ریختہ صفحہ 1
افسانہ عاشق دلگیر
شیریں فرہاد باتصویر
جس کو
جناب منشی عبد الغنی صاحب صبرؔ لکھنؤی تلمیذ حضرت رضا لکھنؤی نے نہایت عمدگی سے اُردو زبان میں تصنیف فرمایا اور پہلی مرتبہ
کمترین محمد فخر الدین تاجر کتب و مالک مطبع کے اہتمام سے بماہ اکتوبر 1911ء فخر المطابع لکھنؤ میں چھپا۔
ریختہ صفحہ 2
کتابوں کا اشتہار
ریختہ صفحہ 3
بسم اللہ الرحمن الرحیم۔
سزاوار حمد وہ معشوق حقیقی ہے جس کے جمال جہان آرا پر تمام عالم شیدا ہے اور نعت کے قابل وہ برگزیدہ نبی ہے جس کی محبوبیت پر ہر جن و انس فدا ہے اور منقبت بیشمار کے مستحق وہی حضرات اصحاب کبار ہیں جن کے اوصاف میں ہزارہا حدیث و آثار ہیں۔ اما بعد خاکسار عبد الغنی صبرؔ لکھنؤی تلمیذ استاد بے ہمتا صاحب ذہن رسا جناب مولانا حافظ محمد برکت اللہ صاحب رضا لکھنؤی فرنگی محلی عم فیضہ الجلی و الخفی عرض پیرا ہے کہ شیریں فرہاد کا قصہ نظم میں موجود تھا۔ میں نے بعض اجناب کے اصرار اس اُس کو سلیس اردو میں نثر کیا اور اس کے طبع کی اجازت ہمیشہ کےلیے مطبع فخر المطابع لکھنؤ کو دی ہے۔ کوئی صاحب بغیر اجازت قصد طبع نہ فرمائیں نفع کے خیال میں نقصان نہ اٹھائیں۔
ہرمزبن نوشیروان عادل کے واقعات
مؤر خان باخیرد حاکیان ذی ہنر سمند قلم کو میدان قرطاس پریوں جولان کرتے ہیں کہ نوشیروان عادل جس کا شہرہ چار دانگ عالم میں ہے جب اس جہان فانی سے سراے جاودانی کی طرف روانہ ہوا تو اس کا بیٹا ہرمز تاج و تخت کا مالک ہوا اور عدل و انصاف میں مشہور عالم ہوا۔فوج کو آراستہ کیا، شاہان عالم پر اپنا رعب بٹھایا۔ بات کے
ریختہ صفحہ 4
مثل نامی اور صاحب داد ہوا۔ خدا نے مال کے ساتھ اولاد بھی عطا کی تھی۔ ایک بیٹا خسرو پرویز نام رکھتا تھا جو علم و ادب میں طاق شہرۂ آفاق تھا۔ اس کی دلاوری سے رستم و نریمان کانپتے تھے۔ مخالفین مقابلے سے بھاگتے تھے۔ حسینان عالم میں فرو تھا۔ اچھی صورت پر مرتا۔ معشوقوں کی صحبت کا طالب رہتا۔ سیر و شکار کا شوق تھا۔ نہایت ذوق تھا۔ اُس کے ہم عمر شرفا ادیب اہل فن خدمت گزاری میں حاضر باش تھے۔ ایک دن بیٹھے بیٹھے دل گھبرایا، شکار کا خیال آیا۔ مصاحبوں سے مشورہ کیا۔ باپ سے اجازت حاصل کرکے جنگل کی طرف روانہ ہوا۔ ساتھ میں لشکر شاہانہ ہوا۔ تمام دن سیر کرتا ادھر اُدھر پھرا۔ دل بہلایا۔ چرند پرند ہزاروں نخچیر ہوئے۔ اسی اثنا میں دن تمام ہوا۔ وقت شام ہوا۔ گھومتے گھومتے اُسی صحرا کے متصل ایک باغ پُربہار نظر آیا۔ وہیں قیام کیا۔ گل و ریحان کو دیکھ کر دل خنداں ہوا رقص و سرود کا سامان ہوا شراب کباب میں رات بسر کی۔ اسی راحت سے سحر کی انیس جلیس مسرور تھے نشہ میں چور تھے۔ نہ تن کا ہوش تھا، نہ جسم کی خبر، جو تھا مدہوش تھا۔ چاروں طرف باغمیں پھرے خوب مزے کیے تمام باغ کے میوے تاراج کیے۔ باغ کو جنگل بنا دیا۔ ساتھیوں نے پھل توڑے گھوڑوں نے سبزہ کی بربادی کی۔ باغ کے مالک نے ہرمز سے فریاد کی۔ اس عادل نے اُس کو مالا مال کیا۔ خوب خوشحال کیا۔ بیٹے سے ناراض ہو کر قید کیا۔ ہرمز کے عدل کی ایک تازہ حکایت ہے کہ شاپور نامی مصوری کے فن میں طاق شہرۂ آفاق چین کا رہنے والا قسمت کی گردش سے تباہ حال ہو کر روزگار کی طلب میں دربدر خاک بسر ہو کر ہرمز کے ملک میں آیا۔ غریب کا کون پرسان حال ہوتا ہے۔ بیچارہ ایک کرایہ کا مکان لے کر بسر اوقات کرنے لگا۔ جہاں تک مال اسباب تھا سب بیچ کر کھاتا رہا۔ جب کچھ بھی نہ رہا۔ فاقہ کی نوبت آئی قسمت نے تازہ آفت ڈھائی۔ دو تین فاقے متواتر گذرے لیکن دوسرے کے آگے ہاتھ پھیلاتے غیرت آئی۔ گھر کا دروازہ بند کر کے بیٹھ رہا۔ محلہ والوں میں چرچا ہوا ہر شخص اُس کا جویا ہوا۔ ہر طرح کوشش کی دروازہ
ریختہ صفحہ 5
نہ کھلا اور زائد فکر ہوئی کہ خدا جانے زندہ ہے یا مر گیا۔ رفتہ رفتہ شاہ کو خبر ہوئی۔ بادشاہ خود اُس کے حال کا جویا ہوا در دولت سے اٹھکر اُس کے مکان پر آیا۔ دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوا دیکھا توبہ بحال تباہ لب پر آہ پڑا سکتا ہے ہر ایک کا حیرت سے منہ لٹکتا ہے۔ اطبائے حاذق تجربہ کار بلوائے گئے۔ سب نے تشخیص کر کے کہا کہ اس کو فاقوں نے توڑا ہے اور کوئی مرض نہیں۔ اس کو طعام لذیذ کھلایا جاوے۔ بادشاہ نے دسترخوان خاص طلب کیا۔ اُس کو اپنے سامنے کھانا کھلایا۔ جب اُس کے حواس درست ہوئے استفسار حال کیا کہ تو کون ہے اور کہاں کا رہنے والا ہے۔ کس لیے یہاں آیا ہے۔ وہ گویا ہوا کہ غلام چین کا رہنے والا مصوری میں کامل ہے۔ افلاس نے جب زیادہ گھیرا ۔ روزگار کی تلاش میں یہاں آیا۔ کوئی پرسان حال نہ ہوا۔ اس حالت کو پہونچا۔ اب قسمت راہ پر آئی کہ آپ محسن ہوئے۔ اُس عادل زمانہ نے فرمایا کہ تو مجھ تک کیوں نہ آیا۔ پھر خلعت فاخرہ عطا کیا اور اپنے مصاحبین خاص میں رکھ کر عزت دی۔ رنج کے بعد راحت ملی۔
خسرو کا قید سے چھوٹنا اور حضرت عشق کے پنجہ میں اسیر ہونا
اب شروع کہانی ہے حضرت عشق کی کتھا سُناتی ہے کہ ہرمز کے دربار میں روز عدل و انصاف کا چرچا رہتا۔ ہر ایک اپنے مقصد کو پہونچتا۔ امرا وزرا مصاحبین خسرو کی اسیری سے دلگیر تھے۔ ایک بار موقع پا کر شاپور عرض پیرا ہوا کہ اب شاہزادے کی خطا معاف ہو۔ اُس کی جانب سے دل صاف ہو۔ وہ اپنے قصور پر نادم اور نظر عنایت کا طالب ہے۔ سب نے اس پر اتفاق کیا۔ محبت پدری نے جوش کھایا۔ فوراً اس کو رہائی ہوئی۔ ولیعہدی کا خطاب پایا۔ پھر ہرمز عرصۂ دراز تک حکمرانی کر کے راہی ملک بقا ہوا۔ خسرو اُس کی جگہ پر فرمانروا ہوا۔ ہزاروں کو عزت ملی۔ شاپور کو وزارت ملی، جب عادل بادشاہ اور فہیم وزیر ہو تو ملک کیوں نہ ترقی پذیر ہو۔ عالم کو اپنی بخشش سے مطیع کیا۔ ہر ایک نے سر اطاعت جھکایا۔
شیریں کی داستان ہے عشق کا سامان ہے
