افسانہ: ژوم

پیش لفظ

نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ کریم۔ اما بعد۔

زیر نظر افسانہ لکھے ہوئے ایک برس سے زائد عرصہ بیت گیا۔ اور تب سے یہ میرے ہوم پیج پر تنہائی، بیچارگی اور بے بسی کے دن کاٹ رہا ہے کہ کوئی پڑھنے والا نہیں۔

نام میں تھوڑا سا تجرد ہے۔ جی ہاں یہ اںگلش کا ژوم ان ژوم آؤٹ والا ہی ژوم ہے جو کہ کسی طور افسانے کا عنوان نہیں لگتا۔ پر اس کا کیا کیجئے کہ مجھے یہی سوجھ سکا۔

در اصل یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں یونیکوڈ اردو سے نا آشنا تھا اور تب میرے پاس اسے ویب پر شائع کرنے کے لئے رومن کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔ آج سوچا کہ کیوں نہ اسے دھیرے دھیرے کرکے ٹائپ کر ڈالوں۔ لہٰذا پیش خدمت ہے۔

پتہ نہیں یہ افسانے کے زمرے میں آئے گا بھی کہ نہیں۔ اس کا فیصلہ بھی اہل علم احباب ہی کریں گے۔


--
سعود عالم ابن سعید
 
ہولے ہولے لرزتے پانی کا پھیلاؤ بتدریج گھٹتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ بیضاوی تالاب کی شکل اختیار کر گیا اور سطح آب پر کچھ مبہم مبہم سے سائے بنتے بگڑتے نظر آنے لگے۔ لیکن پس منظر کے سمٹنے کا عمل بدستور جاری تھا۔ دھیرے دھیرے پانی کے اطراف میں کچھ مانوس مانوس سے خد و خال ابھرنے لگے پھر سب کچھ واضح ہوتا چلا گیا۔ کیوںکہ حسین آنکھوں کے کٹورے میں خط پیمانہ بناتے ہوئے آنسؤں کا احاطہ کئے ہوئے دوشیزہ کا حسین چہرہ پوری تابناکی کے ساتھ ابھر آیا تھا۔

یہ ویڈیو کیمرے کی آنکھ تھی جو کہ دوشیزہ کی آنکھوں میں بنتے بگڑتے عکس کو پڑھنے کی اپنی انتہائی کوشش میں ناکام ہونے کے بعد نا مراد لوٹ رہی تھی اور منظر ژوم آؤٹ ہو رہا تھا۔ شاید ٹیکنالوجی ابھی اتنی آگے نہیں پہوںچی۔ کاش اس کیمرے میں کوئی پرزہ احساس کی عکاسی کا بھی ہوتا! پر یہ تو صرف نور کی بے جان شعاؤں سے خاکے بناتا ہے۔

شاید انسانی آنکھ بھی ایسا کیمرہ ہے جس میں ژوم کا عمل مصنوعی کیمروں سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ جس کی تصویریں پردہ ذھن پر منعکس ہوتی ہیں اور تیزی سے بنتی بگڑتی ہیں۔

کچھ ایسا ہی عمل اس نو خیز دوشیزہ کی آنکھوں میں بھی جاری تھا۔ اشک تو بہت ہی معمولی سی بات پر چھلک پڑے تھے۔ ایسا ہی ہوتا ہے جب کوئی اتنے ناز و نعم میں پرورش پائے کہ ایسے جھوںکوں تک سے نا واقف ہو جو پھولوں کے نازک پنکھڑیوں میں اٹکے شبنم کے قطروں کو خاک نشین کر پانے کے سوا کچھ کر سکیں۔ بات بس اتنی سی تھی کہ کسی نے آنکھوں میں لگے کاجل میں کچھ عیب نکال دیا تھا۔ بس پھر کیا تھا آنکھوں کا پیالہ لبریز ہو اٹھا۔ اور سارے مناظر اس میں ڈوبتے چلے گئے۔ نظروں کے سامنے دھند کی چادر پھیل گئی۔ تھوڑی دیر خالی الذھنی کے عالم میں گزرے پھر احساسات کے نازک دریچے ایک ایک کر کے وا ہونے لگے۔ دریچوں کے اس پار کے اندھیروں میں کہیں دور ایک دیا اپنی ٹمٹماتی لو کے ساتھ مختصر سے دائرے کو روشن رکھنے کی سعی لا حاصل کر رہا تھا۔

