سید زبیر
محفلین
افسانہ نگار اور محقق ڈاکٹر رشید امجد کی ڈائری سے اقتباسات
اسلام کا نام لینے والوں کا تصوراسلام قبائلیت اور ملوکیت کی پیداوار ملاؤں تک محدود ہے۔ یہ لوگ اسلام کی پابندیوں کا ذکر توزوروشور سے کرتے ہیں، رسومات اور عبادات پر زور دیتے ہیں لیکن اسلام کی برکات ، وسعت قلبی، احترام انسانیت اور مساوات کی بات نہیں کرتے۔ ضیاء کے دور میں جب نصاب کو اسلامی بنانے کا کام شروع ہوا تو ایسی ایسی مضحکہ خیز صورتیں پیدا ہوئیں کہ اب وہ لطیفے بن گئی ہیں۔غلام جیلانی اصغر نے بتایا کہ انہیں وفاقی وزارت تعلیم کی طرف سے فون آیا کہ اس سلسلے کا ایک اجلاس ہورہا ہے وہ اس میں شرکت کریں۔ جب وہ اسلام آباد پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ دوسرے دن صبح سب نے خانس پور جانا ہے جہاں شام تک نصاب کو اسلامی بنانے کا کام ہوگا اور رات کو سرکاری ضیافت ہے۔ دوسرے بہت سے اساتذہ کے ساتھ جیلانی صاحب خانس پور پہنچے۔ ہال میں ایک لمبی میز پر درسی کتابیں سجی ہوئی تھیں۔کہاگیا کہ ان کے کمرے مخصوص ہیں وہ جتنی کتابیں چار بجے تک دیکھ سکتے ہیں اٹھا لیں اور اپنے اپنے کمروں میں جا کر انہیں اسلامی قالب میں ڈھال دیں۔جیلانی صاحب نے دو کتابیں اٹھالیں۔ ایک شخص رجسٹرمیں اندراج کررہا تھا۔ انہوں نے اندراج کرایا اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔ بتانے لگے کہ چار بجے تک میں بمشکل انہیں پڑھ سکا اور جہاں جہاں ضروری تھا، نشاندہی کردی۔چا ر بجے جب سب چائے کے لیے ہال میں جمع ہوئے تو ایک شخص نے کتابیں اکھٹی کیں اور سب کو چیک دئیے۔ جب اسلام آباد واپسی کے لیے بس روانہ ہوئی تو راستہ میں ان کے ساتھ بیٹھے ایک شخص نے پوچھا’’آپ کا چیک کتنے کا ہے؟جیلانی صاحب نے بتایاتو وہ شخص بولا’’اتنا کم، آپ نے کتنی کتابیں دیکھی ہیں‘‘جیلانی صاحب نے کہا____’’دو____وہ بھی بڑی مشکل سے‘‘وہ شخص بولا____’’میں تو دس کتابیں لے گیا تھا‘‘جیلانی صاحب نے حیرت سے پوچھا____’’اتنے کم عرصے آپ نے دس کتابیں دیکھ لیں۔‘‘
وہ شخص بولا____’’اس میں کیا دیکھنا تھا، بس جہاں گڈمارننگ تھا وہاں السلام علیکم کردیا۔جہاں بائی بائی تھا وہاں خداحافظ لکھ دیا اور کیا کرنا تھا‘‘
ڈاکٹر انوار احمد نے بتایا کہ انہوں نے اسی طرح کی اسلامائزیشن کی ایک رپورٹ دیکھی ہے جس میں ریویو کرنے والے نے لکھا تھا کہ حساب کی ایک کتاب میں درج ہے’’نفیسہ کے پاس چارپنسلیں ہیں، رضیہ کے پاس تین پنسلیں ہیں بتائیں پنسلوں کی کل تعداد کتنی ہوئی‘‘اس پر ریویو کرنے والے صاحب نے لکھا کہ کلاس میں لڑکے بھی ہوتے ہیں ان کے سامنے لڑکیوں کے نام لینا نا محرم کے سامنے نام لینے کے مترادف ہے اس لیے لڑکیوں کے ناموں کی بجائے ایک لڑکی اور دوسری لڑکی کردیا جائے۔