مور خان باکمال اور ناقلان خوشخیال یون لکھتے ہیں کہ ملک ارمن جو رشک عدل تھا۔
ریختہ صفحہ 6
وہاں ایک شاہزادی شیریں نام حاکم تھی۔ ہزاروں ملک اُس کے قبضہ میں تھے۔ اصلی نام اُس کا سیمران تھا۔ واقف اس سے ہر اہل جہان تھا۔ حسن و جمال میں طاق، شہرۂ آفاق تھی۔ جس طرف اُس کی نگاہ پڑتی ادھر سے صدائے آہ بلند ہوتی۔ سر سے پاؤں تک ایک آفت تھی۔ قد میں غیرت دہ قیامت تھی۔ دیکھنے والے کو سکتہ ہوتا، دل قابو سے جاتا۔ اُس کے اوصاف میں یہ اشعار نہایت موزوں ہیں۔
بال بنگالے کے طول شب ہجر عشاق
صورتِ پاک بنارس کی زمانہ مشتاق
لکھنؤ کا وہ غضب ٹھسا پر یرو دقاق
حُس کشمیر ہے مشہور مینان افاق
چشم پنجاب کمر دہلی کے شملے کی گات
جِسم لاہور کا اور قامت و قد گجرات
فوج لشکر سب عورتوں کا تھا۔ انہیں کا ہر وقت مجمع رہتا۔ دربار اندر کے اکھاڑے کا مزہ دکھاتا۔ اُس سب میں نسترن بو محرم اسرار تھی۔ بہت ذی اقتدار تھی۔ شیریں کے حسن کا شہرہ دور دور تھا۔ تمام عالم اُس کے نشہ عشق میں چور تھا۔ ہر طرف سے پیام آتے۔ سلاطین روم و شام اطاعت کےلیے گردن جھکاتے۔ مگر وہ نشہ حسن میں چور تھی۔ بڑی مغرور تھی۔ کسی کو خاطر میں نہ لاتی۔ شدہ شدہ روم میں بھی اُس کا شہرہ ہوا اور دربار
ریختہ صفحہ 7
خسرو میں تذکرہ ہوا۔ عشق نے اپنا کام کیا۔ اُس کو اسیر دام کیا۔ غائبانہ شیدائی ہوا۔ ہوش و حواس کھو کر سودائی بنا۔ سلطنت کا کاروبار چھوٹا۔ ہر وقت اُسی دُھن میں رہتا۔ سب سے مُنہ موڑا۔ شیریں کی محبت میں عیش شیریں تلخ نظر آیا۔ کھانا پانی ترک کیا۔ گو اُس نے کسی سے اپنا درد دل ظاہر نہیں کیا مگر یہ وہ مرض ہے جو چھپ نہیں سکتا۔ وزیر صاحبِ تدبیر جو اس کا محرم راز ہر وقت کا دمساز تھا۔ یہ حال دیکھکر سمجھا کہ شاہ کو محبت ہوئی۔ کسی ماہرو کی الفت ہوئی۔ اِدھر اُدھر کے تذکرے چھیڑ کر دریافت کرنے لگا کہ نصیب دشمناں دل معشوقوں کی زلف کی طرح کیوں پریشان ہے، وہ بھی چونکہ اس سے کوئی بات نہ چھپاتا تھا، صاف بیان کر دیا کہ جب سےشیریں کے حسن کی تعریف دربار میں سنی ہے، ہزار جان سے اُس کا شیدائی ہو کر سودائی ہوا ہوں۔ فراق کی تاب نہیں، وصال کی کوئی صورت سمجھ میں نہیں آتی۔ سوا اسکے کہ تلوار کے زور سے اس کو شکست دوں۔ مال و دولت لشکر فراواں موجود ہے۔ میری شہرت تمام عالم میں ہے۔ فوج کشی کروں۔ جب وہ مقابلہ کی تاب نہ لائے گی، آپ ہی تابع حکم ہو جاوے گی۔ شاپور عاقل دستور یہ سن کر گویا ہوا کہ واقعی رائے صائب ہے، مگر غلام کے نزدیک لشکر اور ملک پر بھروسہ نہ کرنا چاہیے۔ لڑائی ہونے پر خدا جانے کیا ہو۔ اُسکے حسن کی شہرت ہر طرف ہے۔ ممکن ہے کہ جب آپ لشکر کشی کریں اور یہ خبر عام ہو تو ہر طرف کے بادشاہ اُس کی مدد کریں۔ لڑائی میں بکھیڑے پڑیں گے۔ اگر خدا نخواستہ شکست ہوئی تو نہ دلی مراد ملے گی، یہ سلطنت رہے گی، زندگی دشوار ہو گی۔ دوسرے عشاق کو یہ لازم نہیں کہ معشووں کی ایذا رسانی تباہی بربادی کے بانی نہ ہوں۔ خسرو نے پوچھ پھر اُس کے ہاتھ آنے کی کون تدبیر ہے۔ وزیر نے جواب دیا کہ اس کی خوبصورتی مشہور عالم ہے۔ مگر آپ بھی حسن میں یکتائے جہان ہیں۔ کسی طرح آپ کی تصویر اُس کو دکھائی جائے۔ کیا عجب ہے کہ وہ بھی شیدائی ہو۔ بادشاہ نے اس رائے کو پسند کیا اور شاپور کو حکم دیا کہ تو نے رائے بتلائی ہے، تیرے ہی متعلق اس کام کو کرتا ہوں۔ جس طرح مناسب ہو کر شاپور مصوری میں استاد تھا غیرت دہِ مانی و بہزاد تھا۔ خود خسرو کی تصویر بنائی۔ تجارے کا سامان ساتھ لےکر شیریں کے ملک کو روانہ ہوا۔
ریختہ صفحہ 8
شاپور کا تصویر خسرو شیریں کو دکھانا، اُس کا عاشق ہونا
ایک عرصہ میں شاپور قطع مسافت کرتا ہوا شیریں کے ملک میں پہونچا۔ شہر میں ہر طرف پھرا۔ رفتہ رفتہ شیریں کو خبر ہوئی کہ ایک سوداگر گراں بہا مال لیکر آیا ہے۔ تجارت کرتا ہے۔ شیریں اُس وقت اپنے خاص باغ میں مصروف عیش و نشاط تھی۔ رقص و سرود کی محفل جمی ہوئی تھی۔ ایک پری پیکر نہایت ناز و ادا سے یہ غزل گا رہی تھی۔
غزل رضاؔ لکھنؤی فرنگی محلی
رہ گیا تیر جو دل میں مرے پنہاں ہو کر
اب نہ نکلے گا قیامت تلک ارزاں ہو کر
کشتیِ تن کا پتہ بحر محبت میں نہیں
میرے اشکوں نے ڈبویا مجھے طوفاں ہو کر
دردِ عشقِ سگِ جاناں کی محبت دیکھو
ہڈی ہڈی میں رہا کرتا ہے پنہاں ہو کر
نظر آ جاے جو گلدام تری زلفوں کا
پھول ابھی اڑنےلگیں برگ گلستاں ہو کر
حال جب میں دلِ پرسوز کا لکھنے بیٹھا
جل گیا کاغذِ خط ہاتھ میں سوزاں ہو کر
نئے انداز سے وہ روکتے ہیں دعوے سے
آئے ہیں حشر میں انگشت بد نداں ہو کر
جان کر عاشق افشاں مجھے غول صحرا
دھوکا تاریکی میں دیتے ہیں چراغاں ہو کر
دولت وصل نہ ہاتھ آئی رضاؔ دنیا میں
مثل دنیا رہی مجھ سے گریزاں ہو کر
تمام رات اسی طرح بسر ہوئی۔ عیش و راحت میں صحر ہوئی۔ صبح کو شاپور جو بہ شکل سوداگر آیا تھا، درِ دولت پر طلب ہوا۔ یہ آداب شاہی سے واقف تھا،نہایت عزت و احترام سے سلام کیا۔ پھر باادب قیام کیا۔
شاپور کا دروازے پر اور شیریں کا محل کے اندر نظر آنا
ریختہ صفحہ 9
تمام مال و اسباب دکھایا، دام فریب پھیلایا، تصویر کی جھلک دکھا کر اُس کو الگ کر لیا۔ شیریں نے پوچھا، وہ کیا ہے؟ جسے تو نے چھپا لیا۔ شاپور نے کہا، وہ امانت ہے، مال تجارت نہیں۔ ایک تصویر ہے، جس کے دام عشق میں عالم اسیر ہے۔ اس کے دیکھنے سے کیا فائدہ؟ اس تقریر سے شیریں کو اس کے دیکھنے کا شوق ہوا اور زیادہ ذوق ہوا۔ بیحد اصرار و انکار کے بعد اُس نے وہ تصویر نکالی۔ شیریں دیکھتے ہی شیدائی ہوئی۔ الفت کا تیر لب سوفار کی طرح دل میں اثر کر گیا۔ ایک آہ کر کے بے ہوش ہوئی۔ انیسین گلیسین بدحواس ہوئیں۔ بہت دیر کے بعد ہوش آیا۔ شاپور سے پوچھا، یہ کون ماہ لقا ہے، جس نے مجھ کو دیوانہ کیا۔ عقل و ہوش سے بیگانہ کیا۔ اس نے کہا، خسرو شاہ نوشیروان کا پوتا ہے۔ جسطرح عوتوں میں آپ بیمثال ہیں، ویسے ہی مردوں میں وہ یکتا ہے۔ ہر حسین اُس کا طالب وصال ہے۔ شیریں کو عشق نے دیوانہ تو کر ہی دیا تھا۔ بیباکانہ حکم دیا۔ لشکر آراستہ ہو، دیار معشوق کی تیاری ہو۔ ہر ایک چلنےپر آمادہ ہو۔ نہایت جاہ و جلال سے وہ پری تمثال روانہ ہوئی۔ شاپور نے بھی ایک صبا رفتار سوار کو اطلاع کے لیے خفیہ روانہ کیا اور جلد پہونچ کر بادشاہ کو اس کی خبر دینے کی تاکید کر دی۔ غرض خسرو پرویز اس خبر طرب سے آگاہ ہوا۔ خوشی میں بال و زر لٹایا۔ ہر ایک کو امیر بنایا۔ پھر لشکر کو آراستہ کر کے استقبال کےلیے روانہ ہوا۔