اس مضمحل روشنی میں میلی کچیلی سی ایک عورت اندھیروں میں مدغم ہو رہے سائے کے ساتھ گود میں ایک بچہ لئے بیٹھی تھی۔ نگاہیں دور خلا میں کہیں کچھ تلاش رہی تھیں۔ شاید کسی سوال کا جواب گم ہو گیا تھا یا پردیسی شوہر کے واپسی کی راہ تک رہی تھی۔ جس نے جاتے ہوئے کپڑوں کے ڈھیر سارے جوڑے اور کچھ شوخ رنگ لپ اسٹک لانے کا وعدہ کیا تھا، سرخ لپ اسٹک جس میں اسکی جان اٹکتی تھی۔ یا محبوب کی منتظر تھی اس توقع میں کہ ابھی کہکشاں کی دودھیا سڑک پر دھول اڑاتی گایوں کے غول کو ہانکتا ہوا اس کا بچپن کا ساتھی آ کے والہانہ انداز میں اس سے کہے گا کہ مجھ سے روٹھ کر یہاں کیوں بیٹھی ہو، دیکھو میں تمہاری گایوں کو بھی ہاںک لایا ہوں اور تمھیں ان کی تلاش میں خوار ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس عورت کے ہاتھ مشینی انداز میں ایک مخصوص دورانیہ کے ساتھ گود میں سمٹے بچے کو تھپکیاں دینے میں مصروف تھے۔

بچہ کب کا ان تھپکیوں سے بیگانہ ہو کر نیند کی پریوں کے ہمراہ وادیوں اور چراگاہوں کی سیر کو نکل کھڑا ہوا تھا۔ اس کے ہونٹ غیر محسوس انداز میں مناظر کی ترجمانی میں مصروف تھے۔ کبھی ان پر مسکان رقصاں نظر آتی تو کبھی لبوں کے گوشے قدرے کھنچ جاتے۔ اس کی نظروں تلے مویشیوں کے ایک جھنڈ کے چرنے کا منظر گزرا تو بچہ وہیں ٹھہر گیا۔ قریب ہی کہیں سے چرواہے کی پرسوز آواز سناٹے کو مجروح کر رہی تھی. کتنی سریلی آواز تھی جیسے نغمے کا مخرج انسانی گلا نہ ہوکر کوئی باںسری ہو۔ کیسا درد تھا اور کیسی تڑپ تھی گیت کے بول میں۔ بیتے دنوں کی داستانیں تھیں، محبوبہ کی ملن کے قصے تھے، فرقت کا ذکر تھا۔ سرخ جوڑوں میں سجی دیکھ کر پوچھا تھا کی اب کب لوٹو گی۔۔۔ شاید کبھی نہیں۔۔ اور آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔ وصال و فصال کے اس نغمے میں کس قدر دل سوزی تھی، کتنی سادگی اور سچائی تھی۔

ہوا کے ایک لطیف جھوںکے نے چراغ کی ٹمٹماتی لو کو بھی گل کر دیا۔ اس کے سہارے پر ٹکے خیالات کا محل بھی آن واحد میں مسمار ہو گیا۔ اندھیرے نے دوشیزہ کی آنکھوں سے سارا منظر سمیٹ کر نگل لیا۔ پلکوں کی ذرا سی لرزش سے آنسؤں کے لطیف باندھ ٹوٹ گئے۔ اور سیماب صفت قطرے حصار توڑ کر گالوں کے پیچ و خم کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتے اپنے پیچھے گیلی لکیر چھوڑتے ہوئے نشیب کی جانب رواں ہو گئے۔ اور قطرہ قطرہ کرکے زمین پر پھیلی گرد میں جذب ہو گئے۔ نگاہیں جھک گئیں مانو پلکوں پر اچانک کسی خیال کا بوجھ آ پڑا ہو۔ شاید دیکھنا چاہتی تھیں کی مجھ سے بچھڑ کے ان قطروں کا انجام کیا ہوا۔

