلنے کامتمنی ہے،شائستہ اور خالد ایک ہی اسکول میں تعلیم حاصل کرچکے تھے،ان کے مابین بے تکلفانہ بات چیت بھی ہوا کرتی تھی،لہذا خالد کے لیے اس راہ میں کوئی مانع نہ تھا۔البتہ سمیر کے راستے میں رکاوٹوں کا امکان تھا۔مگر وہ احساس وفا اورعشق ومحبت میں گہرائی و گیرائی کا حامل اور دوسروں کی خاطر اپنی خواہشات و جذبات کو قربان کرنے میں عدیم المثال تھا۔
خالد اورشائستہ باہم خوب گھلنے ملنے لگے،وہ عشق وعرفان کی منازل طے کر ہی رہے تھے کہ چند وجوہ کی بنا پر ان کے مابین دراڑیں پڑنے لگیں وہ اس طرح جدا ہوگئے کہ دوبارہ کسی کو باہم رابطہ کرنے کا اشتیاق نہ ہوا،اس طرح شادی کے تعلق سے اس کے اپنی آنکھوں میں سجاے ہوے تمام خواب وخیالات یکدم چکناچور ہوگئے۔سمیر کو جب ان دونوں کےمتعلق پتا چلا کہ ان کی محبت پارہ پارہ ہو گئی،تووہ اندر ہی اندر خوشی محسوس کرنے لگا مگر بر بناے دوستی خوشی کے آثار چہرے پر نمایاں نہ ہونے دیے۔اسے ایسا لگ رہا تھا کہ خوشیوں نے دوبارہ اس کی چوکھٹ پر دستک دی ہے۔
سمیر کا راستہ صاف ہوا ہی تھا کہ ایک بار پھر اس کے سر پر خطرات کے بادل منڈلانے لگے٬دراصل شائستہ کی خالہ اپنے اکلوتے بیٹے کامران کو شائستہ سے منسوب کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں،یہ سب کچھ سن کر سمیر بے حال ہو گیا،اس کے لیے اپنے جذبات پر قابو پانامشکل ہوگیا اور اس نے یہ طے کرلیا کہ اب وہ شائستہ کے سامنے محبت کا اظہار کرکے ہی سانس لے گا۔اس نے اپنی ایک قریبی دوست سائمہ(جواس سے یکطرفہ محبت کرتی تھی) سے رابطہ کیا، اس کی تفصیل طوالت کے سبب صرف نظر کی جاتی ہے،سمیر اسے اپنی اچھی دوست تصور کرتا تھا،اپنی ہر خوشی وغمی میں اسے شریک رکھتا،بغیر اس سے مشورہ کیے کوئی کام انجام نہ دیتا تھا۔
سائمہ کے والد کی محلے میں ایک چھوٹی سی شاپ تھی جس کی دیکھ ریکھ سائمہ ہی کے ذمہ رہتی،یہیں دن کے آخری پہر ان دونوں کی طویل ملاقاتیں ہوا کرتی تھیں،نہ جانے سمیر کی کون سی اداے دلربائی نےسائمہ کا دل جیت لیا تھا،سائمہ کارشتہ طےہو جانے کے بعد ایک دن جب سمیر کو پتا چلا کہ وہ اس سے بے پناہ محبت کرتی تھی،اس سے شادی کرنا چاہتی تھی مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو وہ کافی مایوس ہوا کہ کاش اس نے سائمہ کے جذبات مجروح نہ کیے ہوتے،کیونکہ سائمہ اور شائستہ حسن میں تقریبا یکساں تھیں،فرق تھا تو اخلاق حسنہ،احساس وفا،پاس ولحاظ اور جذبہ و ایثار کا،ان سب میں وہ شائستہ پر سبقت لے گئی تھی،لہذا مذکورہ صفات کی حامل شریک حیات کو گنوانے پر اس کا غم زدہ ہونا لازمی تھا۔