شیریں اور خسرو کی ملاقات کا تذکرہ ہے، راحت افزا ماجرا ہے
واقفان محبت رہروان کوے الفت یوں بیان کرتے ہیں، کہ اُدھر سے شیریں اور اِدھر سے خسرو ایک دوسرے کے شوق دیدار میں تیز گام تھے۔ شبانہ روز ہر ایک کو چلنے سے کام مبتلائے آلام تھے۔ خسرو کے شہر کے قریب پہونچ کر ایک باغ پرفزا میں شیریں نے قیام کیا۔ ہم صحبتوں نے اُس کا دل بہلانے کے لیے رقص و سرود کا اہتمام کیا۔ رات کا وقت، باغ کی پرفزا ہوا نہایت مرغوب تھی۔ محفل بھی خوش اسلوب تھی۔ یہ غزل گائی جاتی تھی۔ تمام محفل وجد میں آتی تھی۔ غزل
خفا ہے گر وہ مجھ سے غیر کے گھر مہماں کیوں ہوا
موافق بن کے اب میرا مخالف آسماں کیوں ہوا
ریختہ صفحہ 10
جو عشق پردہ در کو دسترس تم دو نہ اس درجہ
تو یوں جیب آستین دامن گریباں وہبحان کیوں ہو
تمہاری آنکھ جب میری طرف سے یوں پھری پائے
تمہیں انصاف سے کہہ دو موافق آسماں کیوں ہو
لیا ہے تو نے دل میرا تو گردن بھی اڑا قاتل
نہ جب پہلو میں دل ہو دوش پر بار گراں کیوں ہو
مٹا جو راہ میں اُن کی اُٹھے برباد کرنے کو
چلے کہتے ہوئے محنت کسیکی رائیگاں کیوں ہو
اُٹھا تیغ دیکھیں کون پہلے سر جھکاتا ہے
اسی پر فیصلہ ہے اور آگے امتحان کیوں ہو
نہ ہو گر یوں نموئی زلف و قد جوشِ جوانی میں
تو ہر لحظہ تہ و بالا زمین و آسماں کیوں ہو
قیامت کی طرح جب ہو درازی روز فرقت کی
مؤذن صبح وصل یار یوں شور آذاں کیوں ہو
تمہارے چاہنے والے بہت ہیں سر جھکانے کو
صنم یوں سجدہ گاہِ غیر سنگ آستاں کیوں ہو
رضاؔ جس کو نہ مثل قیس سودا مول لینا ہو
وہ دنیا میں اسیر گیسو لیک و شان کیوں ہو
شیریں ادھر عیش و نشاط میں مصروف تھی کہ خسرو بھی مسافت طے کرتا ہوا حضرت عشق کی رہبری سے اُسی باغ میں پہونچا۔ ہر ایک دوسرے کے دیدار سے مسرور ہوا۔ ادھر خسرو اُدھر شیریں غش کھا کر گرے۔ دونوں طرف لشکر کے لوگ اپنے اپنے حاک کی چارہ جوئی میں پڑے۔ ہر ایک یہ شعر پڑھتا تھا۔ شعر رضا لکھنؤی
دیکھتے ہی یار کو تن سے ہوا دم ہو گیا
وائے قسمت شربت دیدار بھی سم ہو گیا
بدقت دونوں کو ہوش آیا۔ وصل کا سامان مہیا پایا، دونوں ایک تخت رواں پر سوار ہوئے۔ آپس میں ہمکنار ہوئے۔ اسی طرح شہر میں جلوہ فرما ہوئے۔ خوش سب امیر و غربا ہوے۔ شادی کی تیاری ہوئی۔ گھر کی آبادی ہوئی۔ الغرض شیریں خسرو کے نکاح میں آئی۔ ملکہ کہلائی۔ مبارک سلامت کا شور مچا۔ ایک عالیشان محل شیریں کے لیے تیار ہوا۔ اُس میں وہ جلوہ فرما ہوئی۔ خواصیں ہزارہا خدمت گذار ہوئیں۔ پرستار غنچہ لب گلزار ہوئیں۔ روزنئے جلسے تھے۔ ہر وقت محفل نشاط باعث انبساط تھی۔
فرہاد کا آنا اور تیر عشق کھانا، نہر شِیر شیریں کے حکم سے بننا
شیریں کا نام اس لیے شیریں مشہور تھا کہ اُس کی غذا شیر تھی۔ اتفاقاً ایک دن شِیر کے پہونچنے میں
ریختہ صفحہ 11
تاخیر ہوئی۔ شیریں ملول اور دلگیر ہوئی۔ کنیزوں سے اس کا تذکرہ کیا۔ بیان باجرا کیا۔ خیال تھا کہ کوئی ایسی صورت ہوتی کہ چراگاہ سے یہاں تک ایک نہر جاری ہوتی۔ ہر وقت شِیر خواری ہوتی۔ اتنے میں شاپور عاقل دستور بھی آیا۔ شیریں کو ملول دیکھ کر بدحواس ہوا۔ گھبرایا، پوچھا ملکی خیر ہے، کیا فکر ہے، کس بات کا خیال ہے، کیوں دل نڈھال ہے۔ شیریں نے کہا یہاں ہر طرح کی راحت ہے مگر ایک حیرانی ہے۔ شِیر وقت پر نہیں ملتا۔ یہی پریشانی ہے۔ یہاں سے چراگاہ دور ہے۔ پہاڑ بیچ میں حائل ہے۔ کوئی ایسی تدبیر ہو کہ چراگاہ سے یہاں تک ایک نہر جاری ہو تاکہ شِیر ملنے میں مجھے ہر وقت آسانی ہو۔ مجھے غذا نہ ملنے سے دشواری ہوتی ہے۔ شِیر ہی میری غذا ہے۔ اُس کی تاخیر سے حیرانی ہوتی ہے۔ شاپور بصد ادب گویا ہوا۔ یہ کوئی مشکل نہیں۔ حضور کے حکم کی دیر تھی۔ نہر جلد تیار کراتا ہوں۔ میرا یک پیر بھائی فرہاد نامی ہے۔ اُس کو بلاتا ہوں۔ وہ فن ریاضی میں طاق شہرٔ آفاق ہے۔ رمل ہندسہ نجوم خوب جانتا ہے۔ تقدیر یاوری نہیں کرتی۔ اس لیے افلاس میں پھنسا ہے۔ وہ کوہ کو دم بھر میں کاہ کر دے گا۔ دامن گوہر مقصود سے بھر دے گا۔ شیریں نے حکم دیا۔ اُس کو جلد بلا کر حاضر کرو۔ شاپور وہاں سے اُٹھا، چین کے ملک میں جہاں فرہاد رہتا تھا، لوگوں کو بھیجا۔ وہ شاہی طلب کو قسمت کی یاوری سمجھ کر فوراً آیا۔ یہ معلوم تھا کہ بدقسمتی سے اور آفت میں پھنسوں گا، تمام عمر کا غم مول لوں گا۔
فرہاد کا آنا اور شیریں پر عاشق ہو کر نہر کھودنا
جس قدر فرہاد کے آنے میں تاخیر ہوتی، شاپور پریشان ہوتا۔ فکر دامن گیر ہوتی۔ غرض کچھ عرصہ کےبعد فرہاد آیا۔ شاپور سے ملا۔ شاپور اپنے ساتھ لے کر شیریں کے محل کے دروازے پر آیا۔ عشق نے اپنی صورت دکھائی۔ نئی رنگت جمائی۔ یہ خانہ خراب اپنی فکر میں لگا۔ فرہاد پر قبضہ کیا۔ سایہ کی طرح ساتھ ہوا۔ ہاتھ میں ہاتھ ہو اسی نے زلیخا کو یوسف پر مائل کیا۔ اپنا مطلب حاصل کیا۔ نل و من کا قصہ مشہور عالم ہے۔ اس کے ہاتھوں دنیا میں ہر ایک مبتلائے غم ہے۔ لیلی مجنوں کو کون نہیں جانتا۔ درد کی طرح دل میں گھر کرتا ہے۔ دکھلائی نہیں دیتا۔ ہر ایک کو
ریختہ صفحہ 12