مٹی نے ٹپکے ہوئے قطروں کو اپنی باہوں میں سمیٹ لیا۔ قطروں کو دھول کے آغوش کی پناہ مل گئی۔ اس کا تو کام ہی ہے گرے ہؤں کو سہارا دینا اور اپنا شفقت بھرا ہاتھ پھیرنا۔ جھکی ہوئی پلکیں اب اس دھول کو کرید رہی تھیں جس میں دور کہیں کسی خستہ حال سڑک کے نشان دکھ رہے تھے۔ جہاں کبھی کبھار اکا دکا گاڑیوں کی روشنی اندھیرے میں سوراخ کرتی ہوئی اندھیرے کا ہی حصہ بن جاتی تھی۔ کھانسی کی نحیف سی آواز کے باعث اس مدقوق سے انسانی ہیولے پر نگاہ جا ٹکی جو سڑک کے کنارے دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا جانے کن فکروں میں گم تھا۔ مریض چہرے میں دھنسی دو ادھ کھلی آنکھیں اپنی داستانوں کی کتاب وا کیے بیٹھی تھیں۔

اوراق یکے بعد دیگرے پلٹتے جاتے تھے پر ہر صفحے پر یکساں سوالات اور داستانیں مرقوم تھیں۔ گھر سے نکلتے ہوئے کیا کچھ وعدے کیے تھے۔ پر ابھی تک ایک لپ اسٹک بھی نہ خرید سکا۔ کیا مجھے گھر لوٹ جانا چاہئے۔ خالی ہاتھ دیکھ کر بیوی کی آنکھوں میں شکوہ ہو گا یا ملن کی خوشی۔ کیا وہ اپنے دل سے اپنے بچپن کے ساتھی کا خیال نکال سکی ہو گی جس کا اظہار اس نے کبھی نہیں کیا۔ پر اس کے لئے چاہت تو میری بھی کم نہ تھی۔ اب تو منا بھی بڑا ہو گیا ہو گا۔ جو میری انگلی پکڑ کے چلنا چاہتا ہو گا۔ لبوں پر اچانک کسی جزبے کے تحت ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور فوراً ہی معدوم ہو گئی۔ میں منے کو کیا مستقبل دے سکوںگا جب کی میرا اپنا حال اس تیز روشنیوں والے شہر کے اندھیروں میں گم ہو چکا ہے۔ کیا مجھے اگلی گزرنے والی گاڑی سے اس شہر کو روانہ ہو جانا چاہیے جس کا راستہ گاڑی کے نیچے سے ہوکر گزرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہیولہ سڑک کی جانب کھسکنے لگتا ہے۔

ارے اب تو یہ خفگی تھوک دو کہ فساد کی جڑ کاجل بھی آنسؤں سے دھل چکی ہے۔ بہت قریب سے آئی اس اچانک آواز نے دوشیزہ کو ہوش و حواس کی نگری میں لا کھڑا کیا۔ سر گھماتے ہی ویڈیو کیمرے پر نگاہ پڑی جس سے رونے کے منظر کی تصویر کشی ہو رہی تھی۔ بے اختیار ہی اک شرمسار سی مسکراہٹ دوشیزہ کے چہرے پر بکھر گئی۔ اور تبھی کیمرے کی سرخ بتی نے ریل کے ختم ہونے کا اعلان کر دیا۔

اور وہ مسکان امر ہو گئی جو نہ ژوم ان ہو سکتی ہے نہ ژوم آؤٹ۔


--
سعود عالم ابن سعید

کتبہ: 10/10/2006


تمام شد!​
 
عزت افزائی ہے شمشاد بھائی ورنہ میں کیا اور میری بساط کیا۔

اس پر تبصرے کا علیحدہ دھاگہ موجود ہے، پر اب چونکہ یہ تمام ہو چکا ہے اس لئے یہاں بھی کوئی مذائقہ نہیں۔ :)
 

شمشاد

لائبریرین
سعود بھائی اب چونکہ یہ مکمل ہو چکا اس لیے میں نے یہاں اپنا پیغام لکھا تھا۔
 

الف عین

لائبریرین
سعود۔ آج کل تو کیمرے کی سخت بتی یہ اعلان کرتی ہے کہ فلیش کے لئے بیٹری ختم ہو رہی ہے۔ کچھ عرق باقی نہیں رہا!!
 

