افسانہ:حسرت از سحرش سحر۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سحرش سحر

محفلین
افسانہ: "حسرت " از سحرش سحر
ابھی پچھلی بقر عید پر اس نے اپنی بہو نگوڑی کو کباب بنانے کو کہا تھا مگر اس نے تو زحمت ہی گوارا نہیں کی بلکہ یہ کہہ کر اسے خاموش کروادیا کہ ابھی وہ فارغ نہیں ہے ۔
اس نگوڑی کو کونسے کام پڑے تھے جو وہ فارغ نہیں تھی ۔ کچھ بھی تو نہیں... صرف صبح صبح صفائی کی' بچوں کو تیار کیا' بھینس کے اگے چارہ ڈالا' مہمانوں کے لیے چائے پانی کیا' اڑو س پڑوس سے آیا ہوا گوشت سنبھالا' کھانا پکایا اور تھوڑی دیر کے لیے میکے سے بھی ہو آئی اور بس...... یہ سب اس چڑیل کے بہا نے ہیں ۔ اتنا اس کا نخرہ ہے کہ.......!نہ ہی پوچھو ۔
چلو پہلے روز نہ سہی دوسرے یا تیسرےروز ہی بنا لیتی ۔ گوشت تو ابھی تازہ تھا ۔ اور پھر تو اگلے دنوں میں سکھانے سے خشک اور سخت ہو جاتا ہے۔اور جب ہفتہ بعد بہو نے اس سخت گوشت کے کباب بنا ڈالے تھےتو اسے کیا...وہ تو انھیں دیکھ دیکھ کر کڑتی رہی کیونکہ اس کے دانت بھی تو اب جواب دے چکے تھے کمبخت تقریبا سارے ہی جڑ گئے تھے حالانکہ اس کی عمر ہی کتنی تھی....بلقیسہ سے دو سال چھوٹی تھی 'پر اس کے سارے دانت ایسے تو بے کار نہیں تھے ۔
اگر اس کے دانت ہوتے تو کل گھر میں بنائے ہوے گڑ اور مکئی کے دانوں سے بنے ہوئے مرونڈے وہ بھی کھا لیتی .... اپنے پوتے کوسارے کے سارے کبھی نہ دیتی ۔وہ سب اس کے سامنے کیسے مزہ سے کھا رہے تھے ۔
کھڑے کھڑےمنہ میں پانی بھر آنے پر اس نے اسے ہولے سے حلق سے اتارا اور اپنی معصوم پوتی کے ننھے سے سانولے ہاتھ پر اپنی شریانوں اور جھریوں زدہ کانپتےہاتھ کی گرفت مضبوط کی ۔
ارے اب اس کے ہاتھوں میں سکت کہاں اور نگوڑا بیٹا بھی تو نہیں پوچھتا ۔ اگر بقر عید پر اپنی بیوی سے کباب بنانے کا کہہ دیتا تو وہ ضرور بنا کر دے دیتی ۔ بقر عید پر تو اچھا خاصا گوشت جمع ہو گیا تھااور سامنے والےپڑوس سے تو کم از کم دو کلو آیا ہوگا ۔ لیکن کیا فائدہ ....بہو اسے سکھا سکھا کر مہینے بھر کھا تی اور کھلا تی رہی....اور وہ دیکھ دیکھ کر جلتی رہی ۔
اخا..........خدا بخشے بچوں کے دادا کی فرمائش پر وہ کیسے ہر بقر عید پرنرم نرم اور لزیذ کباب سارے گھر کے لیے بنایا کرتی تھی ۔بےشک ان میں مکئی کا آٹا زیادہ ہوتا تھا لیکن پھر بھی کتنے نرم اور لذیذ ہوتے تھے اور جس جگہ کباب مین بوٹی ہوتی تھی وہ جگہ کیسے پھولی ہوئی ہوتی تھی - جس کو دیکھ کر کھانے والے کو اندازہ ہو ہی جاتا تھا کہ اچھا خاصا گوشت ڈالا ہے ۔ اور مصالحہ تو وہ خود گھر میں ہی بنا لیتی تھی اوروہ گھر کا سرسوں کا تیل ........!۔
اب تو بےبرکتی ہی بےبرکتی ہے...