زیر و زبر کرتا ہے۔ یہ وہ مرض ہے جس کی دوا نہیں۔ ایسا درد ہے جس سے کسی کو ہوتی شفا نہیں۔ وامق و عذرا کی محبت بلبل و گل کی الفت سب پر عیاں ہے۔ غرض جب شاپور فرہاد کو لے کر در دولت پر حاضر ہوا، عرض بیگی نے ملکہ کو خبر دی۔ خواصوں کو حکم ہوا، جاؤ پس پردہ کرسی پر اُس کو بٹھاؤ اور خود بھی نہایت ناز و ادا سے پردے کے قریب جلوہ فرما ہوئی۔ دہن شیریں سے کلام کر کے فرہاد کے عیش کو تلخ کام کیا۔ شریں کے حسنِ عالم افروز کی جھلک دیکھ کر فرہاد دیوانہ تو ہو ہی چکا تھا۔ کلام سُن کر بےہوش از خود فراموش ہوا۔ چکر کھا کر زمین پر گرا۔ کوہکن کے بدن میں رعشہ پڑا۔ خواصوں کو ہش میں لانے کا حکم ہوا۔ خود بھی اس کی خبر گیری ہوئی۔ بدقت ہوش آیا۔ شیریں نے اِدھر اُدھر کے فرح آمیر تذکرے چھیڑ کر نہایت انداز سے دلی مقصد کا اظہار کیا۔ فرہاد کو اور زیادہ بیقرار کیا۔ یوں گویا ہوئی، میں نے سُنا ہے کہ تو سنگ تراشی میں استاد ہے۔ اپنا مثل نہیںرکھتا ہے۔ مجھے ایک نہر بنوانا ہے، جس میں پانی کے بدلے شِیر لہریں مارے۔ چراگاہ سے میرے محل تک آوے۔ اگر یہ کام تجھ سے ہو جائے گا، منہ مانگا انعام پائے گا۔ خوش ہو جائے گا۔
تصویر شیریں کا مع خواصوں کے پس پردہ جلوہ گر ہونا اور شاپور کا مع فرہاد پردہ کے قریب نظر آنا۔ فرہاد کا غش کھا کر گرنا۔ سہیلیوں کا ہوش میں لانا
ریختہ صفحہ 13
فرہاد نے کہا جو حکم ہو۔ بسر و چشم بجا لاؤں گا۔ بہت جلد چراگاہ سے یہاں تک نہر پہونچاؤں گا۔ ایک مہینہ کی مہلت ملے۔ اسی میعاد میں نہر تیار کر کے شِیر بہا دوں گا۔ اس کام میں جان لڑا دوں گا۔ فرہاد یہ وعدہ کر کے وہاں سے چلا اور چراگاہ کا پتہ لگا کر وہاں تک پہونچا۔ ہر طرف دیکھنے بھالنے لگا۔ آسانی سے نہر کھودنے کی ترکیبیں نکالنے لگا۔ کشی طرف فاصلہ زیادہ تھا، کسی جانب پہاڑ اونچا نظر آتا تھا۔ ریاضی کے اصول پر نظر کر کے پیمائش کی آخر کار ایک سمت ڈوری ڈالی اور تیشہ ہاتھ میں لیکر الا اللہ کہہ کر کوہ پر مارا۔ عشق میں دیوانہ تھا۔ اس کے تیشہ سے کوہ میں لرزہ پڑا۔ جس سنگ پر پڑتا پارہ پارہ کرتا۔ اسی طرح اپنے وعدہ کے اندر اُس نے پہاڑ کو کاٹ کر نہایت عمدگی سے راہ صاف کی اور شیریں کے محل تک نہر پہونچا دی۔ تمام ملک میں خبر ہوئی۔ تماشائیوں کا ہر وقت مجمع ہونے لگا۔ جو دیکھتا حیرت میں رہ جاتا۔ شدہ شدہ شیریں بھی آگاہ ہوئی۔ انیسوں جلیسوں کو ساتھ لیکر دیکھنے آئی۔ نہر دیکھ کر حیرت میں ڈوبی۔ فرہاد کی تعریف کی۔ بہت انعام و اکرام دینے کا حکم دیا، مگر وہ الفت کا دیوانہ تھا، کچھ نہ لیا۔
فرہاد کا کوہ و دشت میں بیقرار پھرنا، خسرو کا اُس کی الفت سے واقف ہونا
عشق شیریں نے اپنا کام کیا
آ جنون نے اُسے سلام کیا
جیب و دامن کو چاک چاک کیا
تن کو زیب لباس خاک کیا
پاؤں وحشت نے اپنے پھیلائے
ہاتھ سودے نے اس کو دکھلائے
چھوڑ کر کوہ دشت میں آیا
چرخ کی طرح گشت میں آیا
ہر مغیلان کو آشنا سمجھا
ہر بگولے کو دلربا سمجھا
شیر و دو ہمدم و شفیق اُس کے
وہی محرم وہی رفیق اُس کے
غول آہو کے ساتھ تھا
گاہ اُٹھتا تھا گاہ گرتا تھا
یاد کر کے اُس کے گیسو کو
چوم لیتا تھا شاخ آہو کو
چشم کا اُس کے جو گذرتا خیال
دیکھتا غور سے وہ چشم غزال
جب مژہ کا تصور آتا تھا
خار آنکھوں میں وہ لگاتا تھا
یاد آتی جب اُس صنم کی کمر
دیکھ لیتا پلنگ کو جا کر
جب دل بیقرار گھبراتا
کوہ پر گاہ نہر پر آتا
کتنا دل کو وہ زار بہلاتا
نہ بہلتا ہزار بہلاتا
داغِ دل رشک داغ لالہ ۔۔۔۔
ریختہ صفحہ 14
نہ تھا صحرا وہ باغ لالہ تھا
اُس کو اک لحظہ بھی نہ تھا آرام
گر پڑا جس جگہ وہی تھا مقام
بستر خاک تھا اُسے قالین
یار پہلو تصور شیریں
دیدۂ غول تھا چراغ اُس کا
اور مغیلان تھا خانہ باغ اُس کا
داغ پہلو میں لب پہ نالہ تھا
یہ سپر تھی وہ اور بھالہ تھا
ہمدم اور آشنا سا تھا مایوس
ہاتھ تھا اور زانوِ افسوس
ہوتا جب گرسنہ وہ جان حزیں
دوڑتا سمت چشمہ شیریں
دیکھ کر موج شیر کو کہتا
کاش اس میں مرا لہو بہتا
غرض اسی حالت میں فرہاد کی زندگی تمام ہوتی۔ شام سے صبح اور صبح سے شام ہوتی۔ کبھی چپ رہتا، کبھی اپنے دل سے یوں باتیں کرتا، او خانہ خراب تو نے مجھے کہیں کا نہ رکھا۔دین و دنیا دونوں سے کھویا، اے آنکھ تو نے کہاں کی دشمنی نکالی۔ کیوں کر صورت پر نظر ڈالی۔ ہائے میں کیوں اس ملک میں آیا۔ اپنے بیگانوں کو چھوڑ کے دشت گردی میں پھنسا۔ وہ شاہزادی، میں فقیر، او چرخ تفرقہ پرداز کیا تجھے مشق ستم کیلیے کوئی اور نہ تھا جو مجھی کو تو نے دام عشق میں پھنسا کر سودائی بنایا اور موت تو بھی معشوقانہ ناز کرنے لگی۔ اوشا پور تو نے میرے ساتھ بڑی عداوت کی۔ یہاں بُلایا، قیامت کی۔ جب جنگل میں دل گھبراتا۔ آبادی میں آتا، نالہ وفریاد کرتا۔ ہر ایک کا عیش برباد کرتا، شیریں کے محل کے گرد پھرتا اور نہایت درد سے یہ عاشقانہ غزل پڑھتا۔
غزل رضاؔ لکھنؤی فرنگی محلی
گئے ہوش و خرد عشقِ لبِ جا بجنبش جانانمین
قیامت ہے ہماری جاؤ ڈوبی آبِ حیوانمین
اگر میں جا نکلتا ہوں خیالِ قدِ جانانمین
بگولے سرو کا عالم دکھاتے ہیں بیانانمین
دکھا کر مانگ کی افشاں تری زلفوں نے دل چھینا
ٹھگوں نے مال لوٹا کیا قیامت ہے چراغانمین
جھڑی اشکوں کی چھوڑے کی گرا کر خانہ تن کو
ٹکے گا کس طرح یہ قصر بے بنیاد بارانمین
میں شیدا تجھے یکتا کا ہوں ۔۔۔۔ گل پہ مفتون ہے
محبت فرق بتلاتی ہے خود انسان و حیوانمین
اون احباب کیوں مایوس مجھ بیمار الفت سے
جو دیکھی فال نکلا سورۂ یٰسین قرآنمین
ریختہ صفحہ 15
مقدر اُس کو کہتے ہیں یہ ہے تقدیر کا لکھا
عدو ہو زیب محفل ہم نہ پہونچیں نرم جانانمین
تڑپتا لوٹتا آئیے گا دیوانہ اگر تیرا
نظر آئیں گے جفتے سیکڑوں محشر کے دامانمین
مری آنکھوں میں دم بھر بھی نہ آئی چین لینے کو
سبک سمجھا ہے مجھکو نیند نے بھی ہجر جانانمین