وہ شرمندہ سرنگوں آج پھر سائمہ کی شاپ پہ گیا مگر آج کی یہ محفل دوسری محفلوں سے الگ تھلگ تھی،اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب امنڈ نے والا تھا،بدن لرز رہا تھا، بات بھی رک رک کر نکل رہی تھی،شام کا وقت تھا،آسمان کی نیلی چادر پر بادل قبضہ جماے ہوے تھے،بادلوں کی وجہ سے تاریکیوں کا چھانا ضروری تھا،تھوڑی بہت بوندا بوندی بھی ہو رہی تھی۔
''سمیر کیا ہوگیا؟تم کافی پریشان لگ رہے ہو بتاؤ مجھے پلیز'' اس کی یہ حالت زار دیکھ کر گھبراتے ہوے،دبی دبی آواز میں سائمہ بولی۔
''میں نے سب کچھ کھو دیا،اب میں بے سہارا،تنہا ہو گیا ہوں،اس دنیا میں اب کوئی نہ رہا جو مجھے دوست کہہ کر پکارے،اپنے،رازونیاز سے آگاہ کرے،اچھے اچھے مشوروں سے نوازے''سمیر ندامت بھری آواز میں سرجھکائے بولا،اس کی آنکھوں میں موجود آنسوں کا سیلاب دھیرے دھیرے رخساروں کو پار کرنے لگا۔''بتاؤ گے بھی کہ کیا ہوا،یا اسی طرح روتے رہو گے'' اس نے سمیر کو ٹوکتے ہوے سوال کیا۔
''سائمہ پلیز مجھے معاف کر دینا میں نے تمہارے ساتھ بہت برا کیا،تمہیں دھوکہ دیا،کچھ دیر باہم خوب گلے شکوے کرنے کے بعد یہ محفل برخواست ہوگئی۔
دوسرے دن وہ دونوں(سمیر اور سائمہ)اپنے عارضی مکان(جو کشمیر کے پہاڑی علاقوں میں،گرمی کے ایام گزارنے کے لیےبناے جاتے ہیں)کو چل دیے دن بھر وہاں موجود اپنے اہل خانہ اور دیگر اعزا و اقربا سے مل جل کر شام کو اپنے اصل گھر(جہاں مستقل قیام ہوتا تھا) لوٹنے لگے،اتفاقا دونوں کو واپسی کا سفر ایک ساتھ طے کرناتھا،چناں چہ وہ رخت سفر باندھ کر ایک ساتھ چل دیے،سفر شروع ہوتے ہی گفت و شنید کا سلسلہ شروع ہو گیا،دو گھنٹے کا یہ طویل سفر پیدل چل کر ہی کاٹنا تھا اس لیے انہیں بات چیت کا ایک خوشگوار موقع میسر آگیا۔
''سائمہ تمہارے دل پر کیا گزر رہی ہوگی نا جو میں نے تمہیں اتنا بڑا دھوکا دیا،اب تو مجھے خود سے بھی گھن سی آنے لگی ہے'' سمیر نے سائمہ کے ہرے بھرے زخموں پر مرہم لگانے کی کوشش کی۔
''پھر تم نے وہی لایعنی باتیں شروع کردیں،پلیز چھوڑو بھی اب ان سب باتوں کو''شاید وہ بور ہونے لگی تھی۔
''نہیں میرا مقصد تمہارے پرانے زخم تازہ کرنا نہیں، میں تو صرف یہ کہنا چاہ رہا ہوں کہ جب انسان دل و جان سے کسی کا گرویدہ ہو جائے تب بھی وہ اسے پانے میں ناکام رہے تو واقعی اس کا دل پارہ پارہ ہو جاتا ہے،میں تمہارا درد جانتا ہوں اس لئے کہ میرے ساتھ بھی شائستہ نے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔'' لفظ شائستہ زبان سے نکلا ہی تھا کہ وہ خاموش ہوگیا،اپنے سر پر ہاتھ مارنے لگا کہ سائمہ کی اس حالت میں میری یہ ادھوری کہانی کہیں اسے مزید پریشان نہ کردے۔سائمہ بھی لفظ ''شائستہ'' سنتے ہی چونک گئی۔