الف عین

لائبریرین
او ہو میری ٹائپو۔۔ سرخ بتی کی جگہ سخت بتی لکھ گیا!! اور سعود ماشاء اللہ سمجھ گئے میری بات۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ہولے ہولے لرزتے پانی کا پھیلاؤ بتدریج گھٹتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ وہ بیضاوی تالاب کی شکل اختیار کر گیا اور سطح آب پر کچھ مبہم مبہم سے سائے بنتے بگڑتے نظر آنے لگے۔ لیکن پس منظر کے سمٹنے کا عمل بدستور جاری تھا۔ دھیرے دھیرے پانی کے اطراف میں کچھ مانوس مانوس سے خد و خال ابھرنے لگے پھر سب کچھ واضح ہوتا چلا گیا۔ کیوںکہ حسین آنکھوں کے کٹورے میں خط پیمانہ بناتے ہوئے آنسؤں کا احاطہ کئے ہوئے دوشیزہ کا حسین چہرہ پوری تابناکی کے ساتھ ابھر آیا تھا۔

یہ ویڈیو کیمرے کی آنکھ تھی جو کہ دوشیزہ کی آنکھوں میں بنتے بگڑتے عکس کو پڑھنے کی اپنی انتہائی کوشش میں ناکام ہونے کے بعد نا مراد لوٹ رہی تھی اور منظر ژوم آؤٹ ہو رہا تھا۔ شاید ٹیکنالوجی ابھی اتنی آگے نہیں پہوںچی۔ کاش اس کیمرے میں کوئی پرزہ احساس کی عکاسی کا بھی ہوتا! پر یہ تو صرف نور کی بے جان شعاؤں سے خاکے بناتا ہے۔

شاید انسانی آنکھ بھی ایسا کیمرہ ہے جس میں ژوم کا عمل مصنوعی کیمروں سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ جس کی تصویریں پردہ ذھن پر منعکس ہوتی ہیں اور تیزی سے بنتی بگڑتی ہیں۔

کچھ ایسا ہی عمل اس نو خیز دوشیزہ کی آنکھوں میں بھی جاری تھا۔ اشک تو بہت ہی معمولی سی بات پر چھلک پڑے تھے۔ ایسا ہی ہوتا ہے جب کوئی اتنے ناز و نعم میں پرورش پائے کہ ایسے جھوںکوں تک سے نا واقف ہو جو پھولوں کے نازک پنکھڑیوں میں اٹکے شبنم کے قطروں کو خاک نشین کر پانے کے سوا کچھ کر سکیں۔ بات بس اتنی سی تھی کہ کسی نے آنکھوں میں لگے کاجل میں کچھ عیب نکال دیا تھا۔ بس پھر کیا تھا آنکھوں کا پیالہ لبریز ہو اٹھا۔ اور سارے مناظر اس میں ڈوبتے چلے گئے۔ نظروں کے سامنے دھند کی چادر پھیل گئی۔ تھوڑی دیر خالی الذھنی کے عالم میں گزرے پھر احساسات کے نازک دریچے ایک ایک کر کے وا ہونے لگے۔ دریچوں کے اس پار کے اندھیروں میں کہیں دور ایک دیا اپنی ٹمٹماتی لو کے ساتھ مختصر سے دائرے کو روشن رکھنے کی سعی لا حاصل کر رہا تھا۔

اس مضمحل روشنی میں میلی کچیلی سی ایک عورت اندھیروں میں مدغم ہو رہے سائے کے ساتھ گود میں ایک بچہ لئے بیٹھی تھی۔ نگاہیں دور خلا میں کہیں کچھ تلاش رہی تھیں۔ شاید کسی سوال کا جواب گم ہو گیا تھا یا پردیسی شوہر کے واپسی کی راہ تک رہی تھی۔ جس نے جاتے ہوئے کپڑوں کے ڈھیر سارے جوڑے اور کچھ شوخ رنگ لپ اسٹک لانے کا وعدہ کیا تھا، سرخ لپ اسٹک جس میں اسکی جان اٹکتی تھی۔ یا محبوب کی منتظر تھی اس توقع میں کہ ابھی کہکشاں کی دودھیا سڑک پر دھول اڑاتی گایوں کے غول کو ہانکتا ہوا اس کا بچپن کا ساتھی آ کے والہانہ انداز میں اس سے کہے گا کہ مجھ سے روٹھ کر یہاں کیوں بیٹھی ہو، دیکھو میں تمہاری گایوں کو بھی ہاںک لایا ہوں اور تمھیں ان کی تلاش میں خوار ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ اس عورت کے ہاتھ مشینی انداز میں ایک مخصوص دورانیہ کے ساتھ گود میں سمٹے بچے کو تھپکیاں دینے میں مصروف تھے۔

