حسان خان
لائبریرین
افسانہ مرے درد کا اُس یار سے کہہ دو
فرقت کی مصیبت کو دل آزار سے کہہ دو
جھکتا نہیں یہ دل طرفِ قبلۂ عالم
محرابِ خمِ ابروئے دلدار سے کہہ دو
ایک تو ہی نہیں میں بھی ہوں اُن آنکھوں کا مارا
اے اہلِ نظر نرگسِ بیمار سے کہہ دو
سِسکے ہے پڑا خنجرِ مژگاں کا یہ گھائل
تیرِ نگہِ دیدۂ خونخوار سے کہہ دو
میں عشق کی ملت میں ہوں اے شیخ و برہمن
جا عشق مرا سبحہ و زنّار سے کہہ دو
کیا جوش میں ہے اب مئے وحدت خمِ دل میں
اُبلے ہے پڑی رومی و عطار سے کہہ دو
جوں مہر کے سنمکھ کہے آئینہ انا الشمس
بولوں ہوں انا اللہ سرِ دار سے کہہ دو
مشکل جو نیاز آئے تمہیں فقر میں درپیش
جا شاہِ نجف حیدرِ کرّار سے کہہ دو
(حضرت شاہ نیاز بریلوی)
سنمکھ (sanmukh) = سامنے، روبرو، بالمقابل