ضیاء کی اسلامائزیشن اسی طرح کی تھی۔ یاروں نے لمبا مال کمایا، لیکن بعد میں یہ صورت حال بدتر ہوتی گئی۔اب صورت یہ ہے کہ مولوی عبدالحق کے خاکے’’نام دیومالی‘‘ کی آخری دوسری سطریں نصابی کتب سے حذف کردی گئی ہیں۔کیونکہ ان میں لکھاتھا کہ نام دیومالی بھی جنت میں جاسکتا ہے۔ بلوچستان کے نصاب سے مرثیہ نکال دیا گیا ہے، لوک کہانیوں تک میں ترامیم کردی گئی ہیں، جو قوم اپنے ماضی کے ورثے کو اپنانے کے لیے تیار نہیں اوراسے غیر اسلامی سمجھتی ہے اس سے زیادہ بدنصیب قوم کون ہوسکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہماری کوئی لسانی اور ثقافتی پالیسی نہیں اور ہماری کوئی پہچان نہیں۔ ہم بے چہرہ، بے نام لوگ ہیں جو اپنے آباواجداد پر بھی تنقید کرتے ہیں، انہیں برا اور کافر کہتے ہیں۔
ضیاء دور میں سنسر تھا ہر اخبار اور رسالے کو اشاعت سے پہلے مواد سنسر کرانا پڑتا تھا اس سلسلے میں بھی جو کچھ ہوتا تھا وہ بھی لطیفوں سے کم نہیں،ایک جریدہ کامواد جب سنسر شپ کے لیے پیش کیا گیا تو سنسر آفیسر نے ایک کہانی کے بارے میں کہا۔’’کہانی تو بالکل ٹھیک ہے لیکن یہ جملہ کہ’’وہ ننگے پاؤں کمرے میں داخل ہوگئی‘‘قابل اعتراض ہے۔ اس میں سے ننگے کا لفظ نکال دیں‘‘
***
موسیقی سے کسے لگاؤنہیں ہوتا، کہیں پڑھا تھا کہ موسیقی اعصابی تناؤ کو کم کرتی ہے ۔ہلکی پھلکی موسیقی پچپن ہی سے سنتا آیا تھا اور اس زمانے میں ایسے ریستوران جگہ جگہ تھے جہاں چٹ بھیج کر چائے کی ایک پیالی کے بدلے پسند کے گانے سنے جاسکتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ٹی وی کا تو وجود نہیں تھا ریڈیو بھی کسی کسی گھر میں ہوتا تھا۔ کلاسیکی موسیقی سے میرا پہلا تعارف افتخار جالب کے ذریعے ہوا۔ ان دنوں میں تقریباً ہر ہفتہ ان سے ملنے لاہور جاتا تھا۔ایسے ہی ایک ہفتے کی شام جب میں ان کے پاس پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھا تھا تو وہ کہنے لگے____’’اگر کوئی مصروفیت نہیں تو رات کو نو بجے وائی ایم سی میں آجاؤ،افغانستان کے ایک نامور گائیک آرہے ہیں‘‘مجھے اب گائیک کا نام یاد نہیں، بہرحال میں نو بجے وائی ایم سی ہال میں پہنچ گیا۔ محفل رات گئے تک چلی جس میں زیادہ کلاسیکی موسیقی اور کچھ ہلکے پھلکے گانے سنائے گئے۔ میں نے پہلی بار اتنی دیر تک پکی موسیقی سنی تھی جو بمشکل ہضم ہوسکی۔ موسیقی سے گہرا تعلق منشایاد کی وجہ سے ہوا۔منشا کو ریکارڈ جمع کرنے اور دوستوں کو اکٹھا کر کے سنوانے کا جنون تھا۔ وہ ہر پہلی کو میرے پاس آتا اور ہم راجہ بازار سے نئے ریکارڈ جنہیں توا کہا جاتا تھا ، خریدتے پھر منشا کے گھر محفل جمتی۔ یہ محفل رات گئے تک جاری رہتی ۔بھابھی بہت ہی نفیس اور کشادہ دل خاتون ہیں، تھوڑی تھوڑی دیرکے بعد چائے ملتی رہتی، اکثر کھانا بھی وہیں کھاتے۔ ان محفلوں میں راولپنڈی سے میرے ساتھ غلام سرور بھی کبھی کبھی شریک ہوتے۔کبھی احمد داؤد، کبھی مظہر الاسلام اور ایس اے ناز، جو منشایاد کی پچھلی گلی رہتے تھے، شامل ہوتے۔میں تو باقاعدہ آنے والوں میں سے تھا۔ اکثر یوں ہوتا کہ منشا کمرے کی بتی بجھادیتا۔ اندھیرے میں موسیقی سنتے ہوئے اپنے اپنے دکھ یاد آجاتے۔میں اس زمانے میں محبت میں اندھا ہورہا تھا۔ اب وہ دنیا میں نہیں۔میں نے اسی زمانے میں سگریٹ پینا شروع کردئیے اور جب کمرے میں اندھیراہوجاتا تومیں اپنا سگریٹ اپنے ہا تھ پر بجھاتا، اس کے نشان اب بھی میرے بائیں ہاتھ کی پشت پر موجود ہیں۔ یہ ایک طرح کی خود اذیتی تھی۔ آٹھ دس دن بعدہماری ملاقات ہوتی۔ میں فون کرتا تو وہ کبھی فوراً اور کبھی ناں ناں کرتے رضا مند ہوجاتی۔ ہم راولپنڈی جی پی او کے سامنے والے بس سٹاپ پر اکھٹے ہوتے۔ یہ سردیوں کے دن تھے۔ وہ پاؤں تک لمبا اوورکوٹ پہنے ٹیکسی سے اترتی اور ہم سلورگرل چلے جاتے۔ سلورگرل کے ہال سے منسلک چار فیملی کیبن تھے۔کسی ایک میں جگہ مل جاتی۔ چائے پیتے ہوئے خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے۔ سلور گرل ریستوران میں دیر تک بیٹھنے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ دو دو گھنٹے بیٹھے ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے۔سلور گرل سے اٹھ کر مال روڈ سے ہوتے ہوئے جی ایچ کیو چوک تک آتے، وہاں سے مری روڈ پر مڑ جاتے اور ڈینیز ہائی سکول کی سائڈ روڈ پر آجاتے۔ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دئیے کوئی بات کیے بغیر جانے کتنے چکر کاٹتے،ایک دوسرے کی موجودگی کے لمس سے لطف اندوز ہوتے رہتے۔تعلقات کا ایک مرحلہ وہ ہوتا ہے جہاں اظہار کے لیے لفظوں کی ضرورت نہیں رہتی۔پھر میں اسے اکبر مارکیٹ کے قریب الوداع کہتا اور دیر تک کھڑا اسے جاتے دیکھتا رہتا۔منشایاد کے اندھیرے کمرے میں موسیقی سنتے ہوئے یہ منظرباربار میری آنکھوں میں لہراتا،سگریٹ سلگاتااور پھراسے اپنے بائیں ہاتھ کی پشت پر بجھا دیتا۔ ایک بار منشا نے دیکھ لیا اور اس کے بعد اس نے کمرے میں اندھیرا کرنا چھوڑ دیا۔ ہماری شب نوردی اور سلور گرل کی محفلوں کا یہ سلسلہ جس طرح اچانک اور خاموشی سے شروع ہوا تھا اسی طرح ختم ہوگیا۔ اس کے دل میں اس کی کسک کتنی دیررہی یہ مجھے معلوم نہیں البتہ میں طویل عرصہ تک اسے نہ بھلا سکااور موسیقی میں اس کا مداوا تلاش کرتا رہا۔ اداس کرنے والے گیتوں نے مجھے اپنی بُکل میں دبا لیا۔ میں نے پہلے ٹیپ ریکارڈراور بعد میں ڈیک خریدا۔اب کیسٹوں کا دور آگیا تھا میرے پاس ایک زمانے میں لتا کا پورا سیٹ تھا، سہگل کا انتخاب اور کئی دوسرے موسیقاروں کے منتخب نغمے، نانک پورہ سے نئے گھر میں آئے تو یہ سارا خزانہ میرے ساتھ تھا۔ پھر ڈیک خراب ہوگیا، میرا جنون بھی کچھ مدھم پڑگیا اور یہ سارا ذخیرہ اِدھر اُدھرہوگیا۔ایک طویل عرصہ تک دلچسپی اور شوق کے باوجودمیں ادھر متوجہ نہ ہوا۔ البتہ کلاسیکی موسیقی کا کچھ کچھ ذوق پیدا ہوگیا تھا اور وہ عموماً پی ٹی وی کے کلاسیکی موسیقی کے خصوصی پروگراموں سے پورا ہوجاتا تھا۔ اس دوران موسیقی کا مجموعی مزاج بدل گیا۔کوملتا اور دل گدازنرم نرم سروں کی بجائے پاپ میوزک مقبول ہوگیا جسے میرے کان گوارانہ کرتے۔کبھی کسی پرانے گانے کی آواز کان میں پڑتی تو لمحہ بھر کے لیے توجہ ادھر مبذول ہوجاتی ۔اب میڈیا اور دوسری جگہوں پر پاپ میوزک ہی سنائی دیتا اس لیے موسیقی سے میری دلچسپی بہت کم ہوگئی لیکن موسیقی تو روح کی غذا ہے، اس کی مٹھاس اندر سے نہیں نکل سکتی۔ عمر کے اس حصے میں اچانک احساس ہوا کہ تفکرات اور اعصابی تناؤ کو دور کرنے کے لیے موسیقی بہترین علاج ہے۔میں نے ایک بہت اچھا ڈیک لیالیکن اپنی پسند کے گانوں کو حاصل کرنا مسئلہ بن گیا۔ موسیقی کی بڑی بڑی دکانوں پر خورشید انور کو اب کوئی نہیں جانتا۔فریدہ خانم کی کوئی کیسٹ مشکل سے ملتی ہے۔ شکرہے مہدی حسن ابھی جانے جاتے ہیں۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ بے سُرے گانے والے اور تھرک تھرک کر ناچنے والے نئی نسل کے پسندیدہ گلوکار ہیں۔سُر کو سمجھنے اور اس کی باریکیوں کو جاننے والے اب خال خال ہیں۔میں کسی محفل میں یہ رونا رو رہا تھا تو خالد فتح محمد نے گوجرانوالہ سے مجھے کلاسیکی موسیقی کی ایک بہت ہی عمدہ اور منتخب سی ڈی بھجوائی۔ ڈاکٹر عزیز ابن الحسن نے خورشید انور کے اپنے منتخب کیے ہوئے راگوں کا ایک سیٹ عنایت کیا۔ رات سونے سے پہلے ایک آدھ چیز سن کر نیند میں ایک شیرینی سی گھل جاتی ہے ۔ دوریادوں کے جھروکے سے کوئی جھانکتا ہے۔ خاموش سڑک پر ہاتھ میں ہاتھ دئیے خاموشی سے چلتے دو وجود، اب ایک ہیولہ بن گئے ہیں۔ بعض دکھ اور احساس ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں کسی سے شیئر نہیں کیاجاسکتا ۔ حتیٰ کہ رفیق حیات اور عزیز سے عزیز دوستوں سے بھی کچھ باتیں، کچھ دکھ بیان نہیں کیے جاسکتے۔بنیادی طور پر آدمی تنہا ہے، اس کے دکھ اور احساسات بھی اسی کے ہیں۔ جنہیں اپنے سینے میں چھپائے ایک دن دنیا کے ہنگاموں سے نکل کر وہ ایک تنہا سفر پر روانہ ہوجاتا ہے۔ تنہائی او راداسی آدمی کا مقدر ہے اور شاید یہی اس کا خسارہ ہے۔