بچہ کب کا ان تھپکیوں سے بیگانہ ہو کر نیند کی پریوں کے ہمراہ وادیوں اور چراگاہوں کی سیر کو نکل کھڑا ہوا تھا۔ اس کے ہونٹ غیر محسوس انداز میں مناظر کی ترجمانی میں مصروف تھے۔ کبھی ان پر مسکان رقصاں نظر آتی تو کبھی لبوں کے گوشے قدرے کھنچ جاتے۔ اس کی نظروں تلے مویشیوں کے ایک جھنڈ کے چرنے کا منظر گزرا تو بچہ وہیں ٹھہر گیا۔ قریب ہی کہیں سے چرواہے کی پرسوز آواز سناٹے کو مجروح کر رہی تھی. کتنی سریلی آواز تھی جیسے نغمے کا مخرج انسانی گلا نہ ہوکر کوئی باںسری ہو۔ کیسا درد تھا اور کیسی تڑپ تھی گیت کے بول میں۔ بیتے دنوں کی داستانیں تھیں، محبوبہ کی ملن کے قصے تھے، فرقت کا ذکر تھا۔ سرخ جوڑوں میں سجی دیکھ کر پوچھا تھا کی اب کب لوٹو گی۔۔۔ شاید کبھی نہیں۔۔ اور آنکھیں ڈبڈبا گئی تھیں۔ وصال و فصال کے اس نغمے میں کس قدر دل سوزی تھی، کتنی سادگی اور سچائی تھی۔

ہوا کے ایک لطیف جھوںکے نے چراغ کی ٹمٹماتی لو کو بھی گل کر دیا۔ اس کے سہارے پر ٹکے خیالات کا محل بھی آن واحد میں مسمار ہو گیا۔ اندھیرے نے دوشیزہ کی آنکھوں سے سارا منظر سمیٹ کر نگل لیا۔ پلکوں کی ذرا سی لرزش سے آنسؤں کے لطیف باندھ ٹوٹ گئے۔ اور سیماب صفت قطرے حصار توڑ کر گالوں کے پیچ و خم کے ساتھ اٹکھیلیاں کرتے اپنے پیچھے گیلی لکیر چھوڑتے ہوئے نشیب کی جانب رواں ہو گئے۔ اور قطرہ قطرہ کرکے زمین پر پھیلی گرد میں جذب ہو گئے۔ نگاہیں جھک گئیں مانو پلکوں پر اچانک کسی خیال کا بوجھ آ پڑا ہو۔ شاید دیکھنا چاہتی تھیں کی مجھ سے بچھڑ کے ان قطروں کا انجام کیا ہوا۔

مٹی نے ٹپکے ہوئے قطروں کو اپنی باہوں میں سمیٹ لیا۔ قطروں کو دھول کے آغوش کی پناہ مل گئی۔ اس کا تو کام ہی ہے گرے ہؤں کو سہارا دینا اور اپنا شفقت بھرا ہاتھ پھیرنا۔ جھکی ہوئی پلکیں اب اس دھول کو کرید رہی تھیں جس میں دور کہیں کسی خستہ حال سڑک کے نشان دکھ رہے تھے۔ جہاں کبھی کبھار اکا دکا گاڑیوں کی روشنی اندھیرے میں سوراخ کرتی ہوئی اندھیرے کا ہی حصہ بن جاتی تھی۔ کھانسی کی نحیف سی آواز کے باعث اس مدقوق سے انسانی ہیولے پر نگاہ جا ٹکی جو سڑک کے کنارے دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھا جانے کن فکروں میں گم تھا۔ مریض چہرے میں دھنسی دو ادھ کھلی آنکھیں اپنی داستانوں کی کتاب وا کیے بیٹھی تھیں۔