نہیں غم قتل ہونے کا خوشی دل کو یہ حاصل ہے
لگائی خون نے مہندی رضاؔ شمشیر نرانمین
جب فرہاد کا عشق روز افزوں ہوا، تمام شہر میں اُسکی خبر ہوئی۔ شیریں کو بھی معلوم ہوا۔ وزرا امرا سب باہر ہوے۔ آپسمیں شورہ کیا کہ اس حال سے شاہ کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ ورنہ بُرا ہو گا۔ ہر ملک میں چرچا ہو گا۔ ممکن ہے کہ بادشاہ جب واقف ہو تو کوئی ایسی تدبیر نکالے جس سے بدنامی دفع ہو۔ ایک دن دربار میں موقع پا کر فرہاد کا ذکر چھیڑا۔ مفصل بیان کیا کہ جہان پناہ اس بات سے واقف ہیں کہ جب شیریں کو شیر دیر میں پہونچنے کی شکایت ہوئی تو وزیر باتدبیر نے فرہاد نامی کوہکن کو چین سے بلایا اور نہر کھودنے کے لیے شیریں کے حکم سے وہ آمادہ ہوا اور نہر بھی تیار کی، لیکن آپ سے رقابت پیدا کی۔ شیریں کی محبت میں دیوانگی مول لی۔ نہر کھودنے کے عوض میں گو ملکہ جہان نے بہت کچھ انعام دینا چاہا۔ اُسنے قبول نہ کیا۔ عشق کے تیر سے ایسا گھائل ہوا۔ اب ہر وقت اُسکے لب پر نالہ و آہ ہے۔ حالت تباہ ہے۔ دیوانہ وار جنگل میں پھرتا ہے۔ شیریں کا دم بھرتا ہے، کبھی کبھی شہر میں آتا ہے، غل مچاتا ہے۔ شیریں کے محل کے گرد گھومنا، اُس کو ضرور ہے۔ روزانہ کا یہی دستور ہے۔ عرض کرنا ہمارا کام تھا۔ وہ کر دیا۔ اب جہاں پناہ کی جو رائے عالی ہو، وہی خوب ہے۔ ہم سبکو بدل و جان مرغوب ہے۔ رقابت کا نام سن کر خسرو شعلۂ جوالہ کی طرح شرر افشاں ہوا۔ آتش غیرت بھڑکی۔ مزاج برہم ہوا۔ دل میں مصمم اُس کے قتل کا ارادہ کیا۔ پھر یوں گویا ہوا، خدا کی شان وہ اور شیریں، امیر اور فقیر کا مقابلہ اُسے قہر سلطانی کا خوف نہ ہوا۔ میرا رقیب بنا، کچھ نہ ڈرا۔ مصرع : قضا آتی ہے جب چیونٹی کی اس کے پر نکلتے ہیں۔ مزدوری کو آیا تھا عاشقی کا نقشہ جمایا۔ مار کے آگے بھوت بھاگتا ہے۔ جب تلوار سامنے ہو گی عشق کا نشہ ہرن ہو جائے گا۔ مزاج راستی کچھ
ریختہ صفحہ 16
آ جائے گا۔ جب خسرو خاموش ہوا تو ایک مصاحب یوں گویا ہوا، اگر جان کی امان ہو تو جو کچھ میرے عقل ناقص میں آیا ہے، عرض کروں۔ اجازت ملی، بصد ادب گویا ہوا۔ آپ کا انصاف وداہ مشہور عالم ہے۔ کسی کو بے گناہ قتل کرنا آپ کی بدنامی کا باعث ہے۔ لوگ ستمگار کہیں گے۔ ناانصافی کا الزام دیں گے۔ عشق وہ بد بلا ہے جس سے ہر انسان مجبور ہے۔ امیر غریب اس کوچہ میں یکساں ہیں۔ کسی کو دوسرے پر فوق نہیں۔ اپنے ہاتھوں بلا میں پھنسنا مصیبتیں اُٹھانا کس کو اچھا معلوم ہوتا ہے، مگر بلائے آسمانی سے کون بچ سکتا ہے۔ خسرو بر سر رحم ہوا، کہنے لگا، تیری رائے صائب ہے۔ واقعی قتل کرنا نامناسب ہے۔ اُس کو بلا کر سمجھانا چاہیے۔ دو ایک ملک دےکر خوش کر کے اس بلا کو ہٹانا بہتر ہے۔ آخر اہل دربار کو حکم ہوا کہ ہر ایک اُس کا متلاشی ہو۔ جس کو ملے بآسانی سمجھا بجھا کر حاضر دربار کرے۔ ہرگز اُس کو کسی طرح کا رنج نہ دے۔ سب سے اچھا یہ ہے کہ شیریں سے اُس کو الفت ہے، میری طرف سے اس کو پیغام پہونچایا جائے کہ شیریں کے لیے ایک عالیشان محل بنوانے کی مابدولت کو ضرورت ہے۔ اور تیری صناعی اور مہارت کی تعریف سنی ہے۔ منظور یہ ہے کہ وہ کام بھی تیرے ہی ہاتھ سے سرانجام ہو۔ ایسی عمدہ عمارت بنے کہ شیریں کو آرام ہو۔ کیا عجب ہے راضی ہو کر بخوشی حاضر دربار ہو۔ جو اُس کو لاوے گا، بیحد انعام پاوے گا۔ جب دربار برخاست ہوا، شاپور نے لوگوں کو اُس کا پتہ بتایا۔ سب اِدھر اُدھر تلاش میں روانہ ہوے۔ جنگل جنگل پھرے۔ اُس آوارۂ کوہ محبت کا پتہ نہ ملا۔ دل میں گھبرائے، عتاب شاہی سے تھرائے۔ پھر پہاڑوں پر ڈھونڈھا۔ جب پتہ نہ ملا، مجبور ہو کر پھر دشت کی راہ لی۔ ہر ایک نے حالت تباہ کی۔ اسی شش و پنج میں ایک شخص ایک اونچے درخت پر چڑھ کراِدھر اُدھر دیکھنےلگا۔ دور پر ایک جوان بحال سباہ نظر پڑا۔ درخت سے اُتر کر اُدھر روانہ ہوا۔ جب قریب پہونچا تو دیکھا کہ ایک شخص سراسیمہ بحال تباہ نالہ و آہ کر رہا ہے۔ شیریں شیریں کی صدا بلند ہے۔ کبھی ہنستا ہے گاہ روتا ہے۔ عجب حالت ہے۔ عاشقوں کی ایسی صورت ہے۔
ریختہ صفحہ 17
کبھی دل سے باتیں کرتا ہے کبھی عاشقانہ یہ غزل پڑھتا ہے۔
غزل رضاؔ لکھنؤی فرنگی محلی
کیا بہار زندگی پہلو میں جب دلبر نہ ہو
کیوں گل قالین شب غم خار سے بدتر نہ ہو
کس طرح فتراک میں باندہی وہ قاتل بعد قتل
پاؤں پڑنے کے بھی قابل جب ہمارا سر نہ ہو
ہجر کے آلام سے چھوٹوں یہ قسمت میں نہیں
موت بھی آنے کا گر وعدہ کرے باور نہ ہو
ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہے دل فراق یار میں
منتشر اے وصل یہ گنجینۂ ابتر نہ ہو
دل میں ۔۔۔۔ ہو بہو کھینچا ہے نقشہ یار کا
میری صناعی پہ مانی کس لیے ششدر نہ ہو
جس طرح جوہر الگ ہوتا نہیں تلوار سے
یوں جدا دل سے خیال ابرو دلبر نہ ہو
زلف ہے پستی پہ مائل قد بلندی کی طرف
اب تہ و بالا زمانہ کیوں مرے دلبر نہ ہو
وصل اُس مہرو کا حاصل کس طرح ہو دہر میں
جب موافق اپنا یہ چرخ ستم پرور نہ ہو
تیرتا ہے پھول بن کر بحر غم میں دل مرا
کس طرح ڈوبے وہ کشتی جس میں کچھ لنگر نہ ہو
قلب مومن آئنہ ہے ذات مومن کا رضاؔ
دیکھ کر حیران اسے کیوں عقل اسکندر نہ ہو
جاسوس قریب گیا معلوم ہوا کہ یہی فرہاد ہے۔ شیریں کی الفت میں لب پر فریاد ہے۔ ہر طرح اُس کو اپنی جانب مخاطب کرنا چاہا۔ سلام کیا۔ اِدھر اُدھر کا کلام کیا، مگر وہ مست جام عشق اپنے خیال میں مست شیریں کی یاد میں اس درجہ محو تھا کہ کسی طرح ملتفت نہ ہوا۔ اور لسم طرح مجنونانہ باتیں کرتا رہا۔ جاسوس نہایت متفکر تھا کہ کیا کروں۔ کس طرح اس دیوانہ کو اپنے قابو میں لا کر انسانیت کی باتیں کروں، سوچتے سوچتے یہ خیال آیا کہ اس سے بہانہ کر کے مطلب نکالے۔ بلند آواز سے کہا او ناشاد شریں نےمجھ کو بھیجا ہے۔ زبانی پیام کہلایا ہے۔ شیریں کا نام سنتے ہی اُس تلخ گفتار کی وحشت نے اور زور پکڑا، شیریں شیریں کہہ کر اِدھر اُدھر دوڑنے لگا۔ پھر اس نے شیریں کا نام لیا۔ اُس سودائی کو رام کیا اور کہا اور فرہاد تو نے ایسی بمثل نہر بنائی ہے کہ تمام ملک میں تیری استادی کا