***
اسلام کا نام لینے والوں کا تصوراسلام قبائلیت اور ملوکیت کی پیداوار ملاؤں تک محدود ہے۔ یہ لوگ اسلام کی پابندیوں کا ذکر توزوروشور سے کرتے ہیں، رسومات اور عبادات پر زور دیتے ہیں لیکن اسلام کی برکات ، وسعت قلبی، احترام انسانیت اور مساوات کی بات نہیں کرتے۔ ضیاء کے دور میں جب نصاب کو اسلامی بنانے کا کام شروع ہوا تو ایسی ایسی مضحکہ خیز صورتیں پیدا ہوئیں کہ اب وہ لطیفے بن گئی ہیں۔غلام جیلانی اصغر نے بتایا کہ انہیں وفاقی وزارت تعلیم کی طرف سے فون آیا کہ اس سلسلے کا ایک اجلاس ہورہا ہے وہ اس میں شرکت کریں۔ جب وہ اسلام آباد پہنچے تو انہیں بتایا گیا کہ دوسرے دن صبح سب نے خانس پور جانا ہے جہاں شام تک نصاب کو اسلامی بنانے کا کام ہوگا اور رات کو سرکاری ضیافت ہے۔ دوسرے بہت سے اساتذہ کے ساتھ جیلانی صاحب خانس پور پہنچے۔ ہال میں ایک لمبی میز پر درسی کتابیں سجی ہوئی تھیں۔کہاگیا کہ ان کے کمرے مخصوص ہیں وہ جتنی کتابیں چار بجے تک دیکھ سکتے ہیں اٹھا لیں اور اپنے اپنے کمروں میں جا کر انہیں اسلامی قالب میں ڈھال دیں۔جیلانی صاحب نے دو کتابیں اٹھالیں۔ ایک شخص رجسٹرمیں اندراج کررہا تھا۔ انہوں نے اندراج کرایا اور اپنے کمرے میں چلے گئے۔ بتانے لگے کہ چار بجے تک میں بمشکل انہیں پڑھ سکا اور جہاں جہاں ضروری تھا، نشاندہی کردی۔چا ر بجے جب سب چائے کے لیے ہال میں جمع ہوئے تو ایک شخص نے کتابیں اکھٹی کیں اور سب کو چیک دئیے۔ جب اسلام آباد واپسی کے لیے بس روانہ ہوئی تو راستہ میں ان کے ساتھ بیٹھے ایک شخص نے پوچھا’’آپ کا چیک کتنے کا ہے؟جیلانی صاحب نے بتایاتو وہ شخص بولا’’اتنا کم، آپ نے کتنی کتابیں دیکھی ہیں‘‘جیلانی صاحب نے کہا____’’دو____وہ بھی بڑی مشکل سے‘‘وہ شخص بولا____’’میں تو دس کتابیں لے گیا تھا‘‘جیلانی صاحب نے حیرت سے پوچھا____’’اتنے کم عرصے آپ نے دس کتابیں دیکھ لیں۔‘‘
وہ شخص بولا____’’اس میں کیا دیکھنا تھا، بس جہاں گڈمارننگ تھا وہاں السلام علیکم کردیا۔جہاں بائی بائی تھا وہاں خداحافظ لکھ دیا اور کیا کرنا تھا‘‘
ڈاکٹر انوار احمد نے بتایا کہ انہوں نے اسی طرح کی اسلامائزیشن کی ایک رپورٹ دیکھی ہے جس میں ریویو کرنے والے نے لکھا تھا کہ حساب کی ایک کتاب میں درج ہے’’نفیسہ کے پاس چارپنسلیں ہیں، رضیہ کے پاس تین پنسلیں ہیں بتائیں پنسلوں کی کل تعداد کتنی ہوئی‘‘اس پر ریویو کرنے والے صاحب نے لکھا کہ کلاس میں لڑکے بھی ہوتے ہیں ان کے سامنے لڑکیوں کے نام لینا نا محرم کے سامنے نام لینے کے مترادف ہے اس لیے لڑکیوں کے ناموں کی بجائے ایک لڑکی اور دوسری لڑکی کردیا جائے۔