اوراق یکے بعد دیگرے پلٹتے جاتے تھے پر ہر صفحے پر یکساں سوالات اور داستانیں مرقوم تھیں۔ گھر سے نکلتے ہوئے کیا کچھ وعدے کیے تھے۔ پر ابھی تک ایک لپ اسٹک بھی نہ خرید سکا۔ کیا مجھے گھر لوٹ جانا چاہئے۔ خالی ہاتھ دیکھ کر بیوی کی آنکھوں میں شکوہ ہو گا یا ملن کی خوشی۔ کیا وہ اپنے دل سے اپنے بچپن کے ساتھی کا خیال نکال سکی ہو گی جس کا اظہار اس نے کبھی نہیں کیا۔ پر اس کے لئے چاہت تو میری بھی کم نہ تھی۔ اب تو منا بھی بڑا ہو گیا ہو گا۔ جو میری انگلی پکڑ کے چلنا چاہتا ہو گا۔ لبوں پر اچانک کسی جزبے کے تحت ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی اور فوراً ہی معدوم ہو گئی۔ میں منے کو کیا مستقبل دے سکوںگا جب کی میرا اپنا حال اس تیز روشنیوں والے شہر کے اندھیروں میں گم ہو چکا ہے۔ کیا مجھے اگلی گزرنے والی گاڑی سے اس شہر کو روانہ ہو جانا چاہیے جس کا راستہ گاڑی کے نیچے سے ہوکر گزرتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ہیولہ سڑک کی جانب کھسکنے لگتا ہے۔

ارے اب تو یہ خفگی تھوک دو کہ فساد کی جڑ کاجل بھی آنسؤں سے دھل چکی ہے۔ بہت قریب سے آئی اس اچانک آواز نے دوشیزہ کو ہوش و حواس کی نگری میں لا کھڑا کیا۔ سر گھماتے ہی ویڈیو کیمرے پر نگاہ پڑی جس سے رونے کے منظر کی تصویر کشی ہو رہی تھی۔ بے اختیار ہی اک شرمسار سی مسکراہٹ دوشیزہ کے چہرے پر بکھر گئی۔ اور تبھی کیمرے کی سرخ بتی نے ریل کے ختم ہونے کا اعلان کر دیا۔

اور وہ مسکان امر ہو گئی جو نہ ژوم ان ہو سکتی ہے نہ ژوم آؤٹ۔


--
سعود عالم ابن سعید

کتبہ: 10/10/2006


تمام شد!​
مجھے پتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چھپے رستم
آپ نے لگتا ہے ایک ایک پل کے ہزاروے حصے کو سوچا ہے یا آپ اس طرح سوچتے ہیں ۔۔۔یہ لائین ادھر ہے تو اس کا اینگل یوں کیوں ہو اور یہ نہ ہوتا تو ایسے ہوتا ۔۔۔۔
عمدہ منظر نگاری
کیمرہ مین کے کارنامے !
 

نور وجدان

لائبریرین
پیش لفظ

نحمدہ و نصلی علیٰ رسولہ کریم۔ اما بعد۔

زیر نظر افسانہ لکھے ہوئے ایک برس سے زائد عرصہ بیت گیا۔ اور تب سے یہ میرے ہوم پیج پر تنہائی، بیچارگی اور بے بسی کے دن کاٹ رہا ہے کہ کوئی پڑھنے والا نہیں۔

نام میں تھوڑا سا تجرد ہے۔ جی ہاں یہ اںگلش کا ژوم ان ژوم آؤٹ والا ہی ژوم ہے جو کہ کسی طور افسانے کا عنوان نہیں لگتا۔ پر اس کا کیا کیجئے کہ مجھے یہی سوجھ سکا۔

در اصل یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں یونیکوڈ اردو سے نا آشنا تھا اور تب میرے پاس اسے ویب پر شائع کرنے کے لئے رومن کے سوا کوئی چارہ کار نہ تھا۔ آج سوچا کہ کیوں نہ اسے دھیرے دھیرے کرکے ٹائپ کر ڈالوں۔ لہٰذا پیش خدمت ہے۔

پتہ نہیں یہ افسانے کے زمرے میں آئے گا بھی کہ نہیں۔ اس کا فیصلہ بھی اہل علم احباب ہی کریں گے۔


--
سعود عالم ابن سعید
یہ تو ایسے لکھا جیسے ابھی خطبہ شروع کیا جانا تھا مگر آگے افسانہ
 
Top