ریختہ صفحہ 18
شہرہ ہی ہر طرف تیری صناعی کا چرچا ہے۔ شیریں تیری مداح ہے۔ خسرو جو اُس کا شوہر ہے، اُس کو شیریں کے لیے ایک نہایت نفیس عمدہ شاہانہ عالیشان محل بنوانا ہے۔ اور شیریں کا اصرار ہے کہ یہ عمارت بھی اُسی مہندس کے ہاتھ سے بنے۔اس لیے دربار شاہی میں تیری طلبی ہے۔ میرے ساتھ چل۔ اس ویرانے سے نکل او عاشق ناشاد اگر واقعی تجھ کو شیریں کی یاد ہے، تو اُس کے کام میں جان شیریں کو عزیز نہ جان۔ مصیبتیں اُتھانا آفتوں میں پھنسنا عاشقوں کا کام ہے۔ فرہاد اپنی بیتابی کی حالت میں یوں اپنا حال کہنے لگا۔
مسدس
نہیں معلوم کچھ ہوتی ہے ایذا جان پر کیونکر
تب فرقت سے یہ دل ۔۔۔۔۔۔ ہے سربسر کیونکر
کلیجہ کس طرح پکتا ہے بھنتا ہے جگر کیونکر
غرض ہم کیا بتائیں اپنی ہوتی ہے گذر کیوں کر
کباب سیخ ہیں ہم کروٹیں ہر سو بدلتے ہیں
جل اُٹھتا ہے جو یہ پہلو تو وہ پہلو بدلتے ہیں
کبھی نہایت درد سے آہ کر کے تمام صحرا کو ہلاتا تھا۔ چرند و پرند کو اپنی حالت پر محو حیرت بناتا تھا۔ کبھی دامان و گریبان کی دہجیاں اُڑائیں، نالے کیے آفتیں اُٹھائیں۔
کھانا پانی حرام تھا، رونے چلانے سے کام تھا۔ کبھی یہ غزل پڑھتا، خود روتا اور ونکو بھی رولاتا تھا۔
ریختہ صفحہ 19
غزل رضا لکھنؤی فرنگی محلی
پہلو سے جب وہ لے گئے دل کو نکال کے
اُف کر کے رہ گیا میں کلیجہ سنبھال کے
روتے ہیں خون آنکھوں سے اے ناوک افگنو
خواہاں زخم سینہ سے پیکان نکال کے
اے جذب دل نہ آئیے گا جب تک وہ بے طلب
قائل نہ ہوں گے ہم کبھی تیرے کمال کے
جو ہیں فریفتہ ترے حُسن ملیح کے
طالب نہ ہوں گے وہ کسی یوسف جمال کے
کیونکر نہ خرمن دل عشاق پھونک دیں
مظہر یہ برق وش ہیں صفات جلال کے
اگر دن میں اُس کی موتیوں کے ہار ڈال دوں
دکھلائے ہنس طور اگر تیری چال کے
کس کی تلاش کرائے ہیں پہلو میں آج آپ
مدت ہوئی کہ پھینکدیا دل نکال کے
کیونکر نہ اپنا عشق ہو دنیا میں لاجواب
عاشق رضاؔ ہیں ایک بت بیمثال کے
غرض بڑی دیر کے بعد جاسوس کی جانب ملتفت ہوا۔ اُس نے پہلے شیریں کا نام لیا پھر یوں کلام کیا کہ اگر شیریں کے وصل کی طلب ہے تو میرے ساتھ آ فرہاد وصال جانان کا مژدہ پا کر نہایت خوشی سے اُس کے ساتھ ہوا۔
فرہاد کا دربار خسرو میں آنا اور شیریں کے پانے کے وعدہ پر کوہ بیستون تراشنا
خسرو اپنے دربار میں بیٹھا ہوا، اسی کا حاضرین سے تذکرہ کر رہا تھا کہ کئی دن ہو گئے۔ لوگ فرہاد کی تلاش میں گئے ہیں، مگر اب تک نہ کوئی واپس آیا نہ فرہاد کو اپنے ساتھ لایا۔ فرہاد کی محبت کا شہرہ صرف اسی شہر میں نہیں، بلکہ اطراف عالم میں پھیل رہا ہے۔ عموماً ہر خاص و عام کی زبان پر اُس مصیبت زدہ کا تذکرہ ہے۔ میری رسوائی سلطنت کی کم رعبی ہوتی ہیں۔ دوست رنجیدہ اور دشمن خوش ہوتے ہیں۔ شیریں کے پارسائی کے دامن کو گناہ سے آلودہ جان کر ارمن کے رہنے والوں کو بدنام کرتے ہیں۔ نوشیروان عاسل کے خاندان کی ذلت ہو رہی ہے۔ لیکن یہ آسمانی بلا ہے، جنکو آسانی سے دفع کرنا۔
ریختہ صفحہ 20
دشوار بلکہ محال ہے۔ افسوس اگر مجھے یہ پہلے سے معلوم ہوتا کہ فرہاد کا اس شہر میں آنا یہاں کی رسوائی کا سبب اور اُس غریب کے جنون کا باعث ہو گا تو نہر کدوانے کے لیے کوئی اور صورت نکالی جاتی مگر ساتھ ہی اس کے اگر انصاف سے دیکھا جائے تو جو کام اُس نے کیا ہے، وہ اس عمدگی اور آسانی سے کوئی اعلی درجہ کا ریاضی دان کر ہی نہیں سکتا۔ اس کو قسمت کہتے ہیں کہ فرہاد خانہ برباد دفع افلاس کی فکر میں یہاں آیا اور وسواس مول لیا۔ مصیبت عشق میں پھنسا، زخم ہو تو مرہم سے مندمل کیا جائے، کوئی جسمی مرض ہو تو اطبائے حاذق کی چارہ جوئی کام آئے۔ یہ محبت وہ مرض ہے جس کی دوا نہیں۔ ایسا زخم ہے جس کو مرہم سے شفا نہیں۔ تمام حاضرین دربار اپنی اپنی عقل آرا بیان کرتے تھے، لیکن کوئی ایسی صورت کسی کے ذہن میں نہیں آتی تھی جس سے خسرو کی فکر دفع ہو۔ اس اذیت رسان رقابت کرنے والے کا فیصلہ ہو۔ اتنے میں چند لوگ جو فرہاد کی تلاش میں روانہ ہوئے تھے۔ فرہاد کو اپنے ساتھ لیے ہوئے حاضر دربار ہوئے۔ باادب سلام کر کے یوں کلام کیا، جہاں پناہ کی عمر دراز دولت زیادہ ہو۔ آپ کے اقبال سے فرہاد کو ہم نے حاضر دربار کیا، لیکن فرہاد کی یہ حالت تھی کہ اُس کو بادشاہ کا خطر نہ جانکا ڈر تھا۔ مجنونانہ حرکات کرتا۔بیہودہ بکتا ہر چہار طرف تکتا ہوا شیریں شیریں پکارتا تھا۔ شاہ نے اُس کو قریب بُلا کر پوچھا، تیرا کیا نام ہے۔ کہا عاشق ناکام۔ پوچھا کہاں وطن ہے، کہا وہ ملک عشق جو دار محن ہے، شعر نہ پوچھو، حال کچھ ہم سے کہ کس مشکل میں رہتے ہیں۔ قضا کا سامنا ہے کوچۂ قاتل میں رہتے ہیں، پوچھا وہاں کون بادشاہ ہے، کہا عشق وہاں کا شاہ ہے، پوچھا تجھے کچھ کام آتا ہے، کہا ہاں ہر وقت شیریں کا خیال رہتا ہے۔ مشق تصور اپنا کام ہے۔ اس میں گذرتی ہر صبح و شام ہے
ہمسے گریاں تو خوشی سے کبھی خنداں ہونے میں
کس قدر اُسکے تصور میں پریشاں ہونے میں
پوچھا تیرا کیا مذہب ہے۔ کہا
نہ ہندوم نہ مسلمان نہ کافرم نہ یہود
بحیر تم کہ سر انجام من چہ خواہدبود
ریختہ صفحہ 21
پوچھا تیرے ملک کا لباس کیا ہے، کہا
تن کی عریانی سے بہتر نہیں دنیا میں لباس
یہ وہ جامہ ہے کہ جس کا نہیں سیدھا اُلٹا
