افسانہ قسمت از عبدالقدیر محمد قرطاس

نائس اردو

محفلین
میں نے گھٹی ہوئی آواز میں اپنی محبوبہ سے کہا "سویرا مجھے تم سے پیار ہے ؛
میری آواز خود مجھے اجنبی سی محسوس ہو رہی تھی ۔ میں خاموشی
میں ڈوب سا گیا ،۔
بڑی سرد ہوائیں چل رہی تھیں بارش کے چھینٹے میرے وجود کو اپنی لپیٹ میں لینے کی کوشش کر رہے تھے ،شفق بالکل میرے پاس آ کر
بولی کاشف تمہیں سردی لگ رہی ہے اور پھر ایک طویل قہقہہ اس کے منھ سے برآمد ہوا
شفق میری رشتہ دار تھی اور شاید قریبی ہی تھی اس ہی لیے چھٹیاں گزارنے شہر سے ہمارے گاوں آئی تھی ،ہم گاوں گے باقی
لوگوں کی نسبت تھوڑے خوشحال تھے ہمارے گھر کے صحن میں پھول دار ٹاہلیں لگی ہوئیں تھیں ۔ باورچی خانے میں لکڑیوں کے علاوہ گیس بھی جلائی جاتی تھی اور سب سے بڑ کریہ کہ ہمارے گھر کی پچھلی طرف ایک لیٹرین بھی تھی ،
مجھے شفق بہت عجیت سی لگی میری عمر بیس سال تھی اور وہ مجھ سے صرف چھ ماہ ہی چھوٹی ہے ، ،جب وہ مجھ سے ملنے آئی تو اس نے میری طرف ہاتھ بڑھایا حالانکہ میں اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے کے لئے اپنا ہاتھ اٹھا چکا تھا ہمارے ہاں یہ روایات بہت پُرانی ہیں اس سے اظہار شفقت ہوتا ہے
میں نے جب اس سے ہاتھ ملایا تو مجھے یوں لگا جیسے میں نے روئی سے بھی زیادہ کسی نرم چیز کو ہاتھ لگایا ہو میں نے گھبرا کر اس کا ہاتھ چھوڑ دیا
پھر میرا یہ تعلق محبت میں تبدیل ہوتا گیا ،ایک سرد شام کو اس نے
میرا ہاتھ پکڑ کر کہا کاشی مجھے تم سے محبت ہو گئ ہے
اور میں ہواوں میں اڑنے لگا ،اس کی محبت کے نشے میں مدہوش سا ہو گیا
میں نے بھی اس سے کہا مجھے تم سے پیار ہے
ہوش اس وقت آیا جب اس نے اپنی شادی کا کارڈ مجھے پکڑاتے ہوئے کہا کاشف میری شادی ہو رہی ہے میری شادی پر ضرور آنا
اور میں نے حیرت کے عالم میں اسے دیکھتے ہوئے کہا شفق تم تو مجھ سے محبت کرتی ہو ، تم نے مجھے کہا ہی نہیں میں اپنی ماں کو تمہاری طرف رشتے کے لئے بھیجتا
اس کے منھ سے ایک طویل قہقہہ خارج ہوا
میں تو تم سے صرف محبت کرتی ہوں یار شادی وغیرہ میں نہیں کرسکتی ،مجھے ابھی بھی تم سے محبت ہے اور اگر تم مجھ سے
دوبارہ ایسی باتیں پوچھو گے تو میں تم سے محبت کرنا بھی ترک کر دوں گی
اور اس گے بعد میں خاموش ہو گیا
کاشف آپ کہاں کھو گے ،۔
کہیں نہیں بس یہ سوچ رہا تھا جانے تمارا جواب کیا ہو
سویرا کے چہرے پر لالی سی چھا گئ
روکے روکے لہجے میں اس نے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں کہا
دیکھیں کاشف میں نے اپنا پیار اپنی محبت اپنا سب کچھ
اپنے شوہر کی امانت کے طور پر سنبھال کر رکھا ہوا ہے
بے شک آپ میرے قریبی رشتہ دار ہیں پھر بھی میں آپ سے
التماس کرتی ہوں گے مجھ سے ایسی باتیں نہ کریں خالہ جی کو
ہمارے گھر بھیجیے ،اور میری دعا آپ کے ساتھ ہے کہ ان کا جواب ہاں میں ہو
میں نے حیرت سے سویرا کے چہرے کی طرف دیکھا
کتنی حیا تھی اس کی آنکھوں میں اور کس قدر متانت تھی
اس کے لہجے میں
اس کی طرف مسکرا کر دیکھا اور اپنے قدم گھر کی طرف بڑھا دیے
مجھے اپنی ماں سے ملنا تھا پہلے بھی کافی دیر ہو چکی تھی اور
میں مزید دیر نہیں کرنا چاہتا تھا میں چاہتا تھا ماں کل ہی سویرا کے
گھر بات کرنے جاہیں
__________________
 
Top