''اس سے پہلے کہ میں تمہیں اس تعلق سے بار بار سوال کروں اور تم مجھے ہر بار ٹالنے کی کوشش کرو،تمہیں میری قسم میرے سر پر ہاتھ رکھ کر سچ سچ بتاو کہ معاملہ کیا ہے،تم کہیں نہ کہیں مجھ سے کچھ چھپانے کی کوشش کرتے چلے آ رہے ہو، مجھے تو اسی دن شاپ ہی پہ کچھ سک سا ہونے لگا تھا،مگر میں نے خاموشی اختیار کرنا مناسب سمجھا،لیکن اب مزید۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔''وہ فورا اس سے راز اگلوانے کے درپے تھی۔
''ارے جانے دو شائستہ کبھی کبھی انسان کے منہ سے ایسے الفاظ نکل جاتے ہیں جن سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا یا علاقہ تو ہوتا ہے مگر مقدر ساتھ چھوڑ دیتےہیں"وہ دم بدم غم میں ڈوبتاجا رہاتھا۔اولا تو وہ ہچکچانے لگامگر دوست کی ضد کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوگیا اورسب کچھ تفصیل سے بتانے لگا،جوں جوں سفر کٹتا گیا،اس کے راز ہاے سربستہ بھی یکے بعد دیگرے فاش ہوتے گئے۔
''سائمہ میں نے کسی مصلحت کے تحت تمھیں ان سب باتوں سے ناآشنا رکھا تھا،اب جب تمہیں سب کچھ پتا چل ہی گیاہے تو پلیز میری خاطر میرا یہ چھوٹا سا کام کردو،عمر بھر تمہارا احسان مند رہوں گا''
''مجھے بتانے کی ضرورت نہیں کہ مجھے کیا کرنا ہے کیا نہیں،تم صرف تماشائی بن کر دیکھتے رہو کہ کیسے میں شائستہ کو تمہارے قدموں میں لا کھڑا کرتی ہوں اگر ایسا نہ کیا تو میرا نام بھی سائمہ نہیں'' خیر یہ سب جملے تو اس کا دل رکھنے کے لیے اس نے کہے تھے،یہ کام اتنا آسان نہ تھا جتنا اس نے چند لفظوں میں بیان کر دیا۔ سفر بھی ختم ہونے کو تھا دونوں ایک دوسرے کو الوداع کہتےہوے اپنے اپنے گھر چل دیے۔
سائمہ اور شائستہ ایک ہی اسکول میں زیر تعلیم تھیں مگر باہم زیادہ گفت و شنید نہ تھی،اگلے دن معمول کے مطابق شائستہ اسکول سے واپسی پر سائمہ کی شاپ پہ رکی،باہم خیروعافیت کےبعد سائمہ پہیلیوں ہی پہیلیوں میں اسے کہنے لگی:''شائستہ اگر تم جیسی مہ جبیں دوشیزہ،انسانی پیکر میں مہ کامل کی ضیاپاشیاں کسی کو زیادہ ہی بھا جائیں اور وہ تمہارے حسن کی ہلاکت آفریں وار کا نشانہ بن کر دست بستہ تمہیں پیغام محبت بھیجے تو تم کیا کرو گی؟؟''
''بھلا مجھے کوئی ایسا پیغام کیوں بھیجے گا'' "بالفرض اگر کوئی بھیج دے تو'' وہ فورا شائستہ کی بات کاٹتے ہوے بولی۔
'' اسی وقت دیکھا جاے گا،لیکن آج تم اس طرح کی بہکی بہکی باتیں کیوں کر رہی ہو''قدرے تصویر حیرت بنے رہنے کے بعداپنی سرخ گالوں پر سے عطر برساتی ہوئیں عنبریں زلفیں ہٹاکر،موج نور میں غرق اس مہ کامل نے اپنے مخصوص معصومانہ انداز اور مسرور لب و لہجے میں جواب دیا۔
''شائستہ دراصل ایک چھپا رستم ہےجو تمہاری محبت میں دن بدن مستغرق ہوتا جا رہا ہے،تمہاری چاہت اس کی غذا بن چکی ہے،وہ شب و روز تمہاری یادوں میں الجھا رہتا ہے،وہ اپنی یکطرفہ محبت کو زبان پر تو نہیں لاتا مگر میں نے اس کی اداس خاموشی میں تمہیں محسوس کیا ہے،تمہارا عشق اس کی رگوں میں سرایت کر چکا ہے۔''