اس کے ان جوابوں سے خسرو کو معلوم ہوا کہ جام عشق کے نشہ سے مخمور ہے۔ محبت میں چور ہے۔ خسرو نے عنان کلام کو نصیحت کی طرف پھیرا اور کہا محبت کر کے سوا بدنامی اور رسوائی کے حاصل نہیں ہوتا ہے تو کیوں اپنی جن کے پیچھے پڑا ہے۔ دیکھ ہوش میں آ۔ اس خیال فاسد کو چھوڑ۔ شیریں کی محبت سے منہ موڑ، ورنہ جان سے ہاتھ دھونا ہو گا۔ مفت میں رسوائے زمانہ ہو گا۔ تو اُستاد زمانہ فن مہندسہ و ریاضی میں یگانہ ہے۔ اپنی لیاقت کا خیال کر کے اس بدنامی کے دہبے سے اپنے دامن کو آلودہ نہ کر۔ پھر اُس کے سمجھانے کو یہ مسدس پڑھا۔
مُسدس
کیا میں اس کافر بد کیش کا احوال کہوں
یہی خونخوار پیا کرتا ہے عاشق کا خوں
زار کر دیتا ہے انسان کو یہ اور زبوں
رفتہ رفتہ یہی پہونچاتا ہے نوبت بجنوں
یہی خون ریز تو خونخوار ہے انسانوں کا
دین کھوتا یہی کافر ہے مسلمانوں کا
یہی کرتا ہے ہر اک شخص کو رسوا ظالم
یہی کرتا ہے ہر اک چشم کو دریا ظالم
کوہ دکھلاتا گاہے گہے صحرا ظالم
کیا بتاؤں تمہیں کرتا ہے یہ کیا کیا ظالم
دربدر خاک بإسر چاک گریباں کر کے
جان لیتا ہے یہی بے سر و ساماں کر کے
اس نے مجنوں سے بنائے ہیں بہت دیوانے
اس نے خود رفتگی میں اپنے کیے بیگانے
جو کہ مشہور جہان اس کے ہیں سب افسانے
پر جو اس کام کا مشاق ہو وہ ہی جانے
کبھی معشوق کے پردے میں نہاں ہوتا ہے
کبھی سر چڑھ کے یہ عاشق کے عیاں ہوتا ہے
ناقۂ لیلی مضطر کا شتر بان یہ تھا
نجد میں قیس سے پہلے ہی حدی خواں یہ تھا
چاہ میں ڈال کے یوسف کا نگہباں یہ تھا
جان ہر شیر کی لینےکو نیستاں یہ تھا
حسن بن جاتا ہے انداز کہیں ناز کہیں
درد دل ہے یہ کہیں سوز کہیں ساز کہیں
ریختہ صفحہ 22
اس کے افسانے ہیں دنیا میں بہت طول و طویل
جس کا ہمدم یہ ہوا ہو کیا وہ خوار و ذلیل
اس کا بیمار پڑا رہتا ہے بستر پہ علیل
دھونس دے دے کے بجا دیتا ہے یہ کوس رحیل
رنج ماتم کے سوا اور یہ کیا دیتا ہے
وصل کی شب سحر ہجر دکھا دیتا ہے
یہی اخفا ہے بصد زیب رگِ ہر گل میں
سوز و نالہ یہ اسی کا ہے دل بلبل میں
یہی ہے حزیں اگر دیکھو یہی ہے کل میں
گر فرشتہ ہو تو آ جاتا ہے اس کے جُل میں
خون بے جرم زمانے کا بہاتے دیکھا
میل چتون پہ کگھی اُس کے نہ آتے دیکھا
ایک شمہ ہے کہا حال جو میں نے اس کا
جس پے اس دیو نے الطاف کا سایہ ڈالا
دشت غربت میں وہ آوارہ و سرگشتہ ہوا
دوست بھی چھوٹتے ہیں شہر بھی چھوڑا اپنا
پاس یہ جس کے گیا خلق سے وہ دور ہوا
کون سا شیشۂ دل تھا کہ نہ وہ چور ہوا
فرہاد خسرو کی نصیحت کو سنتا رہا۔ جب اُس کا سلسلۂ کلام ختم ہوا تو یوں گویا ہوا کہ واقعی جو لوگ اس محبت کے کوچہ سے ناواقف ہیں۔ اں کو اسکی قدر نہیں۔ ورنہ یہی وہ راستہ ہے جس سے خدا ملے دنیا کے تعلقات سے علاقہ باقی نہ رہے۔ تعجب ہے کہ ہر مذہب اور ملت والے دنیا کو بُرا کہتے ہیں اور اُس کے جانب التفات کرنا باعث آفات سمجھتے ہیں۔ مگر ایسی چیز کی ذرا قدر نہیں کرتے جس کا دیوانہ سب سے پہلے اس سرائے فانی کو چھوڑ کر عالم جاودانی کے خیال میں رہتا ہے۔ اور فراق یار کی تکلیفیں اور درد ہجر کی اذیتیں پا کر خدا کے عذاب سے ہر وقت پناہ مانگتا ہے۔ دنیا کے بے ثباتی پر غور کر کے ہر وقت یہاں سے کوچ کرنے کو تیار رہتا ہے۔
ہر وقت انتظار طلب میں ہیں مستعد
رہتا ہے ایک پاؤں ہمارا رکاب میں
اے صورت پرست ظاہری آراستگی اور آرایش پر فریفتہ ہونے والو ذرا شرماؤ خجالت سے گردن جھکاؤ کہ تم لوگ وصل کے حاصل ہونے کے لیے کیا کیا اذیتیں معشوق کو دینا پسند نہیں کرتے اور خسرو سچ بتا کہ جب تو نے دربار میں شیریں کی تعریف سُنی اور نادیدہ اُس کا عاشق بنا، تمام شہر میں اپنے کو مریض عشق مشہور کیا، تو کیا پہلا خیال تیرا یہ نہ تھا کہ فوج کشی کر کے
ریختہ صفحہ 23
شیریں کو شکست دے اور اس کے ملک کو تباہ کر کے اطراف و جوانب میں اس کی رسوائی کرے۔ جب ہر ملک اور ہر مقام کے لوگ اُس کا بدنامی کے ساتھ تذکرہ کرتے تو کیا شیریں کے نازک دل کے لیے اس سے زائد بھی کوئی اذیت ہوتی۔ ملک کا بادشاہ سلطنت کھو کر جب دوسرے کا ماتحت ہوتا ہے تو ایسی زندگی سے جس میں سوائے بدنامی کے کچھ حاصل نہیں موت کو پسند کرتا ہے۔ ہزار ہا واقعے تواریخ عالم میں ایسے نظر آتے ہیں کہ بادشاہان جہان نے جس وقت کہ دشمن سے شکست پائی، زہر کھا کر اپنی جان دے دی اور ذلت میں زندگی بسر کرنے کی خواہش نہ کی اور محبت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے تیری دل میں یہ خیال کیونکر آیا کہ میں شیریں کو شکست دے کر اپنے قبضہ میں لاؤں اور جام وصال سے سیر ہو کر مزے اڑاؤں۔ اُس وقت تیری عقل کہاں تھی، ہوش و حواس کون لے گیا تھا۔ آج ناصح مشفق بن کر مجھے نصیحت کرنے بیٹھا ہے اور پند کر کے مجھ کو اس مصیبت سے چھڑانا چاہتا ہے جس میں تیرے نزدیک میں پھنسا ہوا ہوں۔ میں اپنی اُسی سچی محبت کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اگر تمام روے زمین کی سلطنت میرے قبضہ میں آ جاتی تو بھی مجھے وہ لطف نہ ملتا جو تنہائی میں تصور دلدار سے حاصل ہوتا ہے۔ میں وہ ہوں کہ شیریں کی راحت رسانی کے لیے میں نے اپنی جان شیریں کو کوہکنی میں ہر وقت موت کی تلخی چکھائی۔ دن کو دن اور رات کو رات نہ سمجھا۔ کوہ کو کاہ سمجھ کر سامنے سے ہٹایا۔ اس دشوار یکے دور کرنے میں اپنی جان لڑا دی اور کسی نہ کسی طرح چراگاہ سے اُس کے محل تک جوئے شیر بنا دی جو خوشی اس خبر مجھ کو حاصل ہوئی کہ شیریں اس نہر کے تیار ہونے سے خوش ہوئی اور اپنی راحت کی وجہ سے شادمانی ظاہر کی۔ وہ خوشی مجھے ہرگز دنیا کی کسی راحت سے نہ ہوتی۔ میں اپنی جان اس پر فدا کرنا اپنے لیے فخر جانتا ہوں اور تو اپنے آرام کے لیے اُس کی ایذا رسانی پر آمادہ تھا۔ میری سچی محبت کی خبر تمام عالم میں آفتاب کی دھوپ کی طرح پھیلی ہے۔ تیری اس نصیحت سے جو تو مجھ کو کر رہا ہے ہر عاقل اور ذی ہوش سچا نتیجہ نکال سکتا ہے۔ خیر تو اپنے کام میں مشغول ہو اور مجھے اپنے خیال میں
ریختہ صفحہ 24
مست رہنے دے میں محبت سے باز نہ آؤں گا