ضیاء کی اسلامائزیشن اسی طرح کی تھی۔ یاروں نے لمبا مال کمایا، لیکن بعد میں یہ صورت حال بدتر ہوتی گئی۔اب صورت یہ ہے کہ مولوی عبدالحق کے خاکے’’نام دیومالی‘‘ کی آخری دوسری سطریں نصابی کتب سے حذف کردی گئی ہیں۔کیونکہ ان میں لکھاتھا کہ نام دیومالی بھی جنت میں جاسکتا ہے۔ بلوچستان کے نصاب سے مرثیہ نکال دیا گیا ہے، لوک کہانیوں تک میں ترامیم کردی گئی ہیں، جو قوم اپنے ماضی کے ورثے کو اپنانے کے لیے تیار نہیں اوراسے غیر اسلامی سمجھتی ہے اس سے زیادہ بدنصیب قوم کون ہوسکتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ ہماری کوئی لسانی اور ثقافتی پالیسی نہیں اور ہماری کوئی پہچان نہیں۔ ہم بے چہرہ، بے نام لوگ ہیں جو اپنے آباواجداد پر بھی تنقید کرتے ہیں، انہیں برا اور کافر کہتے ہیں۔
ضیاء دور میں سنسر تھا ہر اخبار اور رسالے کو اشاعت سے پہلے مواد سنسر کرانا پڑتا تھا اس سلسلے میں بھی جو کچھ ہوتا تھا وہ بھی لطیفوں سے کم نہیں،ایک جریدہ کامواد جب سنسر شپ کے لیے پیش کیا گیا تو سنسر آفیسر نے ایک کہانی کے بارے میں کہا۔’’کہانی تو بالکل ٹھیک ہے لیکن یہ جملہ کہ’’وہ ننگے پاؤں کمرے میں داخل ہوگئی‘‘قابل اعتراض ہے۔ اس میں سے ننگے کا لفظ نکال دیں‘‘
***
موسیقی سے کسے لگاؤنہیں ہوتا، کہیں پڑھا تھا کہ موسیقی اعصابی تناؤ کو کم کرتی ہے ۔ہلکی پھلکی موسیقی پچپن ہی سے سنتا آیا تھا اور اس زمانے میں ایسے ریستوران جگہ جگہ تھے جہاں چٹ بھیج کر چائے کی ایک پیالی کے بدلے پسند کے گانے سنے جاسکتے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ٹی وی کا تو وجود نہیں تھا ریڈیو بھی کسی کسی گھر میں ہوتا تھا۔ کلاسیکی موسیقی سے میرا پہلا تعارف افتخار جالب کے ذریعے ہوا۔ ان دنوں میں تقریباً ہر ہفتہ ان سے ملنے لاہور جاتا تھا۔ایسے ہی ایک ہفتے کی شام جب میں ان کے پاس پاک ٹی ہاؤس میں بیٹھا تھا تو وہ کہنے لگے____’’اگر کوئی مصروفیت نہیں تو رات کو نو بجے وائی ایم سی میں آجاؤ،افغانستان کے ایک نامور گائیک آرہے ہیں‘‘مجھے اب گائیک کا نام یاد نہیں، بہرحال میں نو بجے وائی ایم سی ہال میں پہنچ گیا۔ محفل رات گئے تک چلی جس میں زیادہ کلاسیکی موسیقی اور کچھ ہلکے پھلکے گانے سنائے گئے۔ میں نے پہلی بار اتنی دیر تک پکی موسیقی سنی تھی جو بمشکل ہضم ہوسکی۔ موسیقی سے گہرا تعلق منشایاد کی وجہ سے ہوا۔منشا کو ریکارڈ جمع کرنے اور دوستوں کو اکٹھا کر کے سنوانے کا جنون تھا۔ وہ ہر پہلی کو میرے پاس آتا اور ہم راجہ بازار سے نئے ریکارڈ جنہیں توا کہا جاتا تھا ، خریدتے پھر منشا کے گھر محفل جمتی۔ یہ محفل رات گئے تک جاری رہتی ۔بھابھی بہت ہی نفیس اور کشادہ دل خاتون ہیں، تھوڑی تھوڑی دیرکے بعد چائے ملتی رہتی، اکثر کھانا بھی وہیں کھاتے۔ ان محفلوں میں راولپنڈی سے میرے ساتھ غلام سرور بھی کبھی کبھی شریک ہوتے۔کبھی احمد داؤد، کبھی مظہر الاسلام اور ایس اے ناز، جو منشایاد کی پچھلی گلی رہتے تھے، شامل ہوتے۔میں تو باقاعدہ آنے والوں میں سے تھا۔ اکثر یوں ہوتا کہ منشا کمرے کی بتی بجھادیتا۔ اندھیرے میں موسیقی سنتے ہوئے اپنے اپنے دکھ یاد آجاتے۔میں اس زمانے میں محبت میں اندھا ہورہا تھا۔ اب وہ دنیا میں نہیں۔میں نے اسی زمانے میں سگریٹ پینا شروع کردئیے اور جب کمرے میں اندھیراہوجاتا تومیں اپنا سگریٹ اپنے ہا تھ پر بجھاتا، اس کے نشان اب بھی میرے بائیں ہاتھ کی پشت پر موجود ہیں۔ یہ ایک طرح کی خود اذیتی تھی۔ آٹھ دس دن بعدہماری ملاقات ہوتی۔ میں فون کرتا تو وہ کبھی فوراً اور کبھی ناں ناں کرتے رضا مند ہوجاتی۔ ہم راولپنڈی جی پی او کے سامنے والے بس سٹاپ پر اکھٹے ہوتے۔ یہ سردیوں کے دن تھے۔ وہ پاؤں تک لمبا اوورکوٹ پہنے ٹیکسی سے اترتی اور ہم سلورگرل چلے جاتے۔ سلورگرل کے ہال سے منسلک چار فیملی کیبن تھے۔کسی ایک میں جگہ مل جاتی۔ چائے پیتے ہوئے خاموشی سے ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے۔ سلور گرل ریستوران میں دیر تک بیٹھنے پر کوئی پابندی نہیں تھی۔ دو دو گھنٹے بیٹھے ایک دوسرے کو دیکھتے رہتے۔سلور گرل سے اٹھ کر مال روڈ سے ہوتے ہوئے جی ایچ کیو چوک تک آتے، وہاں سے مری روڈ پر مڑ جاتے اور ڈینیز ہائی سکول کی سائڈ روڈ پر آجاتے۔ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ دئیے کوئی بات کیے بغیر جانے کتنے چکر کاٹتے،ایک دوسرے کی موجودگی کے لمس سے لطف اندوز ہوتے رہتے۔تعلقات کا ایک مرحلہ وہ ہوتا ہے جہاں اظہار کے لیے لفظوں کی ضرورت نہیں رہتی۔پھر میں اسے اکبر مارکیٹ کے قریب الوداع کہتا اور دیر تک کھڑا اسے جاتے دیکھتا رہتا۔منشایاد کے اندھیرے کمرے میں موسیقی سنتے ہوئے یہ منظرباربار میری آنکھوں میں لہراتا،سگریٹ سلگاتااور پھراسے اپنے بائیں ہاتھ کی پشت پر بجھا دیتا۔ ایک بار منشا نے دیکھ لیا اور اس کے بعد اس نے کمرے میں اندھیرا کرنا چھوڑ دیا۔ ہماری شب نوردی اور سلور گرل کی محفلوں کا یہ سلسلہ جس طرح اچانک اور خاموشی سے شروع ہوا تھا اسی طرح ختم ہوگیا۔ اس کے دل میں اس کی کسک کتنی دیررہی یہ مجھے معلوم نہیں البتہ میں طویل عرصہ تک اسے نہ بھلا سکااور موسیقی میں اس کا مداوا تلاش کرتا رہا۔ اداس کرنے والے گیتوں نے مجھے اپنی بُکل میں دبا لیا۔ میں نے پہلے ٹیپ ریکارڈراور بعد میں ڈیک خریدا۔اب کیسٹوں کا دور آگیا تھا میرے پاس ایک زمانے میں لتا کا پورا سیٹ تھا، سہگل کا انتخاب اور کئی دوسرے موسیقاروں کے منتخب نغمے، نانک پورہ سے نئے گھر میں آئے تو یہ سارا خزانہ میرے ساتھ تھا۔ پھر ڈیک خراب ہوگیا، میرا جنون بھی کچھ مدھم پڑگیا اور یہ سارا ذخیرہ اِدھر اُدھرہوگیا۔ایک طویل عرصہ تک دلچسپی اور شوق کے باوجودمیں ادھر متوجہ نہ ہوا۔ البتہ کلاسیکی موسیقی کا کچھ کچھ ذوق پیدا ہوگیا تھا اور وہ عموماً پی ٹی وی کے کلاسیکی موسیقی کے خصوصی پروگراموں سے پورا ہوجاتا تھا۔ اس دوران موسیقی کا مجموعی مزاج بدل گیا۔کوملتا اور دل گدازنرم نرم سروں کی بجائے پاپ میوزک مقبول ہوگیا جسے میرے کان گوارانہ کرتے۔کبھی کسی پرانے گانے کی آواز کان میں پڑتی تو لمحہ بھر کے لیے توجہ ادھر مبذول ہوجاتی ۔اب میڈیا اور دوسری جگہوں پر پاپ میوزک ہی سنائی دیتا اس لیے موسیقی سے میری دلچسپی بہت کم ہوگئی لیکن موسیقی تو روح کی غذا ہے، اس کی مٹھاس اندر سے نہیں نکل سکتی۔ عمر کے اس حصے میں اچانک احساس ہوا کہ تفکرات اور اعصابی تناؤ کو دور کرنے کے لیے موسیقی بہترین علاج ہے۔میں نے ایک بہت اچھا ڈیک لیالیکن اپنی پسند کے گانوں کو حاصل کرنا مسئلہ بن گیا۔ موسیقی کی بڑی بڑی دکانوں پر خورشید انور کو اب کوئی نہیں جانتا۔فریدہ خانم کی کوئی کیسٹ مشکل سے ملتی ہے۔ شکرہے مہدی حسن ابھی جانے جاتے ہیں۔ زمانہ بدل گیا ہے۔ بے سُرے گانے والے اور تھرک تھرک کر ناچنے والے نئی نسل کے پسندیدہ گلوکار ہیں۔سُر کو سمجھنے اور اس کی باریکیوں کو جاننے والے اب خال خال ہیں۔میں کسی محفل میں یہ رونا رو رہا تھا تو خالد فتح محمد نے گوجرانوالہ سے مجھے کلاسیکی موسیقی کی ایک بہت ہی عمدہ اور منتخب سی ڈی بھجوائی۔ ڈاکٹر عزیز ابن الحسن نے خورشید انور کے اپنے منتخب کیے ہوئے راگوں کا ایک سیٹ عنایت کیا۔ رات سونے سے پہلے ایک آدھ چیز سن کر نیند میں ایک شیرینی سی گھل جاتی ہے ۔ دوریادوں کے جھروکے سے کوئی جھانکتا ہے۔ خاموش سڑک پر ہاتھ میں ہاتھ دئیے خاموشی سے چلتے دو وجود، اب ایک ہیولہ بن گئے ہیں۔ بعض دکھ اور احساس ایسے ہوتے ہیں کہ انہیں کسی سے شیئر نہیں کیاجاسکتا ۔ حتیٰ کہ رفیق حیات اور عزیز سے عزیز دوستوں سے بھی کچھ باتیں، کچھ دکھ بیان نہیں کیے جاسکتے۔بنیادی طور پر آدمی تنہا ہے، اس کے دکھ اور احساسات بھی اسی کے ہیں۔ جنہیں اپنے سینے میں چھپائے ایک دن دنیا کے ہنگاموں سے نکل کر وہ ایک تنہا سفر پر روانہ ہوجاتا ہے۔ تنہائی او راداسی آدمی کا مقدر ہے اور شاید یہی اس کا خسارہ ہے۔
***