''بس بس،ذرا رک بھی جاو یار،یہ تو بتادو کہ وہ ہے کون؟؟''
''تم خاموشی سے سنو کی یا پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔''
''اچھا چلو تم ہی بولتی رہو''شائستہ تو یہ ظاہر کر رہی تھی کہ وہ ان سب باتوں سے بور ہو رہی ہے مگر دل میں اس اسم مبارک کا اشتیاق بڑھتا جا رہا تھا۔
''ذرا سوچو شائستہ،اتنا سب کرنے کے بعد بھی اگر وہ تم سے محروم رہا تو اس کے دل پر کیا گزرے گی،وہ کیسے اس جہاں میں زندہ رہ پاے گا،اب تو اس نے اپنے شب و روز کے مشاغل سے بھی منہ موڑنا شروع کردیا ہے'' یہ سب کہتے کہتے سائمہ کی آنکھیں اشکبار ہو گئیں۔
''سائمہ تم تو جانتی ہو کہ یہ پیار وار صرف دھوکا ہوتا ہے،اس کے علاوہ کچھ نہیں،اصلی عاشق آج اس دنیا میں کہاں ملتے ہیں''شاید اس کے ساتھ پیش آے گزشتہ حادثے نے اسے یہ کہنے پر مجبور کیاہوگا۔
''میں تمہاری بات سے متفق نہیں ہوں،ڈھونڈنے والے اہل نظر ہونے چاہیے،عشاق توآج بھی موجود ہیں،یہ بات الگ ہے کہ کمیاب ہیں''
''مطلب تم پیچھا چھوڑنے والی نہیں ہو،مگر کیا میں موصوف کے اسم مبارک سے روشناس ہو سکتی ہوں''
''جی بلکل،اس کا نام سمیر ہے"
''سمیر''
شائستہ یہ نام سنتے ہی تعجب میں پڑ گئی اور پھر قدرے توقف کے بعد بولی۔
''دوبارہ اس طرح کی باتیں میرے سامنے مت کرنا ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔''وہ غضب ناک ہو رہی تھی، اتنا کہتے ہوئے وہ شاپ سے نکل کر گھر کو چل دی،اس قدر حسین و جمیل دوشیزہ کا اپنے حسن پر تھوڑا تکبر کرنا تو اس کا حق بنتا ہی تھا،آج جب وہ گھر پہنچی تو حیران و پریشان تھی،معمول کے برخلاف آج فوراّ اپنے حجرہ خاص میں داخل ہوگئی اورسیدھی آئینے کے سامنے جا کھڑی ہوئی کہ میں بھی تو دیکھوں،آخر مجھ میں ہے کیا جو عشاق کے نیزے سیدھے مجھ پر ہی وار کرتے ہیں۔وہ اپنے گھونگرے بال کھولے،اپنی سرخ گالوں کی جادوئی کرنوں کو بکھیر تے،پتلی کمر پر نرم و نازک ہاتھ رکھ کر مسلسل آئینے کو مسحور کیے جارہی تھی،گویا آئینہ کہہ رہا تھا کہ اے ملکہ حسن!کاش میں بھی ایک بشر ہوتااور آپ کے حسن لازوال کی منور شعاوں سے اپنی تاریک راتوں کو جگمگاسکتا،خیر اب اپنے اس حسن قیامت خیز کو سامنے سے ہٹا بھی دو،کہیں میں پھٹنے پر مجبور نہ ہو جاؤں،شائستہ برآمدے میں آکر مستی میں انگڑائی لینے لگی تبھی اس کی نظر سمیر پر پڑی کہ وہ کڑاکے کی سردی سے بےخوف،روئی دار کشمیری چادر اوڑھے،مسلسل اس کی طرف اس طرح دیکھ رہا تھا جیسے کوئی گھنے بادلوں میں سے اچانک چاند کے نکل آنے کا منتظر ہو،وہ اسے دیکھتے ہی اپنے روم میں واپس چلی گئی،اس کا سکون واطمینان چھننے لگا،اب وہ کھڑکی سے چھپ کر اسے دیکھنے لگی،سائمہ نے سمیر کے تعلق سے اسے جو باتیں کہی تھیںں وہ یکے بعد دیگرے اس پر اثر انداز ہونے لگیں، شائستہ جیسی سخت انسان کا دل بھی اس منظر نامے پر رفتہ رفتہ پگھلنے لگا،اس کے دماغ میں کئی سوالات جنم لینے لگے کہ کیا واقعی سمیر اسے اتنا زیادہ چاہتا ہے؟؟