منہ میں پانی بھر آنے پر اس نےپھر حلق سے اتارا اور حسرت بھری نظروں سےسامنے کبابیے کی کڑاہی پرنظریں گاڑے رکھیں ۔پھر اس نے اپنے بوسیدہ کالے پیلے قمیص کی دائیں طرف بغلی جیب میں اپنا جھریوں زدہ کانپتا ہوا ہاتھ ڈالا اور کچھ ریزگاری نکالی ۔اپنی چھوٹی چھوٹی کرنجی' زمانہ دیکھی' کمزور نظر انکھوں کے قریب لا کر اسے دیکھا اور پھر کبابیے کی طرف دیکھا اور غیر محسوس طور پراپنی پوتی کے ہاتھ پر اپنے کمزور ہاتھ کی گرفت اور مضبوط کی کیونکہ ارد گرد رش بہت تھا۔مختلف گاڑیاں اور تانگے آ جا رہے تھے ۔اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ وہ اب کیا کرے.....وہ تو ابھی ستر سال سے کچھ ہی اوپر کی تھی بلقیسہ سے تو وہ دو سال چھوٹی تھی جو ابھی دو مہینے پہلے انتقال کر گئی تھی ۔ابھی تواس نے عمرہ پر بھی جانا تھا ۔ خدا کا گھر دیکھنا تھا ۔ یہ ریزگاری تو اس نے اس صندوقچہ میں کچھ جمع شدہ ان پیسوں کے ساتھ رکھنی تھی جواپنی کوٹھڑی کے کسی کونے میں وہ زمین میں دبا کر رکھتی تھی ۔اورجب کبھی بہو بچوں کو لے کر میکے چلی جاتی تھی تو وہ اسے نکال کر بار بار گنتی تھی ۔پچھلے مہینے کی گنتی کے مطابق اس کے پاس اٹھتر روپے جمع ہوئے تھے ۔
آج وہ کباب کھائے گی تو عمرہ کا کیا بنے گا ۔ اس نے سنا تھا کہ حج اور عمرہ کرنے والے کے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں اور جنت ملتی ہے ۔ جنت کی ا ن نعمتوں کو' جن کے بارے میں وہ وہ اپنے محلے کی مسجد کے مولوی صاحب سے سنتی رہتی تھی 'ٹھوکر نہیں مار سکتی تھی ۔ ۔اس نےتو یہ بھی سنا تھا کہ وہاں پر نہ صرف لذیذ کھانے ہوتے ہیں بلکہ لسی اور چائے کی بھی فراوانی ہوتی ہے ۔شاید دودھ شۂد شراب اور پانی کی نہروں کے ساتھ ساتھ لسی اور چائےکی نہریں بھی بہتی ہوں ...اسے کیا خبر تھی ۔پر سولہ آنے پکی بات تھی کہ ولایت سے بھی زیادہ حسین ہے جنت....وہاں یہ عیش ہو ں گےاور تو اور بچوں کے دادا بھی تو ہوں گے وہاں..........
.نہیں ...نہیں....! اس نے وہ ریزگاری جیب میں واپس رکھ لی ۔اور ایک حسرت بھری نگاہ پھر سے اس کبابیے اور اس کی کباب کی کڑاہی پر ڈال دی ۔ جو گردوپیش کا جائزہ لیتے ہوئے بڑی شان بے نیازی سے کباب بنا بنا کر کڑاہی میں ڈال کر تل رہا تھا ۔اور ایک دو خوش قسمت گاہک بھی ایک طرف کھڑے تھے ۔
ارے یہ کیا ......!کسی نے روٹی میں لپٹے دو کباب اس کے سامنے کئے ...
"یہ لیں اماں جی ...یہ کبا ب آپ کی لیے ہیں...رکھ لیں ۔"
اور وہ....وہ تو آگے سے کچھ بھی نہ بول سکی ۔
بقول اس کے ان خوش قسمت گاہکوں میں سےایک نیک شخص کبابیے سے کباب لے کر سیدھا اس کے پاس آکر گویا ہوا ۔
اصل میں اس نیک انسان نے اسے دیر تک کبابیےاور اس کی کڑاہی کو تکتے ہوئے دیکھ لیا تھا ۔
اس نے فورا ہی اپنی معصوم پوتی کا وہ ننھا سا ہاتھ چھوڑ دیا اور روٹی مین لپٹے ہوئے دونوں کبا ب اپنے جھریوں زدہ کانپتے ہاتھوں سے سینے سے لگالیے اور اپنی پوتی سے خوشی سے لبریز 'غصیلے انداز میں کہا ۔
"ارے کیا کھڑی ہو....میرے پیچھے پیچھے آؤ ..دیر ہو رہی ہے ۔"
 

سحرش سحر

محفلین
تیز رفتار زندگی کے انتہائی مصروف لمحات میں سے وقت نکال کر افسانہ بلکہ افسانچہ پڑھنے کا اور پھرحوصلہ افزائی کرنے کا بہت بہت شکریہ ۔
پیاری با ادب صاحبہ خوش رہیں ۔ آمین
 
Top