تیری نصیحت سے کوئی فائدہ نہ اٹھاؤں گا
اشعار رضاؔ لکھنؤ فرنگی محلی
بک بک کے مغز ناصح مشفق نہ کھائیے
باز آئیں گے نہ مر کے بھی اس عاشقی سے ہم
آوارہ ہو کے پائینگے اُس بے نشاں کو
پہونچینگے سیدھی راہ پر اس گمرہی سے ہم
ہو جائیں اس میں خاک کہ پامال ناصحا
اُٹھیں گے حشر تک نہ کبھی او گلی سے ہم
چمکے گا داغ عشق ہر اکدم مثال برق
گھبرائیں کیوں لحد کی بھلا تیرگی سے ہم
مسائل ہیں جس کریم کے در پر گدا و شاہ
اے حور تجھ کو خلد میں لیں گے اُسی سے ہم
جب خسرو نے دیکھا کہ میری نصیحت آمیز باتیں اثر پذیر نہیں ہوتیں، تو یہ خیال کیا کہ اس کو زرو مال، ملک و املاک دینا چاہیے۔ شاید دولت کے خیال میں اس کی محبت دل سے جاتی رہے۔ حکم دیا کہ در بے بہا اور بیش قیمتی جواہرات جن کو بادشاہ ہفت اقلیم بھی خرید نہ سکیں حاضر دربار کئے جائیں۔ خزانچی نے حکم شاہی کے موافق تمام قیمتی جواہرات اور موتی کا انبار دربار میں لگا دیا۔ یہ حالت تھی کہ اگر کوئی نظر اُٹھا کر دیکھتا تو سوا جواہرات کے جہاں تک نظر جاتی کچھ دکھائی نہ دیتا۔ سوا حاسد کے ہر شخص کا دل دیکھنے ہی سے سیر ہوتا تھا۔ اُس وقت خسرو نے فرہاد سے کہا کہ میں تیری بھلائی کے لیے کہتا ہوں کہ یہ مال لے اور میں اس کے علاوہ اپنی سلطنت میں وہ تمام ملک بھی تجھ کو دوں گا جنکو تو پسند کرے مگر اس عشق کے خیال کو چھوڑ، شیریں کی محبت سے منہ موڑ اور اپنے ملک جا۔ جسطرح شاہانہ طریقہ پر تو چاہتا ہو زندگی بسر کر۔ فرہاد خانماں برباد خسرو کی باتیں سن کر کہنے لگا کہ افسوس ہے کہ میں نے اتنی کتھا کہی لیکن تو کچھ نہ سمجھا۔ میں جانتا ہوں کہ تو بادشاہ ہے۔ عالیجاہ ہے خزانہ آباد ہے۔ رعایا خرم و شاد ہے۔ جو جواہرات میرے پاس ہیں وہ دنیا میں کہیں نہ ہوں گے۔ لاکھوں ملکوں پر قبضہ ہی ہر طرف تیری حکومت کا چرچا ہے اور میں مفلس محتاج ہوں۔ نہ خزانہ پاس ہے نہ مال و دولت رکھتا ہوں۔ تو اپنی دولت کے غرور میں مست ہے او رمجھے غریب مسافر جان کر
ریختہ صفحہ 25
احسان کرنا چاہتا ہے لیکن مجھے عشق کی دولت نے تمام دنیا سے بے پرواہ کر دیا۔ وصال یار کے سوا کسی چیز کی خواہش نہیں۔ اُس کے خیال میں زندگی بسر ہو جاے، اس کے علاوہ اور کوئی مراد نہیں۔ اس کے بعد اضطراب کے حالت میں شیریں شیریں کہتا تمام دربار میں گھومتا اور یہ شعر پڑھتا تھا۔ شعر :
شیریں تمہیں تو کہتے ہیں فرہاد سب مجھے
ہیں پانچ حرف میرے تمہارے خطاب میں
اہل دربار اس کی دیوانگی اور عشق صادق دیکھ کر حیران تھے۔ سربہ گریبان تھے۔ ہر ایک اُس کو سمجھاتا لیکن وہ کسی کی نہ سُنتا۔ روتا اور کبھی تصور دلدار میں یہ غزل پڑھتا۔ غزل :
دفن ہو گا اے پری کشتہ جو تیری چال کا
تھر تھرائیگی زمین ہو گا گماں بھونچال کا
ہاتھ میں لے گا اگر وہ نو گل گلزار حسن
بوے گل پیدا کرے گا پھول ہر اک ڈھال کا
کھا گیا گھر تیری فرقت میں مجھے اے بحر حُسن
کام دروازے کی مچھلی نے کیا گھڑیال کا
یوں پڑے ہیں تیرے کوچے میں ہیم اے غفلت شعار
باغ میں جیسے ہو عالم سبزۂ پامال کا
آو سوزاں سے ہمارے جل رہا ہے اک جہاں
کوکب افلاک پر ہوتا ہے اشک تنجال کا
دیدۂکوکب سے روئے چرخون شبنم کی جا
میں بیان اُس سے کروں قصہ جو اپنے حال کا
اس قدر خار مغیلاں دشت غربت میں چھبے
ہو گیا عالم کف پا میں مرے غربال کا
دیکھتا ہوں جھلملاتا ابر میں اخترا گر
یاد آتا ہے چمکنا گیسوؤں میں خال کا
عشق میں اُس بت کے میں طفلی سے دیوانہ رہا
بند سادہ ہی رہا نامہ رضاؔ اعمال کا
جب خسرو کو یقین ہو گیا کہ فرہاد کا جنون عشق حد سے بڑھ چکا۔ اب اس کو نصیحت کرنا بے سود ہے تب یہ خیال کیا کہ کسی ایسے کام میں اس کو پھنسانا چاہیے کہ خود ہی مصائب اٹھا کر جان دے۔ بیجرم قید کرنا خلاف انصاف تھا۔ شہر بدر کرنے سے یہ خیال تھا کہ تما م عالم میں گھومے گا۔ ہر طرف شیریں کو بدنام کرے گا۔ تمام اطراف و جوانب کا لحاظ کر کے خسرو نے فرہاد سے کہا کہ او آوارۂ گوی عاشقی مجھے کبھی اس بات کا یقین نہیں کہ تو شیریں کا سچا عاشق ہے۔
ریختہ صفحہ 26
جبتک امتحان نہ ہو۔ فرہاد نے کہا جو منظور ہو، امتحان ہو جائے۔ خسرو نے کہا یہ جو راہ میں کوہ بیستون حائل ہے اگر تو اسے کاٹ کر راستہ بنا دے تو مسافروں پر بھی تیرا احسان ہو اور ہر قافلہ والا بے ضرورت چکر کھا کر جانے سے بچے اور مجھے بھی تیری الفت اور محبت کا یقین ہو جاے۔ جو کچھ اس کے صلہ میں تو مانگے گا، میں دوں گا اور روم و شام بلکہ تمام عالم میں قیامت تک تیرا نام مشہور ہو گا۔ فرہاد نے کہا بدل منظور ہے لیکن جب یہ کام مجھ سے ہو جائے تو اُس کے صلہ میں مجھے شیریں ملے۔ بادشاہ یہ رقاب کا جملہ سُن کر دل میں بیحد کشیدہ ہوا مگر چونکہ جانتا تھا کہ یہ کام ہو نہیں سکتا۔ فرہاد اس تمنا میں اپنی جان دے گا۔ میرا مقصد بر آوے گا۔ فوراً قبول کر لیا کہ اگر کہ بیستون کو تراش کر تو نے صاف راہ بنا دی تو میں شیریں کو تیرے حوالہ کر دوں گا۔ اس مشقت کے صلہ میں تیرا دامن گوہر مقصود سے بھروں گا۔ کچھ زمانے کی مہلت فرہاد اس کام کے انجام دینے کے لیے حاصل کر کے دیوانہ وار وہاں سے بیستون کی جانب روانہ ہوا۔
فرہاد کا بیستون کو کاٹنا اور شیریں کے دل میں اُس کی فریاد کا اثر کرنا اور فرہاد سے ملنے کوہ بیستون پر جانا
فرہاد کو شیریں کے ملنے کی امید نے ایسا قوی بنا دیا تھا کہ اُس کی دہن میں راہ طے کرتا ہوا کوہ بیستون پر پہونچا۔ ہر طرف سبزہ زار دیکھ کر پھر اُسے خیال وصال کی دہن سمائی اور خیال یار سے یوں باتیں کرنے گا۔
خمسہ
رنج و غم سے ہوے آنکھوں میں فراواں آنسو
پہلے بہتے نہ تھے یوں دیدۂ گریاں آنسو
اب تو ہر لحظہ مجھے کرتے ہیں نالاں آنسو
کیا دکھائیں گے مجھے نوح کا طوفاں آنسو
نہیں تھمتے نہیں تھمتے کسی عنوان آنسو
ابنات