حقیقتا وہ دیوانگی میں یکتاے روزگار ہے؟؟ سورج غروب ہو چکا تھا،تاریکیاں مکمل طور پر ڈیرہ ڈال چکی تھیں،لوگ نیند سے سرشار ہونے لگے وہ بھی آغوش خواب میں مست ہو گئی۔ادھر سمیر نے جب سے یہ سنا تھا کہ شائستہ نے صاف انکار کردیا ہے،اب اس کی امیدوں کا چراغ جلنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے،وہ مزید رنج و الم میں ڈوبنے لگا،اس کی نیندیں حرام ہو چکی تھیں لیکن اس بے چارے کو کیا خبر کہ کل کا دن اس کی زندگی کا سب سے اہم دن ہوگا،اس کی مایوس زندگی میں نئی امنگیں،خوشیاں لاے گا،اگلے دن صبح شائستہ نے بیماری کا بہانہ کرکے اسکول جانے سے انکار کردیا،سورج نکلتے ہی اول فرصت میں وہ سمیر کے گھر آئی،چوں کہ وہاں اس کی خالہ تھی جس کے پاس اس کا آناجانا لگا رہتا تھا وہاں پہنچ کر سلام،دعا کے بعدسب سے پہلے اپنے ننھے بھانجے ارقم کو اپنی باہوں میں لیے آنگن میں گھومنے لگی۔ شائستہ کافی بے چین تھی وہہ ارقم کو اٹھاے چپکے سے سمیر کے کمرے میں داخل ہوگئی کہ اچانک اس کی نظر ایک سرخ رنگ کی ڈائری پر پڑی،اٹھا کر دیکھا تووہ انگشت بہ دنداں رہ گئی کہ مابدولت نے اپنی ملکہ حسن کی شان میں قصیدوں کے انبار لگائے ہیں،ادھر سمیر بھی ناشتہ پانی کے لیے کچن کی طرف جانے لگا،کچن کا راستہ سمیر کے کمرے سے متصل تھا ۔وہ جاہی رہا تھا کہ اس کی نظر شائستہ کی خوبصورت چپلوں پر پڑگئی،اولا تو اس نے سوچا کہ شاید بھابھی جی شائستہ کی چپل پہن کر آئیں ہوں گی،مگر تسکین قلب کے لیے کمرے میں جھانکنا ضروری سمجھا،شائستہ نے قدموں کی آہٹ پاتے ہی،ڈائری کو واپس اس کی جگہ رکھ دیا مگر سمیر نے سب کچھ دیکھ لیا تھا،پہلے تو شائستہ نے شرما تے ہوئے بے رخی کا مظاہرہ کیا مگر وہ زیادہ دیر اس حالت میں نہ رہ سکی،سمیر بھی حیران و پریشاں ہو نے لگا۔''ویسے ہی میں نے ٹائم پاس کے لیے تھوڑا بہت لکھنے کی کوشش کی تھی'' سمیر مجرمانہ لب و لہجے میں بولا،مگر اس کے کچھ کچھ میں اتنا کچھ تھا کہ شائستہ اس کے ذہن میں پھیلتے رنگ ونور کے سایوں سے خوب متعارف ہو گئی تھی،اب کیا،ایک نشتر تھا جو جگر کے آر پار ہوگیا۔شائستہ نے بے خوف و خطر اسے گلے لگا لیا اس کی آنکھیں اشکبار تھیں۔اس طرح دونوں کے مابین لگاؤ و محبت سے بھرپور جملوں کا تبادلہ ہونے لگا،گوکہ دونوں نے آج ایک نئی زندگی کی شروعات کی ہو۔
اورنگ زیب
پونچھ،جموں وکشمیر
(موبائل نمبرحذف کیا گیا)
مدیر کی آخری تدوین: